نسیم حجازی سے ارطغرل تک عہد کہن کی داستانیں


ہم ماضی میں کیوں جینا چاہتے ہیں؟ یا دوسرے الفاظ ہمیں ماضی ہمیں کیوں پر کشش نظر آتا ہے؟ اس پر زیادہ مغز ماری کی ضرورت نہیں اس کا ایک سیدھا سادہ سا جواب ہے کیونکہ ہمارا ماضی تابناک تھا جب ہمارے ہم مذہبوں نے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور دنیا کے ایک بڑے حصے میں کو اپنے قبضے میں کرنے میں کامیاب ٹھہرے۔ ہمارے ذہن ماضی کے صرف ان حالات و واقعات کو ہی قبول کرتے ہیں جن میں ہمارے ہم مذہب سرخرو ہوئے۔ اس میں ایک عام آدمی کوئی غلطی نہیں کیونکہ ہمیں تاریخ کے نام پر جو کچھ پڑھانے سے بھی زیادہ رٹوایا گیا ہے اس میں ظالم و مظلوم اور حق و باطل کی بجائے ہیرو اور ولن مذہب کی بنیاد پر تراشے گئے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں نسیم حجازی کے ناولوں سے لے کر ارطغرل ڈرامہ بھاتا ہے۔ نسیم حجازی کے ناول ہوں یا ارطغرل ڈرامہ اس میں ماضی کی حسین یادوں اور تابناک واقعات کو اس کمال مہارت سے پیش کیا جاتا ہے کہ انسان اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ آج یہی صورتحال پاکستان میں ہے کہ ہر دوسرا شخص اس ڈرامے کے بارے میں بات کرتا ہوا نظر آئے گا۔ ڈرامے کی یہ خوبی تو مسلمہ ہے کہ اس نے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے اور اس کے پس پردہ ہماری وہ جبلت کار فرما ہے جس میں ہمارے ہیرو فتح یاب ہوتے نظر آنے چاہئیں۔

کسی ناول اور ڈرامے کے اس پہلو کا اعتراف تو کرنا چاہیے جس میں وہ سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لے لیکن ماضی کے واقعات کی بنا پر مستقبل کی ایسی پیش بینی کرنا کہ جس کا حقیقت سے دور پرے کا واسطہ بھی نہ ہو وہ پرلے درجے کی بچگانہ بلکہ بیوقوفانہ سوچ ہے۔ اب ارطغرل نامی ڈرامے پر خلافت عثمانیہ کی بحالی کا سارا دار و مدار ہے تو یہ خلافت تو بحال ہونے سے رہی اور اس سے بھی بڑھ کر جو اس خلافت پر متمکن تھے انہیں تو اس کی چنداں فکر نہیں۔ ترکی والے تو خود اس خلافت سے دستبردار ہو کر ایک جدید قومی ریاست پر راضی ہوئے اور آج تک ان کی یہ قومی ریاست کامیابی سے کارفرما ہے۔ ترکوں کے برعکس ہمارا یہ وتیرہ ہے کہ جس خلافت سے خود ترک دستبردار ہوکر جدید قومی ریاست میں رہنے پر خوش ہیں اس کی بحالی کے لیے ہم خواہ مخواہ دیوانے ہوئے جا رہے ہیں۔

ماضی پرستی ایک ایسی عادت ہے جو انسان کو حال سے بے گانہ اور مستقبل سے لا تعلق کر دیتی ہے۔ پدررم سلطان بود اپنی جگہ بجا لیکن تم خود کیا ہو۔ ماضی میں رہنے والے اکثر اس کی داستانوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور اسی کیفیت کا ہم شکار ہیں۔ ماضی کو یاد رکھنے میں بے شک کوئی قباحت نہیں لیکن اس میں زندہ رہنا کون سی دانشمندی ہے۔ آج کی دنیا ایک پیچیدہ نوعیت کی ہے۔ یہ سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوؤں سے ماضی کی بادشاہت اور خلافت سے قطعی برعکس ہے۔

آج کی دنیا ایک جمہوری فکر و سوچ، آزادی اظہار، جمہور کی حکمرانی اور شراکتی اقتصادیات کے ایسے نظریات اور خیالات سے بھری ہوئی ہے کہ جس کا ماضی کی بادشاہتوں میں تصور بھی ناممکن تھا۔ آج فرد اپنا حق حکمرانی مانگتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کی دوڑ میں مساوی حقوق کا خواہاں ہے۔ ماضی کی بادشاہت میں ایسا حق قطعی طور پر ناپید تھا۔ اور سب سے بڑھ کر انسان عقل اور فہم ترقی کی اس معراج پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں وہ مطلق العنان تصور حکمرانی کو قبول کرنے سے قاصر ہے۔

آج ریاست اور فرد کے درمیان عمرانی معاہدہ ہوتا ہے کہ جس میں ریاست فرد کی جان، مال اور اس کے حق حکمرانی کی ضامن ہوتی ہے اور اس کے بدلے میں فرد اس ریاست کا ایک ذمہ دار اور قانون پسند شہری ہوتا ہے۔ اب یہ بادشاہت میں تو ممکن نہیں۔ انسانی ترقی کے پہیے کو آگے بڑھنا ہے کیونکہ یہ عین فطرت کے قانون کے مطابق ہے۔ اب یہ کیونکر ممکن ہے کہ پہیہ واپس پلٹ کر گھومنے لگے۔ لیکن ہم شاید کسی شدید نرگسیت کو شکار ہیں کہ جس کی وجہ سے کم اپنے گردو پیش سے غافل ہو کر ماضی میں پناہ ڈھونڈنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

ہمارے ہاں یہ بحث بہت شد و مد سے جاری ہے کہ ترکی زبان کا یہ ڈرامہ دوسری زبانوں کے ان ڈراموں اور فلموں سے بدرجہا بہتر ہے جن میں ایک غیر ملکی کلچر پروموٹ کیا جاتا ہے۔ اول تو یہ بحث ہی بے معنی ہے کیونکہ ترکی کا ڈرامہ بھی ہمارے لیے ایک غیر ملکی ڈرامہ ہے جو ایک ایسی تہذیب اور خطے سے متلعق ہے جس سے ہم پاکستانیوں کا دور دور تک کا تعلق نہیں۔ دوسرا نکتہ ہم اسے ڈرامے کی حد تک رکھتے تو صحیح ہے لیکن جب معاشرے کے طبقات یہ سمجھنا شروع کردیں کہ اس سے خلافت ازسر نو بحال ہونے والی ہے تو پھر یہ ضروری ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایسے سراب سایوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے حقیقت پسندی کا درس دیا جائے کہ اسے بھی دوسرے ڈراموں اور فلموں کی طرح فقط ایک تفریح کے طور پر ہی لیں۔

ہیرو پرستی ہی سہی لیکن کیا ہمارا خطہ اتنا کنگال ہے کہ وہ مقامی تاریخی کرداروں سے کوئی ہیرو نہ چن سکے۔ ہیرو وہ بنائے جائیں جو ظلم و زیادتی کے خلاف برسر پیکار ہوئے ہوں۔ جنہوں نے مظلوم کی داد رسی کے لیے حق کا ساتھ دیا ہو اور ظالم کے خلاف خم ٹھونک کھڑے ہوئے ہوں۔ اب ایسے تاریخی کرداروں کی تقلید اور ان کے سحر میں مبتلا ہونے سے ہمیں پہلے کیا حاصل ہوا جو اب ہوگا کہ جو شمشیر کے زور پر دوسروں کو زیر کرتے تھے۔ اخلاق اور کردار سے مخالفین کے دلوں کو مسخر کرنے والے اصل فاتحین تھے اور تا ابد رہیں گے۔ ماضی کی بجائے حال و مستقبل میں جینے کے لیے علامہ اقبال کہہ گزرے ہیں

ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments