بل گیٹس کو گرفتار کرو


میکڈونلڈز فاسٹ فوڈ کی کامیاب ترین فوڈ چین ہے جو پوری دنیا میں یکساں مقبول ہے۔ صارفین کے رجحانات کی بات ہو یا کھانے پینے کی عادات کی۔ میکڈونلڈز ہمیشہ درست وقت پر اپنی پراڈکٹ یا ڈیل کو لانچ کرتا ہے۔ میکڈونلڈز کی ناکام پروڈکٹس کا تناسب بہت ہی کم ہے۔

پچھلے 30 سال سے ایم۔ ٹی۔ وی نے بغیر کسی مدمقابل کے پوری میوزک انڈسٹری پر راج کیا۔ ایم۔ ٹی۔ وی کے میوزک چارٹ کی رینکنگ کسی بھی گانے کے کامیاب یا ناکام ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ایم۔ ٹی۔ وی کو انٹرٹینمنٹ اور میوزک کے رجحانات بنانے پر ایک اتھارٹی تصور کیا جاتا ہے۔

1994 میں ایک صحافی نے میکڈونلڈز ڈاٹ کام کی ڈومین خرید لی۔ اس نے وائرڈ میں ایک مضمون لکھا کہ یہ ڈومین اس نے اس لیے لی ہے تاکہ یہ پتہ سکے کہ آج کل کے بزنس انٹرنیٹ کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ میکڈونلڈز کو اس بات کا احساس بہت بعد میں ہوا۔ قویٹنر اچھے اوصاف کا مالک تھا اس نے وہ ڈومین ایک خیراتی ادارے کے نام کر دی۔ میکڈونلڈز نے اس تعلیمی ادارے کو ساڑھے تین ہزار ڈالر دے کر وہ ڈومین واپس لے لی۔ ایم۔ ٹی۔ وی کی قسمت مگر اتنی اچھی نہ تھی۔

1993 میں ایڈم کیری نے ایم۔ ٹی۔ وی کا ملازم ہوتے ہوئے ایم ٹی وی ڈاٹ کام خرید لی۔ جب اس نے کمپنی کے بڑوں کو اس سے آگاہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ ہمیں انٹرنیٹ سے کوئی دلچسپی نہیں نہ ہمیں اس دنیا میں جانا ہے۔ بہت بعد میں ایم ٹی وی اور ایڈم کیری کے مابین عدالت سے باہر معاملات طے پائے اور ظاہر ہے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایڈم نے اپنے کارڈز کس خوبصورتی سے کھیلے ہوں گے۔

اس پوری تمہید کا مقصد صرف یہ باور کروانا ہے کہ جس دور میں دنیا کے کامیاب ترین بزنس کی انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے میں یہ رائے تھی اور لوگ انٹرنیٹ ایسے بلبلے کے طور پر لیتے تھے جو کسی بھی وقت پھٹ جائے گا۔ اسی دور میں بل گیٹس نے ”روڈ آہیڈ“ اور ”بزنس اٹ دی سپیڈ آف تھاٹ“ کے نام سے دو کتابیں لکھیں۔ ”بزنس اٹ دی سپیڈ آف تھاٹ“ میں بل گیٹس نے مستقبل (یعنی وہ دور جس میں ہم آج رہ رہے ہیں ) کے کارپوریٹ سیکٹر کے جو خد و خال بیان کیے ہیں وہ ہوبہو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔

بل گیٹس نے انٹرنیٹ کی افادیت، اس کے روزمرہ زندگی اور کاروباری زندگی پر اثرات، آج کل کے ٹچ سکرین موبائل اور بہت ساری چیزوں کا ذکر کیا جو آج ہم استعمال کر رہے ہیں۔ بل گیٹس نے نوے کے عشرے میں سمجھایا کہ کیسے انٹرنیٹ کی بدولت صنعت کاروں اور صارفین کے درمیان براہ راست تعلق قائم ہو گا اور مڈل مین کی جاب ختم ہو جائے گی یا اس کی ہیئت تبدیل ہو گی۔ آج تمام مینو فیکچررز اور سروس دینے والے علی بابا اور امیزون کے ذریعے براہ راست رابطے میں ہیں۔

سن دو ہزار میں بل گیٹس فلاحی کاموں کی طرف متوجہ ہوا۔ بل اینڈ ملینڈا فاؤنڈیشن کے نام سے دنیا کا سب بڑا خیراتی ادارہ بنایا جس کل اثاثے تقریباً پچاس بلین ڈالر ہیں اور یہ ادارہ کسی سے عطیات نہیں لیتا۔ اس ادارے نے بلا مبالغہ کروڑوں لوگوں کی جان بچائی، افریقہ میں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر کیا، پانی صاف کرنے کے سستے طریقے دریافت کیے جس سے غریب ملکوں میں ہیضہ سے ہونے والی اموات میں کمی ہوئی، دنیا کے بڑے ریسرچ کے اداروں کو فنڈنگ کی گئی تاکہ وہ موذی امراض کے لیے بہتر ویکسین بنا سکیں۔ اس کا فوکس غریب ممالک میں جان لیوا بیماریوں سے ہونے ہلاکتیں تھیں۔

یاد رکھیں خسرہ، ملیریا، پولیو اور ٹی۔ بی جیسی بیماریاں تمام دنیا سے تقریباً ختم ہو چکی ہیں ماسوائے افریقہ کے۔ بل اینڈ ملینڈا فاؤنڈیشن نے تقریباً چھ بلین ڈالر خسرہ کی ریسرچ اور بہتر ویکسین پر خرچ کیے اور اس کے نتیجہ میں افریقہ میں خسرہ سے ہونے والی ہلاکتوں میں سن 2000 کے بعد سے نوے فیصد کمی آئی۔ جو کہ یقیناً بہت بڑی کامیابی ہے۔

ملیریا ایسی بیماری ہے جو متاثرہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ ملیریا کے دس میں سے نو مریض افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ بل اینڈ ملینڈا فاؤنڈیشن کی کوششوں سے سن دو ہزار کے بعد افریقہ میں ملیریا سے ہونے والی اموات آدھی سے بھی کم رہ گئی ہیں۔ اسی طرح ٹی۔ بی، ایڈز، پولیو اور دیگر متعدی بیماریوں کے خلاف بھی اچھی ویکسین، ٹیسٹنگ کے بہتر طریقوں کی دریافت اور نئی ادویات کی بدولت خاطر خواہ کامیابی حاصل کی گئی۔

دو ہزار پندرہ میں (یعنی مائکروسافٹ کو خیرآباد کہنے کے ایک سال بعد) بل گیٹس نے پیشین گوئی کی کہ اگر سپینش فلو کی طرح کی کوئی وبا پھیلتی ہے ہماری دنیا تمام تر ترقی کے باوجود اس کے لیے تیار نہیں۔ بل گیٹس نے ایک ایسے عالمی ادارے کے قیام پر زور دیا جو اس طرح کے حالات میں ایک مربوط نظام کے طور پر کام کرئے۔ بل گیٹس ہر ملک کے ہسپتالوں کے انفراسٹرکچر میں بہتری، میڈیکل کے عملے اور ڈاکٹروں کے لیے اس اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے بہتر تربیت پر زور دیا۔

اس سال کے شروع میں آنے والی کرونا وبا نے جہاں ساری دنیا کے ہیلتھ کے نظام کا پول کھولا وہاں عوام کے اندر اس سازشی نظریے کو بھی بڑھاوا ملا کہ بل گیٹس کو اس وبا کا پہلے سے کیسے پتہ تھا ہو نہ ہو اس کے پیچھے بل گیٹس کا ہاتھ ہے۔ پاکستان جیسے نیم خواندہ ملک جہاں ہر قسم کی سازشی تھیوریاں بہت جلد پنپ جاتی ہیں وہاں تو یہ بات سمجھ آتی ہے مگر کچھ دن پہلے امریکی ریاست ٹیکساس میں ہونے والے ایک جلوس میں ”بل گیٹس کو گرفتار کرو“ جیسے نعرے لگے۔

کرونا وبا کے معاملے میں بل گیٹس پر عائد کرنا ایسے ہی ہے جیسے نوے کی دہائی کا کوئی بڑا کاروباری ادارہ جس نے آنے والے نئے کاروباری رجحانات کا بر وقت ادراک نہ کیا ہو اور آج وہ اپنی تمام تر ناکامی کا ذمہ دار بل گیٹس کو ٹھہرا دے کہ بل گیٹس کو پہلے سے کیسے پتہ تھا آنے والے دور میں کاروبار کے رجحانات تبدیل ہوں گے۔ حقیقت میں اگر کسی کو الزام دیا جا سکتا ہے تو وہ مقامی حکومتیں، عالمی رہنما اور عالمی صحت کا ادارہ ہے جو اپنے نظام کو وباؤں کے خلاف موثر انداز میں نپٹنے کے قابل نہ بنا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments