انصاف کے تقاضے ادھوے کیوں؟


آج سے ایک سال قبل 21 اپریل 2019 ایک مجذوب شخص جس کا نام شوکت تھا اپنے آبائی شہر تراڑکھل سے اچانک گم ہو جاتا ہے۔ جب شوکت اپنے گھر نہیں لوٹتا تو اس کے ورثا بہت پریشان ہو جاتے ہیں اور شوکت کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ شوکت کی کوئی خبر نہ ملنے پر اس کے ورثا تھانے میں درخواست دائر کرواتے ہیں اور ضلعی انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ شوکت گم ہو چکا ہے اس کو ڈھونڈا جائے۔ شوکت کی اچانک گمشدگی پر اس کے آبائی شہر میں طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی ہیں کہ شوکت کو ایجنسی (خفیہ ادارے ) والوں نے پکڑ لیا ہے اور وہ شوکت کو ضروری تفتیش کے بعد دو تین دن میں واپس چھوڑ دیں گے۔

شوکت کے ورثا کو یہ یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ آپ بے فکر ہو جائیں انشا اللہ شوکت دو تین دن میں واپس آ جائے گا۔ آٹھ سے دس دن بیت جاتے ہیں مگر شوکت کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ شوکت کہاں چلا گیا ہے۔ اچانک 30 اپریل 2019 کو شوکت کی لاش ڈھڈیال کے مقام سے پانی میں تیرتی ہوئی ملتی ہے اور اس کے ورثا کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا جگر گوشہ شوکت اس دنیائے فانی کو الوداع کہتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔

یہاں میں آپ کو تھوڑا سا شوکت کے بارے میں بتاتا چلوں کہ شوکت خورشید ایک مجذوب شخص جو نیم معذور بھی تھا اگر چاہتا تو اپنی معذوری کو کیش کروانے کے لیے ساری عمر کسی شہر کے چوک میں بیٹھ کر بھیک مانگ کر اپنی زندگی اچھے طریقے سے گزر بسر کر سکتا تھا۔ لیکن شاید اس کے غریب اور غیور والدین کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ شوکت اپنے نیم معذور جسم کے ساتھ لوگوں کے سامان کا وزن اپنے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر اپنا خون پسینہ بیچ کر کھاتا تھا۔ کبھی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہوٹل پر سبزیاں کاٹتا اور کبھی برتن دھو کر خوش ہوجاتا۔ شوکت کوئی بھکاری نہیں تھا۔ ایک ایمان دار محنت کش تھا جو اپنے پیٹ کو حلال سے بھرتا تھا۔ مخلص ایسا کے شہر کے تاجروں کو اپنی محنت کی کمائی سے بلا سود قرضے دے دیتا تھا۔

یکم مئی یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے اور اسی دن ایک خوددار مزدور کو ہمیشہ کے لیے اس کی لحد میں اتار دیا جاتا ہے۔ عوام نے محنت کش مزدور کے قاتلوں کو پکڑنے کے لیے احتجاج کیا تو انتظامیہ کی جانب سے گھنٹوں کی مہلت لے کر لاش کی تدفین کر والی گئی۔ یوں انتظامیہ نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے شوکت نام کے اس باب کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی کوشش کی۔

شوکت کا یہ پہلا کیس نہیں ہے ایسے ہزاروں کیس آپ کو اس معاشرے کے اندر ملیں گے جن کے ورثا آج بھی اپنے جگر گوشوں کے انصاف کے لیے عدلیہ کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک ہار گئے ہیں۔ مگر انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ملی۔ اور ستم ظریفی اس قدر کہ اگر کسی امیر کا بیٹا ہوتا تو انتظامیہ اور ریاست کے ذمہ داران ہلچل میں آ جاتے اور دو دن میں کیس کا معاملہ حل ہو جاتا۔ مگر ہائے غریب کی بدقسمتی غریب کو انصاف کس نے دینا ہے، غریب بیچارہ تو پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔

شوکت تراڑکھل شہر کی رونق تھا جسے تراڑکھل شہر کی سبھی لوگ جانتے تھے، ایسے مجذوب اور نیم معذور شخص کو بھلا ایجنسی (خفیہ ادارے ) والے کس لیے اٹھا کر لے جائیں گے۔ ایجنسی والوں کو اگر کسی پر شک ہوتا ہے تو وہ پہلے باقاعدہ اس کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور پھر اس کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ضروری تفتیش کے بعد وہ بندے کو واپس چھوڑ دیتے ہیں نا کہ اس کو قتل کر دیتے ہیں۔ وہ بھی ریاست کا ایک ادارہ ہے۔ اور اس ادارے نے بھی حکام بالا کے آگے جوابدہ ہونا ہوتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایک عام آدمی کی عقل و فہم بھی اس چیز کو تسلیم نہیں کرتا۔ بہرکیف اداروں کو بھی اس کیس میں اپنی کلیئرنس دینی چاہیے۔ تاکہ اداروں پر کوئی سوالیہ نشان باقی نہ رہے۔

ضلعی انتظامیہ نے اس کیس میں انتہائی لاپرواہی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مقتول کی لاش کو تدفین کرنے کے بعد گھنٹے دنوں میں دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں اور پھر مہینے سالوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ قاتل تو دور کی بات ہے ایک سال بیت چکا ہے ابھی تک پوسٹ مارٹم رپورٹ اور انکوائری رپورٹ کو بھی منظر عام پر نہیں لایا جا سکا۔ آہ۔ ۔ ۔ آہ۔ ۔ ۔ صد افسوس۔ او خدا کے بندو جس رپورٹ کو پندرہ دنوں میں پبلک ہونا تھا، وہ ابھی تک پبلک کیوں نہیں ہوئی؟

میں پوچھتا ہوں ظالمو! ان غریب والدین سے اسی ( 80 ) ہزار روپے بٹورنے کے باوجود بھی ان کو رپورٹ کیوں نہیں دی گئی۔ ظالمو! کیا تم نے اللہ کے حضور جوابدہ نہیں ہونا ہے، ان بوڑھے والدین کی آہو پکار اور سسکیاں کیا تمہیں نظر نہیں آتی؟ اس والد کی سفید موتیوں والی داڑھی کا تو خیال کیا ہوتا۔ ظالمو! کب تک ظلم کرتے رہو گے اور غریب سہتے رہیں گے۔ کیا روز محشر اللہ کی عدالت میں پیش نہیں ہونا ہے؟ وہاں کیا جواب دو گے جہاں ہزاروں شوکت تمہارے گریبان پکڑے انصاف کے لیے اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ یہاں تو انصاف نہیں ملتا مگر اس عدالت سے کون بچائے گا، جہاں صرف اور صرف انصاف ہوتا ہے۔

ضلعی انتظامیہ نے ڈیڈ باڈی کے سیمپل فرانزک کے لیے لاہور لیبارٹری بھیجے۔ جس کی رپورٹ پندرہ دن میں آنا تھی مگر تاحال رپورٹ کا کوئی پتہ نہیں۔ مقتول مرحوم کے والد صاحب دو بار اپنی جیب سے روپے خرچ کر کے لاہور کے چکر کاٹ چکے ہیں۔ مگر سوائے ذلت و رسوائی کہ کچھ حاصل نہ ہو سکا اور رپورٹ تاحال نہیں مل سکی۔ جس ریاست کے قانون کا یہ حال ہے کہ ایک سال بیت گیا رپورٹ نہیں آئی تو میں پوچھتا ہوں وہاں شوکت کے والدین کو انصاف کہاں سے ملے گیا۔ وہ بوڑھے والدین جن کا جگر گوشہ قتل کر دیا گیا ان غریبوں کو کون انصاف دلائے گا۔

میرا آپ سب سے ایک سوال ہے کہ کیا ریاست اپنے شہریوں کے حقوق کی ضامن نہیں ہوتی؟ یہ کیسی ریاست ہے جہاں ایک رپورٹ کو آتے آتے سال گزر گیا، ایسے تو انصاف ہوتے ہوتے صدیاں بیت جائیں گی۔ عوام کو کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ مقتول کی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آ سکی؟ آخر کون سی ایسی طاقتیں ہیں جو شوکت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں حائل ہیں۔ شوکت کے ورثا سے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مبلغ اسی ( 80 ) ہزار روپے بٹور نے کے باوجود ایک سال گزر گیا مگر رپورٹ کیوں نہیں منظر عام پر آ سکی؟

آخر شوکت کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے میں کون رکاوٹ بنے؟ کون ہیں وہ جنہوں نے قتل والے دن اس کے ورثا کو فون کال کر کے بلایا؟ شوکت کے بھائی نے جب لاش کو پہچاننے سے انکار کر دیا تو وہ کون تھا جس نے بڑے وثوق سے کہا کہ مقتول آپ کا بھائی ہی ہے؟ سڑک پر پہنچتے ہی کفن اور لکڑی کا باکس دینے والی خلائی مخلوق کون تھی اور میت کے لیے ایمبولینس دینے والے کون تھے؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے چکر میں نہ پڑنے کا مشورہ دینے والے وہ کون تھے؟ ضلعی انتظامیہ اور پولیس اس وقت تک اس کیس میں دو فیصد بھی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہے آخر کیا وجہ ہے؟

ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق ان کی دہلیز پر پہنچائے، مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ قانون بس امیروں کے لیے ہے غریب کا کیا ہے وہ جائیں بھاڑ میں۔

قبل اس کے کہ مظلوم کی ماں کی آنکھیں اپنے جگر گوشے کی یاد میں رو رو کر بے نور ہو جائیں، اس کے جگر گوشے کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اور اس ادھورے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ میں ریاست کے حکام بالا اور ضلعی انتظامیہ سے پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ شوکت قتل کیس کی ایف آئی آر درج کر کے انکوائری کی جائے۔ شوکت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے اور اس کے قاتلوں کو کیف کردار تک پہنچایا جائے۔ میں ان تمام دوستوں کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے اس کیس کو ایک سال کے بعد پھر سے ایک نئی جان بخشی۔ میں تراڑکھل کمیونٹی، بدلتا نوجوان موؤمنٹ، تراڑکھل آفیشل سوشل نیٹ ورک اور بالخصوص جموں کشمیر ٹی وی ( بے آوازوں کی آواز) کی پوری ٹیم اور خواجہ کبیر صاحب کا انتہائی مشکور ہوں جنہوں نے اپنے پروگرام (سچ زندہ ہے ) میں اس کیس کو اجاگر کیا۔

یہ نوجوان ہمارے معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہیں اور لائق تحسین ہیں جو ظلم کے خلاف اس وقت برسرپیکار ہیں۔ اللہ پاک ان نوجوانوں کو فتح سے ہمکنار فرمائے۔ اور ان کی جدوجہد کو سلامت ہمیشہ سلامت رہے۔

اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پر چلتے ہوئے حق اور سچ کا ساتھ دینے کی توفیق و ہمت عطا کرئے۔ (آمین)
والسلام
خیر اندیش (محمد زبیر خان، متحدہ عرب امارات)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments