کم ظرفی اور سوشل میڈیا سائیکالوجی


سوشل میڈیا رابطے کا ایک ڈیجیٹل ذریعہ ہے سوشل میڈیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جس انسان سے آپ انٹریکٹ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے نہیں ہوتا نہ آپ اس کو جانتے ہیں لہذا آپ کسی بھی طرح کے رد عمل کی پرواہ نہیں کرتے اور ایک اور ریسرچ کے مطابق یہ بات جاننے کو ملی ہے کہ ڈیجیٹل فارم پر چاہے وہ ٹیکسٹ میسج ہو ای میل ہو یا سوشل میڈیا ہو جذبات کا اظہار چاہے وہ مثبت ہوں یا منفی آمنے سامنے ہونے کی نسبت قدرے آسان ہوتا ہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ہم بحیثیت انسان جو کچھ بھی ہیں ہم میں سے اکثر لوگ اپنی اوقات دکھانے میں دیر نہیں لگاتے اور آپ کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ آپ کی اوقات کیا ہے آئیے میں آپ کو اس کا فارمولا بتاتی ہوں۔

وہ رشتہ جہاں پر آپ کا کچھ لینا ہے نہ دینا ہے جہاں پر آپ کا کوئی دور دور کا تعلق واسطہ نہیں جہاں سے آپ کو کوئی لالچ نہیں جہاں پر آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سامنے والا آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے یا فائدہ پہنچا سکتا ہے یا پھر آپ زیادہ طاقتور ہیں تو کمزور کے سامنے اپنی اوقات دکھاتے ہیں۔ کوئی آپ کا محتاج ہے کسی بھی طرح سے مالی لحاظ سے جذباتی یا نفسیاتی لحاظ سے تو آپ اسے اپنا اصل ظرف دکھاتے ہیں۔ جہاں آپ کو برا بننے میں کوئی دقت اور نقصان نہیں لیکن پھر بھی آپ اچھے ہیں تو آپ اعلیٰ ظرف ہیں۔

دیکھیے آپ اپنے باس سے کس لہجے میں بات کرتے ہیں اور اپنے اسسٹنٹ اٹینڈنٹ چوکیدار یا ملازم سے کس لہجے میں بات کرتے ہیں۔ دیکھیے آپ کے اردگرد جو لوگ ہیں آپ ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ اپنی اوقات کن لوگوں کے سامنے دکھاتے ہیں کہیں آپ کے اصل اور آپ کے اس تصور میں کوئی جھول تو نہیں جو آپ لوگوں کے سامنے دکھانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ڈیجیٹل تعلق پر پر اتنی انویسٹمنٹ کیوں کی جائے جبکہ اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔

یہاں پر میں بہت سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر تعلقات بنانے سے اجتناب کریں اور احتیاط برتیں۔ خاص کر وہ جو قدامت پسند گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کے پاس براہ راست تعلق بنانے کا کوئی آسان راستہ نہیں ہے تو وہ ڈیجیٹل فارم کا رخ کرتے ہیں۔ جبکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ سکرین کے پیچھے موجود شخص کا اصل چہرہ کیا ہے۔ جو جذباتی طور پر جتنا جلدی کسی اجنبی پر اعتبار کرلیتے ہیں اور اپنے آپ کو جذباتی طور پر ایسے انجان چہروں کے سپرد کردیتے ہیں تو وہ بہت جلد ایموشنل ٹراما کا شکار ہو جاتے ہیں جہاں وہ کسی ایسے انسان پر جذباتی طور پر انحصار کرنے لگتے ہیں جس کو وہ جانتے نہیں اور جس کا نتیجہ زیادہ تر حالات میں بلیک میلنگ یا ایموشنل بریک ڈاؤن کی صورت میں نکلتا ہے۔

سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پہ لوگ اتنے لاپروا ہیں کہ جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ ہمارا رویہ ہو یا کسی خبر کی بنا جانچ پڑتال تشہیر اور یہ سوشل میڈیا کے نقصانات میں سے ایک نقصان ہے۔ میں کسی کے اوپر بھی کوئی ایسی ججمنٹ پاس کیوں کروں جس کا مجھے اختیار نہیں ہے اور جس کا مجھ سے تعلق نہیں ہے ایسی ججمنٹ بہت فضول اور بیکار چیز ہے۔ ایک پبلک فورم پہ ہم سامنے والے کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ جو چاہے ہمارے بارے میں رائے قائم کر سکتا ہے لہذا نہ چاہتے ہوئے بھی یہ چیز ہماری نفسیات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ کیا ہمیں اپنے آپ تک کسی کو پہنچ کا حق دینا ہے اور کس کو نہیں۔ سوشل میڈیا کا سرکل پرائیویٹ رکھنا ہے یا پبلک۔ اگر تو آپ تنہائی پسند ہیں تو اپنی ذاتی پروفائل کو پبلک مت کریں۔ میں نے پچھلے دنوں ڈپریشن کے مسئلے پر کھلم کھلا بات کی تاکہ لوگ اس کو ٹیبو نہ سمجھیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی مجھے دیکھ کہ اپنی پریشانی شیئر کر لے۔ جو شیئر نہ کر سکتا ہو تو وہ ہمت کرے اور اسے مدد ملے اور اس کو ٹیبو نہ سمجھے۔

مجھے یہ اندازہ ہوا کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اس کو کتنا بڑا ٹیبو سمجھتے ہیں۔ اور رائٹر کی لکھی ہوئی پوسٹ کو اس کی شخصیت سے گڈ مڈ کرنے لگتے ہیں۔ لوگ پرسنل اٹیک کرتے ہیں۔ دوسرے کے ذاتی دائرہ کار میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ سامنے والا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ چاہے سوشل میڈیا کا فارم ہو یا کوئی اور فارم ہو میں لوگوں کو سمجھتے سمجھتے ان کی نفسیات کو جانچتے پرکھتے میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ کم ظرف انسان کی نشانی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ آپ کی کمزوری پہ وار کرے گا۔ مجھے سوشل میڈیا سے کچھ تحفظات ہیں اور وہ یہ کہ آخر یہ موقع ہی کسی کو کیوں دیا جائے؟ کسی کو اپنی ذات تک اتنی پہنچ اور رسائی کیوں دی جائے کہ وہ اپنا ظرف آپ کو دکھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments