منصف اعلی اب حکیم الحکما کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں


چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک بھر میں شاپنگ مالز، مارکیٹس اور دکانیں کھولنے اور انہیں ہفتہ اتوار کو بھی کھلا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ از خود نوٹس کے تحت کورونا وائرس کی صورت حال اور اس کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کے حوالے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے ان مارکیٹس کو بھی کھولنے کا حکم دیا جنہیں قواعد کی خلاف ورزی پرکھولنے کے بعد میں بند کردیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ دکانیں بند رکھی گئیں تو چھوٹے دکاندار کورونا سے نہیں بلکہ بھوک سے مرجائیں گے۔ ملک میں البتہ کورونا سے 923 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ لاک ڈاؤن سے کسی تاجر کے مرنے کی اطلاع نہیں ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے چیف جسٹس کے آج کے ارشادات اور احکامات کے بعد یہ بنیادی اصول ایک بار پھر موضوع بحث ہونا چاہئے کہ آئین پاکستان کے تحت ملکی انتظام، کسی بحران سے نمٹنے کے لئے اقدامات اور اوران پر عمل درآمد اور شہریوں کی حفاظت کے لئے بروقت انتظامات کا فرض حکومتوں پر عائد ہوتا ہے یا یہ ذمہ داری بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے نازک کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ یا سپریم کورٹ کے جج خود بڑھ کر یہ اضافی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کورونا وائرس ایک وبا ہے ۔ اس کی ہئیت، اثرات، خطرات اور علاج کے لئے ڈاکٹروں اور سائنسی ماہرین کی رائے کو اولیت حاصل ہونی چاہئے۔ تاہم پاکستان میں یہ بوالعجبی دیکھنے میں آئی ہے کہ اس شعبہ کے ماہرین سے کوئی رائے لینے کے لئے تیار نہیں اور نہ ڈاکٹروں کے چیخنے چلانے کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن حکومتی عہدیدار اور اب سپریم کورٹ کے جج اس وبا کے بارے میں فیصلے صادر کرنے کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔
عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے مارکیٹس اور شاپنگ مالز کھولنے کا حکم صادر کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’کیا حکومتیں ہفتے اور اتوار کو تھک جاتی ہیں اور یا پھر کورونا نے حکومت سے کوئی معاہدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہفتہ اور اتوار کے علاوہ باقی دنوں میں نہیں پھیلے گا۔ کیا ہفتہ اور اتوار کے روز سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوتا ہے؟ ‘ ظاہر ہے ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے لیکن کیا چیف جسٹس اس بات سے آگاہ ہیں کہ وہ جس معاملہ میں قطعیت کے ساتھ احکامات جاری کررہے ہیں، پوری دنیا کے اعلیٰ ترین سائینسی دماغ اور ماہرین مل کر بھی اس بارے میں کوئی حتمی رائے دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان سب ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ اس وائرس کے اثرات اور انسانی جسم پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر نئی معلومات حاصل ہورہی ہیں لیکن کم از کم ایک سال کی مدت گزرنے سے پہلے کووڈ ۔ 19 کے بارے میں کوئی ٹھوس رائے دینا ممکن نہیں ہوگا۔
عالمی ادارہ صحت نے چند روز پہلے ہی یہ رائے دی ہے کہ دنیا کے لوگوں کو ایک طویل عرصہ تک کورونا وائرس کے ساتھ زندہ رہنے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ اس تنظیم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی ویکسین ڈیڑ ھ دو سال سے پہلے دستیاب ہونے کا امکان نہیں ہے لیکن ویکسین بننے کے بعد بھی دنیا کے ساڑھے سات ارب لوگوں تک اس کی ترسیل میں کئی برس صرف ہوسکتے ہیں۔ ماضی میں جس طرح متعدد بیماریوں پرقابو پانے کے باوجود ان کے ساتھ ہی جینا سیکھنا پڑا تھا ،ا سی طرح کا رویہ کوووڈ۔ 19 کے بارے میں اختیار کرنا ضروری ہے۔ احتیاطی تدابیر میں سماجی دوری سب سے اہم طریقہ بتایا جارہا ہے۔ وائرس کا ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کے طریقے اور رفتار کی وجہ سے ہی دو افراد کے درمیان 6 فٹ فاصلہ رکھنے، بڑے اجتماعات سے گریز کرنے اور غیر ضروری میل جول سے بچنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ بار بار ہاتھ دھونے یا فیس ماسک استعمال کرنے کی ہدایت بھی اسی لئے دی جارہی ہے تاکہ کسی متاثرہ شخص یا شے سے رابطہ کی صورت میں ہاتھ دھونے یا اینٹی بکٹیریا سے صاف کرنے سے اس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔
یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ یہ وائرس مختلف اشیا جیسے دھات، کاغذ یا کپڑے وغیرہ پر کئی گھنٹے تک موجود رہ سکتا ہے۔ اس دوران اگر کوئی شخص نادانستگی میں ان چیزوں کو چھو لے تو وائرس اس میں منتقل ہوکر اسے کیرئیر بنا لیتا ہے جو ان سب لوگوں میں وائرس منتقل کرسکتا ہے جو اس کے رابطے میں آتے ہیں۔ اسی لئے وائرس کا شکار ہونے والے کسی شخص کا پتہ لگتے ہی یہ اندازہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ شخص گزشتہ کچھ عرصہ میں کس کس سے ملا تھا تاکہ ان سب کا ٹیسٹ کرکے وائرس کی روک تھام کا اہتمام کیا جاسکے۔ دنیا کے علاوہ پاکستان میں کئی مقامات پر ایک ہی خاندان یا علاقے کے متعدد لوگ وائرس میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ وائرس آسانی سے کسی کو اپنا کیرئیر بنا لیتا ہے اور پھر تیزی سے دوسرے انسانوں تک منتقل ہونے کا راستہ تلاش کرتا ہے۔ یہ حقیقت وائرس کی شناخت کو مشکل بنا دیتی ہے کہ وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد کسی بھی شخص میں فوری طور سے بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ ان کے نمودار ہونے میں دو سے تین ہفتے لگتے ہیں۔ بعض لوگ وائرس کا شکار ہونے کے بعد بھی بظاہر صحتمند رہتے ہیں کیوں کہ ان کا مدافعتی نظام وائرس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے لیکن اس دوران احتیاط نہ کرنے کی صورت میں وہ ایسے تمام لوگوں میں وائرس منتقل کرسکتے ہیں جو اس کے رابطے میں آتے ہیں۔ اسی لئے اگر کسی پر یہ شبہ ہو کہ وہ کسی متاثرہ شخص سے ملا ہے تو اسے دو ہفتے تک قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تسلسل سے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کرکے اس وبا کی روک تھام کا اہتمام کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں پندرہ سو سے دو ہزار افراد کا اضافہ ہورہا ہے جبکہ کئی درجن افراد روزانہ جاں بحق ہورہے ہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں اس وبا کے پہلے مرحلے کا عروج ابھی آنا ہے جبکہ پہلے مرحلے سے کامیابی سے نمٹنے کے بعد بھی دنیا کے بیشتر ممالک دوسرے اور تیسرے مرحلے کے منتظر ہیں ۔ ویکسین کی عدم موجودگی میں انسانوں کی حفاظت اور بیمار ہونے کی صورت میں ان کا علاج کرنے کے لئے سہولتوں میں اضافہ کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یہ امید کی جارہی ہے کہ جب دوسرے یا تیسرے مرحلے میں وبا پھیلے گی تو مختلف ملکوں میں ایک تو شہریوں کو احتیاطی تدابیر کے لئے تیار کرلیا جائے گا ، دوسرے ٹیسٹ کی تعداد بڑھا کر متاثرہ گروہوں کی نشاندہی کی جاسکے گی اور تیسرے شدید بیمار ہونے والوں کے لئے ہسپتالوں میں علاج کی مناسب سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ اس لئے امید کی جارہی ہے کہ اگر شہری احتیاط کرنا سیکھ جائیں تو دوسرے اور تیسرے مرحلے میں لاک ڈاؤن کی وہ کیفیت دیکھنے میں نہیں آئے گی جس کا سامنا پہلے مرحلے میں کرنا پڑا ہے۔
پہلے خیال تھا کہ مئی کے دوران پاکستان میں وبا کا عروج دیکھنے میں آئے گا لیکن اب خیال ہے کہ شاید یہ مرحلہ جون تک طویل ہوجائے۔ کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے کہ عام وائرس اگر گرم موسم میں ختم ہوجاتا ہے تو کووڈ۔ 19 شدید موسم میں کیوں ختم نہیں ہوگا۔ یا یہ کہ برصغیر اور بعض دیگر ملکوں میں یہ وائرس سست روی سے کیوں پھیلا ہے۔ اس کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان سمیت ایسے متعدد غریب ملکوں میں ٹیسٹ کرنے کی رفتار کم ہے۔ جوں جوں کورونا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہورہا ہے، زیادہ مریضوں کا سراغ لگایا جارہا ہے۔ ایسے میں یہ بات قابل فہم ہے کہ کاروبار زندگی کو بحال کرنے کے کسی قومی منصوبہ پر عمل ہونا چاہئے لیکن پاکستان میں وزیر اعظم کے بعد چیف جسٹس جس طرح اس وائرس کے ’ماہر‘ کے طور پر سامنے آئے ہیں، اس سے اس وبا کی روک تھام کرنے کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔
عدالت عظمی میں کارروائی کے دوران یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اس وائرس کے نام پر 500 ارب روپے صرف کردیے گئے ہیں جو فاضل ججوں کے نزدیک قومی دولت کا ضیاع ہے۔ اوّل تو عدالت عظمی کو رونا سے نمٹنے کے لئے صرف ہونے والے وسائل کے بارے میں صرف ’قیاس آرائی‘ کررہی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) نے عدالت کو بتایا تھا کہ اسے اس مد میں 25 ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں۔ کوئی عدالت ذاتی قیاس کو عدالتی فیصلوں کی بنیاد نہیں بناسکتی۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے ججوں کا کہنا ہے کہ ملک میں چند سو لوگ اس وائرس سے مرے ہیں حالانکہ ملک میں الرجی اور دیگر بیماریوں سے ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں ۔ ججوں کا سوال تھا پھر ان مریضوں پر بے شمار وسائل صرف کرنے کا کیا جواز ہے۔ عدالت عظمی ٰ کے ججوں نے ایک بیماری کو دوسرے کے مقابل رکھ کر اور وبا اور عام بیماری میں تمیز کرنے سے انکار کرکے قومی دولت کی نگرانی کا عجیب اور ناقابل فہم رویہ اختیار کیا ہے۔ حالانکہ عدالت میں موجود این ڈی ایم اے کے نمائندے نے بتایا کہ زیادہ رقم اس وبا سے نمٹنے کے لئے ملکی صلاحیت میں اضافہ کرنے پر صرف ہوئی ہے جن میں وینٹی لیٹرز ، میڈیکل آلات، کٹس اور قرنطینہ مراکز وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے دکانیں کھولنے کا حکم دے کر دراصل وہ اختیار استعمال کیا ہے جو عام طور سے کسی شہر کی بلدیہ کو حاصل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کے طریقہ کار اور سو موٹو کے تحت وبا سے روک تھام کی کوششوں کو ناکارہ بنانے کی اس عدالتی کوشش کے بعد عدالتوں کے دائرہ اختیا ر کے علاوہ سوموٹو کی ضرورت اور دائرہ کار کے معاملہ پر نئے سولات سامنے آئیں گے۔ ان میں سب سے اہم یہ سوال ہے کہ اگر تمام سیاسی اور طبی فیصلے عدالت ہی کو کرنے ہیں تو شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کا کام کون کرے گا؟ سپریم کورٹ اگر حکومت کا کام خود کرنے پر اصرار کرے گی تو پارلیمنٹ ، حکومت اور انتخاب کے جھنجھٹ کی کیا ضرورت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments