سلطنت عثمانیہ، خلافت عثمانیہ کب بنی؟


عدالت، بیگم اور تاریخ میں یہ قدر مشترک ہوتی ہے کہ تینوں آپ کے کسی بھی بلند وبانگ دعوے پر آنکھیں بند کر کہ یقین کرنے کی بجائے تفصیل مانگ لیتے ہیں، وہ بھی ثبوتوں کے ساتھ۔ خالی باتوں وغیرہ سے ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ لہٰذا بے چارہ ملزم، شوہر اور طالب علم جتنا نکما اور نا تجربہ کار ہوتا ہے اتنا ہی پھنستا چلا جاتا ہے۔ کب، کہاں، کیا، کیوں، کیسے کی طرح کے سب سوالات کے جوابات دینے پڑتے ہیں۔ اس سادہ سے سوال کا کہ سلطنت عثمانیہ، خلافت عثمانیہ کب بنی؟ نہایت سادہ سا جواب یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ، 1299 عیسوی میں اپنے وجود میں آنے کے تین سو اٹھارہ سال بعد سن 1517 میں خلافت عثمانیہ بن گئی۔ کیوں کو چھوڑ کر، کب، کیسے، ا ور کہاں کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

سلطا ن سلیم اول با لحا ظ ترتیب نویں عثمانی سلطان اور پہلے عثمانی خلیفہ تھے۔ قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان فاتح ان کے دادا اور صوفی منش کہلانے والے بایزید ثانى ان کے والد تھے۔ قریب چھتیس عثمانی سلاطین میں سب سے ممتاز، سلطان سلیمان عالی شان المعروف القانونی جنہوں نے خلافت وسلطنت عثمانیہ کوبام عروج پر پہنچا دیا ( معروف ترک ڈرامہ میرے سلطان والے ) ، ان کے بیٹے تھے۔

قریب تیس سال حکومت کرنے کے بعد سلطان بایزید ثانى نے، اپنے آٹھ بیٹوں میں سے شہزادہ احمد کو ولی عہد مقرر کیا تو چھوٹے شہزادہ سلیم اول نے اس بات کو ما ئنڈ کر لیا۔ تخت کے لیے جنگ ہو ئی تو سلیم اول، فرسٹ آ ئے۔ اپنے بھائی ولی عہد شہزادہ احمد، دوسرے بھائی شہزادہ کخت اور اپنے بھتیجوں کو قتل کروانے کے بعداپنے والد، سلطان بایزید ثانى کودور ایک یونانی جزیرے پر بھجوا دیا جہاں سے جلد ہی بوڑھے سلطان کو مرنے پر رہائی مل گئی۔ ان تمام ضروری کاموں سے فارغ ہو کر1512عیسوی میں سلیم اول نے قوم، ملک اور سلطنت کے وسیع تر مفاد میں سلطان بننا قبول کیا۔

سلطان بننے کے پانچ سال بعد، جنوری 1517 میں سلطان سلیم اول کی ترک فوج نے مصر کی مملوک سلطنت کی جانب توجہ کی۔ قاہرہ اس وقت مسلمانوں کے عباسی خلیفہ المتوکل سوئم کی بدولت دارالخلافہ تھا۔ پھر امت کے وسیع تر مفاد میں کچھ جنگیں ہویئں۔ خلیفہ متوکل کو قید کر کے استنبول بھیج دیا گیا اور وہ وہاں مرنے سے پہلے قاہرہ والی خلافت، بقول استنبول والوں کے ا نہین اپنی مرضی سے ہینڈ اوور کر گئے۔ ویسے بھی ٹیک اور کے بعد ہینڈ اوور آسان ہو جاتا ہے۔ اسی دوران قاہرہ میں آخری مملوک سلطان تمان بے دوئم کے سا تھ وہ کیا گیا جو ایک سلطان ہی دوسرے سلطان کے ساتھ کر سکتا ہے۔ ترک سلطان سلیم اول نے مصری سلطان تمان بے دوئم کا سر کٹوا کر کر قاہرہ کے داخلی دروازے پر لٹکا دیا، جہاں وہ چپ چاپ لٹکا رہا اور اف تک نہ کی۔

مملوکوں کی شکست کے بعد چھ صدی پہلے بغداد سے قاہرہ منتقل ہونے والا دارلخلافہ استنبول امپورٹ ہوا، سلیم اول نے خادمین حرمین شریفن ہونے کا اعلان کیا اور مکہ، مدینہ، اردن، شام، فلسطین، حجاز سمیت ہزاروں مربع میل کا علاقہ پکے ہو ئے فروٹ کی طرح سلطان کی گود میں آن گرا۔ یوں عرب علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو قریب نو سو سال میں پہلی بارایک غیر عرب خلیفتہ المسلمیناور امیر المومنین مل گیا۔ اگلے تین سو سال تک، ڈی این اے، مو روثی جائییداد، محل، کنیزوں، سونے چاندی کے انبار اور عظیم الشان سلطنت کے ساتھ ساتھ خلافت بھی نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔ سلیم اول کے بعدپچیس عثمانی سلاطین یا خلفا یکے بعد دیگر آ ئے۔ اگرارطغرل کے بیٹے عثمان نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی تھی تو با یزید کے بیٹے سلیم اول نے خلافت حاصل کر کے اس سلطنت کی عمر میں چارصدیوں کا اضافہ کر دیا۔

خلافت سنبھالنے کے بعد سلطان سلیم اول نے ہندوستان پر بھی توجہ دی جہاں ان دنوں بابر مغلیہ سلطنت کی داغ بیل کی رکھ رہا تھا۔ سلطان سلیم نے شروع میں ایرانی صفیوں کے خلاف محاز بنانے کے لیے بابر کے د شمنوں کا ساتھ دیا۔ تاہم سلیم اول نے دو سال بعد بابرکے ساتھ فری ہونے کی کوشش کی اور اس کو اپنی اطاعت کرنے اور خلافت کوقبول کرنے کا پیغام بھیجا جس بابر نے رد کر دیا۔ اس کے بعد کبھی عثمانیوں کی جانب سے مغلوں کو خلیفہ کی اطاعت کا نہیں کہا گیاشاید ترک النسل ہونے کا مغلوں کو فائدہ ہو گیا۔ خلیفہ بننے کے تین سال بعد سلطان سلیم اول کی وفات ہوگئی۔ سلطان بایزید دوئم اور سلطان سلیم اول آج استنبول میں اپنے اپنے نام سے موسوم مساجد کے احاطے میں خاموشی سے دفن ہیں۔

اس سوال کا جواب کہ سلطنت عثمانیہ، خلافت عثمانیہ کیوں بنی تو سلطان سلیم اول اور پہلے عثمانی خلیفہ جو فارسی اور ترک زبان میں شعر بھی کہتے، اپنی ایک نظم میں اس سوال کا جواب سلطان شایدخوددے گئے ہیں۔

قدموں میں بچھا ہوا یہ معمولی قالین میرے
ا پنی ہستی میں اس قدر وسیع اور فراخ ہے کہ
اس پر دو درویش یا صوفی آسانی سے کھڑے ہو بھی جائیں،
تو اسے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
لیکن کیاکریں کہ اس زمین کا،
جس کی تمام تر وسعت اور کشادگی بھی۔ ۔ ۔
دو باد شاہوں کے لئے کافی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments