ارطغرل پاکستان میں اہالیان پاکستان! مبروک، مبروک، مبروک


فخر ملت اسلامیہ، امیر غازی ارطغرل بن سلمان شاہ قایوئی ترکمانی بہ اذن وزیر اعظم ملک خداداد پاکستان، بہ قالب اردو، اپنے گھوڑے جوگانی اور جنگجو ساتھیوں سمیت پی ٹی وی پر تشریف لا چکے ہیں۔ مرحبا، مرحبا، مرحبا۔

جناب غازی ارطغرل کی آمد نے عوام پاکستان میں، جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء سے قریب قریب مایوس ہو چکے تھے، امید کی نئی جوت جگا دی ہے۔ نوجوانان ملت بیضا، جس مجاہد عصر کا انتظار کر رہے تھے وہ آخر، خواہ ٹیلی ویژن سکرین ہی پر سہی، آن پہنچا ہے۔ فرزندان امت مسلمہ، جناب عزت مآب وزیر اعظم صاحب کے اس نعمت غیر مترقبہ کی ترسیل پر تہہ دل سے مشکور ہیں۔

عوام پاکستان کی ان مسرتوں کے وفور سے البتہ کچھ مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جن میں سب سے اہم گھوڑوں کی قلت ہے۔ جناب ارطغرل کے گھوڑے جوگانی کی ایمان افروز ہنہناہٹ، پاکستانی نوجوانوں کو لے دے گئی ہے۔ جس انداز میں ارطغرل جوگانی پر بیٹھ کر اس کی باگیں کھینچتے ہیں اور وہ اپنی اگلی ٹانگوں کو ہوا میں اٹھاتے ہوئے جس انقیاد، اطاعت اور ڈسپلن سے ہنہناتا ہے، یہ منظر ون ویلنگ کے شیدائی بھی کمال حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔

اسپ ارطغرل کی افادیت دیکھتے ہوئے، نوجوانان پاکستان نے دھڑا دھڑ اپنی موٹر کاریں اور موٹر سائیکلیں بیچ کر گھوڑے خریدنے شروع کر دیے ہیں۔ گھوڑوں کی مانگ میں اس اچانک اضافے سے مارکیٹ میں گھوڑے ”شارٹ“ ہو گئے ہیں۔ نوجوانوں کا جوش لیکن بے قابو ہے سو گھوڑوں کی خرید آن لائن بھی دھوم دھام سے جاری ہے۔ اس قلت کا حل کچھ ذہین لوگوں نے گدھے کو بطور متبادل استعمال کر کے بھی نکالنے کی کوشش کی لیکن موصوف نے عین وقت جوش ہینک کر سارا جذبہ معاف کیجئے گا مزا کرکرا کر دیا۔

حکومت جہاں عوام کے، دیریلش ارطغرل ڈرامے میں بے خود ہو کر، ملکی مسائل سے مطلقاً لاتعلق ہونے پر خوش ہے وہیں گاڑیوں کی جگہ عوام میں گھوڑوں کے استعمال کے فروغ پر پریشان بھی ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ کمی سے اسے سیاسی منفعت کی صورت میں کچھ حاصل وصول نہیں ہو رہا۔

دوسرا مسئلہ اس جدید دور میں تلواروں کا حصول ہے۔ ڈرامہ، دیریلش ارطغرل، کے پہلے سیزن کی ابتدائی چند اقساط دیکھنے کے بعد ہی لوگ تلواروں کی خریداری کے لئے بازاروں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ جناب ارطغرل جس مہارت سے ڈرامے میں بذریعہ شمشیر، دشمنان اسلام کو انتہائی قلیل مدت میں نیست و نابود کرتے ہیں اس سے مسلمانان پاکستان تلوار کی افادیت سے ازسر نو متعارف و متاثر ہو رہے ہیں۔ لیکن بازاروں میں شمشیریں عنقا ہیں، ان کی عدم دستیابی پر عوام میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم تلواروں کی مارکیٹ سے مزید عدم موجودگی برداشت نہیں کر سکتے اور حکومت اگلی قسط سے پیشتر وافر تعداد میں ان کا انتظام کرے۔ ڈرامے میں چونکہ بار بار مسلمان جنگجو کفار سے بذریعہ شمشیر نمٹتے ہیں اور انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹتے پھرتے ہیں لہذا بچوں کا جوش ایمانی مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ والدین کے مطابق بچے ہر قسط کے بعد گھر میں موجود ڈوئیاں اور کڑچھے بطور شمشیر استعمال کرتے ہوئے توڑ رہے ہیں سو اس سے پہلے کہ ڈوئیوں اور کڑچھوں کی قلت پیدا ہو، حکومت فی الفور تلواروں کی مارکیٹ میں دستیابی ممکن بنائے۔

بچوں کی طرح نوجوان بھی ہر قسط کے بعد اپنے کرکٹ کے بیٹ، بیڈ منٹن کے ریکٹ اور ہاکیوں سے محروم ہو رہے ہیں کہ ہنوز یہ اشیاء تیغ ارطغرل کا متبادل ثابت نہیں ہو پائیں۔ تلواروں کی عدم دستیابی سے سب سے زیادہ نقصان مالیوں کا ہوا ہے جن سے ملک کے مختلف حصوں میں سینکڑوں کی تعداد میں گھاس کاٹنے والی تلواریں بزور چھین لی گئی ہیں۔ ان واقعات کے بعد ملک کے تمام عجائب گھروں کی سیکورٹی سخت کردی گئی ہے۔

وہ بچے جو کبھی پی ایس ایل کے آغاز پر ماں باپ سے لاہور قلندر، اسلام آباد یونائیٹڈ، کراچی کنگز اور دیگر ٹیموں کی کٹ مانگا کرتے تھے، دیریلش ارطغرل کے نشر ہوتے ہی اب زرہ اور ڈھالوں کا تقاضا کر رہے ہیں۔ والدین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ”طفلان ملت“ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے جلد ہی چمڑے کی زرہوں اور چوبی ڈھالوں کا بندوبست کرے۔ والدین نے زرہوں، تلواروں اور ڈھالوں کے ساتھ ساتھ حکومت سے پلاسٹک کے کافر بھی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ان کے مطابق بچے گھر کے ڈیکوریشن پیسوں سمیت دیگر اشیاء کو کفار سمجھ کر تہہ تیغ کر رہے ہیں جبکہ ڈیکوریشن پیسوں کی انسانی سروں سے نامشابہت سے بیزار بچے، لان میں اگے پھولوں کو کفار کے سروں کی تیار فصل سمجھ کر ڈالی ڈالی کا سر قلم کر رہے ہیں۔ عوامی دباؤ پر حکومت ان اشیاء کی فراہمی پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔

اپوزیشن نے بھی گھوڑوں، تلواروں، زرہوں، ڈھالوں اور پلاسٹک کے کافروں کی قلت پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ قائد حزب اختلاف کے مطابق حکومت ان اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر کے ان کے دام بڑھانا چاہتی ہے کیوں کہ گھوڑوں کے زیادہ تر تاجر اور تلواروں، زرہوں، ڈھالوں اور پلاسٹک کے کفار بنانے کی فیکٹریوں کے بیشتر مالکان کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔

مذہبی جماعتوں نے اپوزیشن کے پلاسٹک کے کفار فراہم کرنے کے بیان اور عوامی دباؤ پر حکومت کی نیم رضامندی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر شرعی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں حقیقی کفار کی وافر تعداد میں موجودگی پر پلاسٹک کے مصنوعی کافر فراہم کرنا ناصرف وسائل کا ضیاع ہے بلکہ جہاد کے خلاف منظم سازش بھی ہے۔ اس سلسلے میں متحدہ علماء کونسل نے بعد از نماز جمعہ ملک گیر مظاہروں کا اعلان بھی کیا ہے۔

دیریلش ارطغرل کی مقبولیت نے عوام کی عمومی پسندیدگی پر بھی خوشگوار اثرات مرتب کیے ہیں۔ ارطغرل سروس اسٹیشن، حلیمہ سلطان بیوٹی پارلر، نور گل پان شاپ، سلیمان شاہ ڈرائی کلینر اور گلدارو سی این جی اسٹیشن سے مارکیٹیں مشرف بہ اسلام ہو رہی ہیں۔

ملک کے سنجیدہ حلقے، مقامی تہذیب و ثقافت کو کمال مہارت اور عمدہ منصوبہ بندی سے نظر انداز کر کے ترکی کی ازخود ترک شدہ ثقافت کو متعارف کرانے پر وزیر اعظم پاکستان پر دل و جان سے ”قربان“ ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈرامہ جہاں قومی ٹیلی ویژن سے نشر ہو کر کامیابی سے بادشاہت، مطلق العنانیت اور شہنشاہیت کے عملی فوائد سے عوام کو بہرہ ور کرے گا وہیں جمہوریت جیسے ”فضول“ اور ”ناکارہ“ نظام کو جس کی بنیادوں میں لاکھوں ”سر پھرے“ حریت پسندوں کا لہو ہے، سے نجات دلانے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

جمہوریت جیسے غیر شرعی نظام سے عوام کو بے زار کرنے کی اس ”حکیمانہ“ کاوش کو اسلامی حلقوں میں خاص طور پر سراہا جا رہا ہے۔ ملک کے سر پھرے حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے اس ڈرامے کے ذریعے جس طرح عصری مسائل کو کلہم نظر انداز کرتے ہوئے امت کی صدیوں سے مجروح آنا کو عثمانی ترکوں کی عظمت رفتہ میں پناہ گزین ہونے کا موقع عنایت فرمایا ہے، اس ”احسان عظیم“ پر عوام بعد از حیات بھی ان کے شکر گزار رہے گے۔

اوروں کو تو چھوڑئیے، اس ڈرامے کی چند اقساط دیکھ کر میری اپنی جذباتی حالت یہ ہے کہ سحری کے وقت بازار سے دہی لانے کے لئے موٹر سائیکل کو ایسے کک مارتا ہوں جیسے گھوڑے کو ایڑ لگا رہا ہوں، ریس دیتے وقت یوں گمان ہوتا ہے جیسے میرے ہاتھوں میں جوگانی کی باگیں ہیں سو ریس پر ریس دیتا ہوں۔ دل سے چاہتا ہوں کہ بائیک کا اگلا پہیہ یوں اوپر اٹھے جیسے ارطغرل کے بیٹھتے ہی جوگانی اپنی اگلی ٹانگیں اٹھاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ریس کی شدت سے سائیلنسر میں سے گھوڑے کی ہنہناہٹ برآمد ہو رہی ہے۔

بائیک چل رہی ہے کہ گھوڑا سرپٹ بھاگ رہا ہے، مجھے اس کا ہوش کہاں۔ میں تو بس سوگت کی زمین روندتا ہوا قلعہ چائیسار سے دہی لینے جا رہا ہوں۔ دہی لیتے ہوئے اس خدشے کے تحت کہ راستے میں منگول مجھ پر حملہ آور ہو کر دہی لوٹنے کی کوشش کریں گے، احتیاطاً شاپر ڈبل کرا لیتا ہوں اور پھر سرپٹ بائیک بھگاتا معاف کیجئے گا چلاتا قائی قبیلے پہنچتا ہوں جہاں ڈھول بجا کر میری آمد کا اعلان ہوتا ہے لیکن اچانک بیگم کی آواز گونجتی ہے

” سحری دا ٹیم مک گیا اے، ہن چپ کر کے دہی فریج وچ رکھ دیو۔ اللہ دے واسطے کوئی کم ویلے سر وی کر لیا کرو۔ جدوں دا اے کمبخت ڈرامہ آیا ہے نال ستے نیانیاں نوں وی نیند وچ منگول سمجھ کے کٹ دیندے نیں۔ بیڑا غرق ایس ڈرامے دا“

اور میں اس دیسی آواز کو سن کر بادل نخواستہ ترکی سے براہ راست لاہور پہنچ جاتا ہوں۔ ہائے حقیقت۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments