کیا سائنسی ایجادات بھی روحانی فیض کا نتیجہ ہیں؟


اگر انسانی جسم پر غور کریں تو یہ جسم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک جسم خاکی ہے اور ایک جسم لطیف۔ جسم خاکی جسم کا وہ حصہ ہے جو بظاہر آپ کو نظر آتا ہے جس میں سارے جسمانی اعضا شامل ہیں۔ جسم لطیف وہ حصہ جو بظاہر نظر نہیں آتا لیکن سارا جسم اسی کی وجہ سے حرکت کرتا ہے۔ جسے عرف عام میں روح کا نام دیا جاتا ہے۔ آج کل کی سادہ زبان میں آپ جسم خاکی کو ہارڈ ویئر اور جسم لطیف کو سافٹ ویئر کہہ سکتے ہیں۔ اور کمپیوٹر کے لوگ جانتے ہیں کہ سافٹ وئیر کے بغیر ہارڈویئر کسی کام کا نہیں بلکہ بالکل ناکارہ ہے چاہے وہ کتنا بھی قیمتی کیوں نہ ہو۔

جسم خاکی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے اور اسی دنیا میں ہی رہ جاتا ہے۔ اس کی ضروریات بھی اس دنیا سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ جبکہ جسم لطیف جس دنیا سے آتا ہے پھر انسان کے مرنے کے بعد واپس اسی دنیا میں چلا جاتا ہے اس دنیا کو کہتے ہیں کاسمک ورلڈ۔ کاسمالوجی علم فلکیات کی وہ شاخ ہے جس میں کائنات کی ابتدا، ارتقا جو کہ بگ بینگ سے لے کر آج تک اور مستقبل کے بارے میں علم حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر پر کائنات کی ابتدا، ارتقا اور حتمی تقدیر کا سائنسی مطالعہ ہے۔

26 ستمبر 2017 کی ایک رپورٹ میں ناسا نے کاسمالوجی کی تعریف کچھ اس طرح سے بیان کی ہے کہ یہ کائنات کا بڑے پیمانے پر سائنسی مطالعہ کا نام ہے۔ کاسمالوجسٹ ابھی تک یہ حتمی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ یہ ایک کائنات ہے یا بہت ساری کائناتیں۔ بعض دفعہ وہ اسے ملٹی ورس کا نام بھی دیتے ہیں۔ بہرحال یہ تو آنے والے وقت میں ہی سائنسدان کچھ بتا سکیں گے کہ کاسمک ورلڈ کی اصل کہانی کیا ہے۔

بہت سارے سائنسدان جب انہوں نے حیرت انگیز ایجادات کر لیں تو ان سے پوچھا گیا یہ کتنا بڑا کارنامہ آپ نے کیسے سرانجام دیا۔ محنت اور لگن کے علاوہ ان کا جواب ہوتا ہے بس ایک دم ذہن میں خیال آیا اور میں نے یہ کر دیا۔ کئی سائنسدان تو ایسے بھی تھے جو اپنی ایجادات پر حیران و پریشان رہ گئے کہ یہ چیز ان سے کیسے وجود میں آ گئی۔ سائنسدانوں کے حیرت انگیز واقعات پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر یہاں چھوٹے سے مضمون میں چند سائنسدانوں کی مثالیں پیش خدمت ہیں۔

الیگزنڈر فلیمنگ نے ستمبر 1928 میں پینسیلین اتفاقا ایجاد کی تھی۔ فلیمنگ پیشہ کے اعتبار سے بیکٹیریالوجسٹ تھا یعنی وہ شخص جو جراثیم کا مطالعہ کرتا ہے۔ وہ اپنے تجربات اکثر لندن کے سینٹ میری ہاسپٹل میں کیا کرتا تھا۔ ایک روز اس نے تجرباتی پلیٹ جس میں سٹیفیلو کاکسی بیکٹیریا تھا، اس کو کھڑکی کے پاس رکھ دیا۔ اس کے چند گھنٹوں کے بعد جب وہ واپس لوٹا تو اس نے دیکھا کہ کچھ کھڑکی پر لگی پھپھوندی کہیں سے اڑ کر آ گئی تھی اور اس نے بیکٹیریا کو خراب کر دیا تھا۔

کوئی اور ہوتا تو اپنی پلیٹ کو باہر پھینک کر تجربہ دوبارہ شروع کر دیتا مگر اس نے پلیٹ کو غور سے دیکھا اور جب اس کو اپنی مائیکرو اسکوپ کے نیچے قریب سے دیکھا تو وہ حیران ہوا کہ اردگرد موجود پھپھوندی کافی حد تک صاف ہو چکی تھی۔ یہ پھپھوندی اس زہریلے سٹیفا لوکاکی کو ہڑپ کر رہی تھی یوں اتفاقا فلیمنگ نے پین سی لین ایجاد کر لی۔ 1945 میں فلیمنگ، فلوری، اور چین کو پین سی لین ایجاد کر نے پر نوبل انعام دیا گیا تھا۔ امریکہ میں ڈاکٹر اس کے ہر سال 100 ملین سے زیادہ نسخے لکھ کر دیتے ہیں۔

1879 میں کونسٹنٹائن فال برگ نامی ایک کیمیا دان تارکول کے متبادل استعمالات پر تحقیق کر رہا تھا ایک دن کام سے فارغ ہونے کے بعد گھر پہنچا تو بیوی کے ساتھ چائے پیتے ہوئے اسے بسکٹ کچھ زیادہ میٹھے محسوس ہوئے، اگر کوئی فرماں بردار شوہر ہوتا تو سوچتا شاید بیوی کے ہاتھ لگنے سے مٹھاس بڑھ گئی ہے مگر اسے خیال آیا کہ آج وہ ہاتھ دھونا بھول گیا ہے اور ہاتھوں پر تارکول لگی ہوئی ہے۔ یوں مصنوعی شوگر ایجاد ہوئی جو آج زندگی کا اہم ترین جزو ہے

ہالی ووڈ اور بالی ووڈ ستاروں کے رنگ برنگے دلکش بالوں کے پرستار تو بہت ہیں مگر یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کلر ڈائی کرنے کا فارمولا بھی حادثاتی طور پر ہاتھ آیا۔ ولیم ہینری پرکن پر ملیریا کا علاج دریافت کرنے کی دھن سوار تھی ایک دن تجربات کے دوران کیمیائی مادوں کے ملاپ سے خوبصورت رنگ سامنے آئے تو سنتھیٹک کلر دریافت ہوئے۔

الفریڈ نوبل کو موت کا سوداگر کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے ڈائنامائیٹ ایجاد کیا جو بم دھماکوں میں استعمال ہوتا ہے اسی کے نام سے ہی ہر سال نوبل انعام دیے جاتے ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈائنامائیٹ بھی ایک حادثے کی پیداوار ہے۔ الفریڈ نائٹرو گلیسرین پر تجربات کر رہا تھا ایک کنستر لیک ہونے کی وجہ سے محلول لکڑی کے برادے میں جذب ہو گیا اور آگ لگائے جانے پر دھماکے سے پھٹ گیا۔

1800 کی دہائی میں برطانوی فارماسسٹ جان واکر ادویات بنانے میں استعمال ہونے والے مختلف کیمیکلز کو لکڑی کے تنکوں کے ذریعے مکس کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ایک تنکے کے سرے پر کوئی مادہ چپکا ہوا ہے۔ جب انہوں نے اس مادہ کو رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کی تو وہ مادہ آگ پکڑ گیا۔ یہاں سے ”جان“ کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ زندگی کو آسان بنانے کے لیے ماچس بنائی جائے۔

انٹی ڈپریسنٹ ادویات پہلے پہل 1957 میں سامنے آئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ادویات اصل میں ٹی بی کے مرض کے سدباب اور علاج کے لیے بنائیں گئیں تھیں جو اس وقت ایک موذی اور ناقابل علاج مرض سمجھا جاتا تھا۔ اس کو بنانے والے فارماسسٹس نے یہ بات نوٹ کی کہ ان ادویات نے ٹی بی کے علاج میں تو خاطر خواہ فائدہ نہیں دکھایا لیکن ان ادویات کو استعمال کرنے والے مریضوں کے مزاج پر ان کے بہت خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ جب سے اب تک یہ ادویات ڈپریشن کو رفع کرنے کے لیے استعمال کروائی جاتی ہیں۔

فائزر کمپنی کی مشہور زمانہ دوائی ویاگرا کی ایجاد بھی بالکل اسی طرح سے ہے۔ ویاگرا بنیادی طور پر پر رعشہ کی بیماری کے لیے بنائی گئی تھی۔ مگر بعد میں یہ مردوں کی مشہور جنسی دوا کے طور پر استعمال ہوئی۔

1895 میں ولہالم روینتجین (Wilhelm Roentgen) نے حادثاتی طور پر ہی ایکس ریز دریافت کیں۔ ایک بار اس نے لاشعوری طور پر الیکٹرونک بیم (برقیاتی شعاع) کے سامنے اپنا ہاتھ رکھا تو اسے فوٹو گرافک پلیٹ ہر اپنے ہاتھ کا عکس نظر آیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ عکس ہاتھ کے اندرونی حصے کا تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ تابکاری شعاع، ٹھوس اشیا اور اجسام میں سے گزرتے ہوئے ایک سائے جیسا عکس بناتی ہے۔ آج ہم جسم کے اندر ہونے والی کسی بھی تبدیلی کو دیکھنے کے لیے ایکس ریز کا استعمال کرتے ہیں۔

ڈاکٹر الیگزینڈر کینن لندن کے شہرت یافتہ فزیشن اور سکالر تھے۔ روحانیات سے ان کی گہری دلچسپی تھی۔ انہوں نے ہندوستان اور تبت کا دورہ کیا اور اپنے مشاہدات اور تجربات ایک کتاب The invisible influence میں تحریر کیے۔ یہ کتاب 1933 میں شائع ہوئی اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جنوری 1934 میں اس کے آٹھ ایڈیشن نکلے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر الیگزینڈر کینن نے بے شمار مخفی طاقتوں کا ذکر کیا ہے جو کہ ہماری زندگی کو اکثر متاثر کرتی ہیں۔
یہ اثرات اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور برے بھی۔

اس کتاب میں بہت سارے واقعات ایسے درج ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کی مدد کرنے کے لیے یے کوئی نہ کوئی ایسی طاقت موجود ہے جو اس کو وجدانی کیفیت میں اس طرف اشارہ کرتی ہے۔ مختصر یہ کہ روح کی طاقت ایک عظیم طاقت ہے۔ اسی طاقت سے ہم کائنات کی مخفی طاقتوں سے مدد لے سکتے ہیں۔ ہم ایک عظیم دور سے گزر رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ہم میں سے کوئی ان اسرار و عجائب کو بے حجاب کر دے، جن کو کوئی آنکھ آج تک دیکھ نہیں سکی اور نہ کوئی زبان بیان کر سکی ہے، ان اسرار سے مراد روح انسان کی حقیقت اور خود زندگی ہے۔

اگر انسان کچھ کرنا چاہتا ہے تو وہ اللہ ہی ہے جو اس سے کرواتا ہے۔ انسان سے پہلے یہ چاہت اللہ کی چاہت ہوتی ہے۔ پھر یہ چاہت انسان کے دل میں ڈال کر زمین پر بھیج دی جاتی ہے۔ یہ منتخب لوگوں کو سونپی جاتی ہے۔ وہ لوگ جو حوصلہ نہیں ہارتے، ہار نہیں مانتے اور یقین رکھتے ہیں کہ جو کبھی نہیں ہو سکتا دراصل وہی تو ”ہوتا“ ہے۔ حقیقت میں یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی محنت، بہت بلند حوصلے اور یقین کی پختگی کی وجہ سے اپنی چاہت کو خدا کی چاہت سے منوا کر زمین پر لے آتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ دن گنتے ہیں نہ مہینے، نہ رات کی تنہائی نہ دن کے واویلے ان کو ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی توجہ آسمان والے کی مرضی سے ہٹنے نہیں دیتے۔ انہوں نے اپنے دلوں کو شک وہم اور وسوسوں سے پاک رکھا ہوتا ہے۔ کائنات کی وسعت ایسی ہے کہ آنکھ میں نہیں سما سکتی، اور اس وسیع کائنات کا رب بندے کے دل میں سما جاتا ہے۔ یہ خدا کی چاہت ہے کہ وہ اپنے لیے بندے کا دل چنتا ہے۔ خدا کو کوئی آواز اتنی محبوب نہیں جتنی کہ طلبگار کی صدا۔ اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کاسمک ورلڈ کا انسانی دماغ کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی مولوی، پنڈت، پادری یا مذہبی آدمی کو کوئی اینٹی بائیوٹک بنانے کا خیال یا الہام ہو جائے گا۔ کاسمک ورلڈ سے اسی انسان کا ہی رابطہ ہوتا ہے جس پر اپنے کام کو ایمانداری اور لگن سے کرنے کی دھن سوار ہو۔ ایسا شخص مذہبی بھی ہو سکتا ہے اور ملحد بھی۔ خدا پر یقین رکھنے والے اور ملحد طبقے میں ہمیشہ یہی بحث رہی ہے کہ سائنس اور مذہب بنیادی طور پر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ آپ سائنس، مذہب یا عقیدت کو الگ کہہ سکتے ہیں لیکن انسان میں جسم خاکی کو جسم لطیف سے الگ نہیں کہہ سکتے۔

دنیا میں یا کہیں پر بھی کوئی ایسی مضبوط قوت اور وائٹل فورس موجود ہے جو انسان کو محفوظ رکھتی ہے اور اس کے لیے ہر مشکل کے بعد آسانیاں پیدا کر دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments