احمد فراز کی یاد میں


پچھلے دنوں معروف صحافی اور کالم نگار جناب مسعود اشعر نے اپنے کالم میں معروف شاعر احمد فراز کے صاحب زادے شبلی فراز کے وزیر اطلاعات کا منصب سنبھالنے پر احمد فراز کی سیاسی وابستگیوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ فراز تو خان عبدالولی خان کی سیاسی جماعت اے این پی میں شامل رہے مگر ان کے صاحب زادے نے ان کے نظریات کے برعکس تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ اس کا جواب ایک اور معروف صحافی اور کالم نگار ہارون رشید نے اپنے کالم میں دیا اور عینی شاہد کے طور پر بتایا کہ احمد فراز بھی تحریک انصاف میں شامل ہو چکے تھے اور عمران خان ان کو اپنے کسی مجوزہ تھنک ٹینک کا حصہ بنانا چاہتے تھے اگرچہ یہ کام ان کے مزاج کا نہیں تھا۔

ہارون رشید صاحب نے فراز کی شخصیت اورمزاج کا تجزیہ بھی کیا کہ وہ متنازع مگر قدآور اور بے حد مقبول شاعر تھے اور اس میں کیا شبہ کہ وہ بعض حوالوں سے متنازع ہونے کے باوجود انتہائی مقبول شاعر تھے اور ان کی شاعری کو پسند کرنے والوں میں نوجوان ہی نہیں بلکہ ہر عمر کے لوگ شامل ہیں اور اس بات کا احساس خود احمد فراز کو بھی تھا، تبھی تو وہ کہتے ہیں:

اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

احمد فراز کی رومانوی شاعری کی تاثیر کے اسیر تو ان گنت ہیں مگر ان کی سیاسی معنویت، مزاحمتی رنگ اور وطن پرستی سے بھرپور شاعری بھی بہت پسند کی جاتی ہے اور ان کے بہت سے اشعار زبان زد عام ہیں۔ اسی مقبولیت کے سبب بر صغیر کے نامور گلوکاروں نے ان کی غزلیں گائیں جو بہت مقبول ہیں۔ ان کی وفات کے بعد البتہ سوشل میڈیا پر ان کے نام کو ہر گرے پڑے شعر کے ساتھ لگا کر جس طرح طبع آزمائی کی گئی وہ بے حد افسوسناک ہے۔ بہرحال! اس سے ان کی مقبولیت اور حیثیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ احمد فراز جیسے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ ان گنت لوگوں کی ان گنت یادیں وابستہ ہوتی ہیں، اس لئے میں نے بھی سوچا کہ احمد فراز کے حوالے سے کچھ ذاتی اور کچھ مشترکہ یادوں میں قارئین کو بھی شریک کیا جائے، شاید ان میں بہت سے لوگوں کی دلچسپی کا کوئی پہلو موجود ہو۔

پہلی یاد ایک مشاعرے کی ہے جو 1970 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ملتان کے قلعہ کہنہ ابن قاسم باغ کے دمدمے (قلعے میں ایک بہت اونچا چبوترہ ہے جس پر کھڑے ہو کر پورے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے ) پر منعقد ہوا تھا۔ اس مشاعرے میں جناب جوش ملیح آبادی کے علاوہ ملک بھر سے اہم شعرا مدعو تھے جن میں احمد فراز بھی تھے۔ راقم ان دنوں گورنمنٹ کالج (اب گورنمنٹ ایمرسن کالج) میں ایف ایس سی کا طالب علم تھا۔ سائنس کا طالب علم ہونے کے باوجود شعروادب کا رسیا تھا۔

ہم چند دوست اس مشاعرے میں شریک ہونے کے لئے گئے۔ اشعار سننے کے ساتھ ساتھ بہت سے شعرا سے میں نے آٹوگراف بھی لئے جن میں احمد فراز بھی تھے۔ وہ ان دنوں جوان رعنا تھے اور ہمیشہ کی طرح مقبول اور پسندیدہ۔ افسوس کہ وہ یادگار نوٹ بک کہیں کھو گئی مگر احمد فراز نے اپنے دستخطوں کے ساتھ جو شعر تحریر کیا تھا وہ اتنی مدت گزر جانے کے باوجود اب بھی حافظے میں محفوظ ہے :

جس کے چہرے پہ میری آنکھیں ہیں
وہ مجھے طعن کم نگاہی دے

یادوں کے جھرمٹ میں ایک اجلی یاد پی ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک مشاعرے کی ہے جس میں احمد فراز نے بھی اپنا کلام پیش کیا اور شاید میرے علاوہ وہ منظر کسی اور نے بھی دیکھا ہو اور وہ پی ٹی وی کے آرکائیو میں بھی محفوظ ہو گا کہ اس دوران میں جب فراز اپنی غزل پڑھ رہے تھے، ٹی وی کے کسی شوخ کیمرہ ہ مین نے اچانک ایک لڑکی کو فوکس کیا جس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ شاعری پر ایسا خراج تحسین شاید ہی کسی اور شاعر کو نصیب ہوا ہو۔

یادوں کا تیسرا پڑاؤ انگلینڈ کا ہے۔ یہ 1980 کی دہائی کے ابتدائی سال تھے۔ میں پی ایچ ڈی کے لئے انگلینڈ کی بریڈفورڈ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ میرے ساتھ میرے دوست اسلم ادیب بھی پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ ہم کبھی کبھی کسی نہ کسی کام سے لندن بھی آتے جاتے تھے۔ بہت سے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ معروف بینکار آغا حسن عابدی مرحوم نے اردو زبان وادب کے فروغ کے لئے لندن میں ”اردو مرکز“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کر رکھا تھا اور معروف شاعر افتخار عارف ان دنوں اس کے معتمد تھے۔

اردو مرکز میں پاک و ہند سے اور دنیا کے دیگر ممالک سے ادیب اور شاعر وہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ کبھی کبھار ہم بھی وہاں جاتے تھے۔ وہیں ہماری ملاقات کئی ادیبوں اور شاعروں سے ہوئی جن میں احمد فراز بھی تھے۔ وہ ان دنوں خود اختیار کردہ جلاوطنی لندن میں کاٹ رہے تھے۔ ان سے ملاقات کی صورت یوں بنی کہ ایک بار اتفاق سے ہم وہیں تھے کہ فراز صاحب آگئے۔ ان سے علیک سلیک ہوئی۔ یوں ان سے بالمشافہ ملاقات کا موقع بن گیا۔ اسی ددوران میں وہاں خالد شریف آگئے۔ یہ وہی خالد شریف ہیں جن کا یہ شعر زبان زد عام ہے :

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

خالد شریف احمد فراز کی کوئی کتاب اپنے ادارے ماورا پبلشرز سے شائع کرنا چاہتے تھے اور وہ فراز صاحب کو غالباً اس کی رائلٹی کی رقم دینے آئے تھے۔ انہوں نے برٹش پاؤنڈز میں کچھ رقم جو اس وقت کے حساب سے مناسب اور معقول تھی، ان کے حوالے کی۔ فراز صاحب نے اہتمام اور احتیاط کے ساتھ رقم گنی اور اپنے پاس محفوظ کر لی۔

چوتھی یاد ایک تقریب کی ہے۔ بہت سے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ بریڈ فورڈ میں پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد آباد ہے جس کی وجہ سے اسے ”لٹل پاکستان“ کہتے ہیں۔ وہاں علمی اور ادبی تقریبات منعقد ہوتی رہتی تھیں۔ کئی تقریبات وہاں کے ”قسمت ریسٹورنٹ“ میں ہوئیں۔ حضرت شاہ اس ریسٹورنٹ کے روح رواں تھے۔ وہ خود بھی شاعری پر طبع آزمائی کرتے رہتے تھے۔ انہی یادگار تقریبات میں ایک تقریب احمد فراز کی کتاب ”بے آواز گلی کوچوں میں“ کی تعارفی تقریب تھی۔ یہ کتاب انہی دنوں میں لندن سے شائع ہوئی تھی۔ اس کے لئے مجھے بھی کتاب کے حوالے سے کچھ پڑھنے کو کہا گیا۔

اس کتاب میں زیادہ تر شاعری جنرل ضیاءالحق کے عہد اور ان کی جلاوطنی کے زمانے کی ہے اور اس میں سیاسی معنویت اور مزاحمتی لب و لہجے کی شاعری ہے۔ میں ان دنوں میں حکومت پاکستان کے سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا یعنی سرکاری وظیفہ خوار (بروزن نمک خوار) تھا، اس لئے کچھ پریشان بھی تھا کہ کتاب میں ان کے مخصوص سیاسی نظریات کی جھلک ملتی ہے، اس پر اظہار خیال سے کہیں میں بھی نظر میں نہ آ جاؤں۔ بہرحال میں نے ایک مختصر تاثراتی مضمون تحریر کیا اور تقریب میں پیش کیا جو فراز صاحب نے بھی پسند کیا۔ میرے پاس اس کتاب پران کے دستخطوں کے ساتھ یہ الفاظ بھی موجود ہیں

فاروق کے لئے، پیار کے ساتھ۔ پھر سے ملنے کی تمنا میں۔

میں نے وہ مضمون ”ماہ نو“ میں اشاعت کے لئے محترمہ کشور ناہید کو بھیج دیا جو اس جریدے کی ایڈیٹر تھیں۔ انہوں نے حسب معمول خط کا جواب دیا اور لکھا کہ ”مضمون عمدہ ہے، میں چھاپنا چاہتی ہوں مگر رسالے کی پالیسی کی وجہ سے چھاپ نہیں سکتی۔ میں امروز کے ادبی ایڈیشن میں اشاعت کے لئے اظہر جاوید (اب مرحوم) کو بھجوا رہی ہوں“ ۔ بہرحال وہ مضمون بعد میں ”امروز“ میں شائع ہو گیا۔

میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ احمد فراز نے کتاب پر لکھا تھا۔ پھر سے، ملنے کی تمنا میں۔ مگر میں ان سے پھر نہ نہ مل سکا۔ تاہم ان سے میری آخری علیک سلیک بہت بعد میں اسلام آباد ائرپورٹ پر جہاز کی سیڑھیوں پر ہوئی۔ میں کسی کام سے اسلام آباد گیا۔ فلائٹ لاہور سے ہو کر اسلام آباد جاتی تھی۔ فراز صاحب لاہور سے سوار ہوئے۔ اسلام آباد جہاز کی سیڑھی پر کھڑے وہ اپنے بیگ کا انتظار کر رہے تھے جو جہاز کے اپر لگیج کیبن میں تھا اوروہ رش کی وجہ سے نکال نہ سکے تھے۔

اس کے تھوڑا عرصہ بعد ہی وہ امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ”اپنا“ کے سالانہ کنونشن میں مشاعرے میں شرکت کے لئے گئے اور وہیں ایک حادثے میں زخمی ہوئے اور اسی دوران میں غالباً ان کے گردوں میں بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوا اور ان کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا۔ اسی بیماری کی حالت میں ان کو اسلام آباد لایا گیا اور وہ پھر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

وہ چلے گئے مگر ان کی یادیں اور شاعری آج بھی تازہ ہے اور اسی طرح مقبول و پسندیدہ ہے جیسے ان کی زندگی میں تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments