کوچہ کابینہ


پاکستان کے آئینی نظام میں وفاقی کابینہ قومی اور بین الاقوامی امور پر فیصلے کرنے کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ کابینہ وزیر اعظم کو مشورے دیتی ہے اور فیصلہ سازی سے پہلے اس پر بحث بھی کرتی ہے۔ کابینہ میں اختلاف رائے ہونا معمول کی بات ہے کیونکہ اسی اختلاف رائے پر بحث سے اچھی فیصلہ سازی ممکن ہوتی ہے۔

جب سے پاکستان بنا ہے وفاقی کابینہ میں اختلاف رائے کی کہانیاں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ایوب کابینہ میں محمد شعیب اور ذوالفقار علی بھٹو، بھٹو کابینہ میں شیخ رشید اور کوثر نیازی، نواز کابینہ میں چودھری نثار اور خواجہ آصف کے درمیان اختلافات مستقل موضوع رہے۔

موجودہ وفاقی کابینہ میں بھی کئی رنگ، کئی مکاتب فکر اور مختلف الخیال وزیر موجود ہیں۔ حکومت کے طرز حکمرانی اور فیصلہ سازی کے عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ کوچہ کابینہ میں جھانکیں اور پھر جائزہ لیں کہ موجودہ وفاقی کابینہ میں مثبت کیا ہے اور منفی کیا؟

ایک دو ماہ پہلے صحافتی اشرافیہ یعنی چینل مالکان کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ حکومت کی دو وزارتیں، خارجہ اور داخلہ بہت اچھی چل رہی ہیں۔

ملک کے طاقتور ترین ادارے کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر داخلہ بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ پر اعتماد کا سر عام اعلان بہت سے اشارے دے گیا مگر وفاقی کابینہ کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی میں الیکشن سے پہلے جو قربت تھی وہ بعد ازاں کئی غلط فہمیوں میں بدل گئی۔

بد خواہوں نے وزیر اعظم کو شکایت لگائی کہ میٹھا بول بولنے والا سرائیکی شاہ محمود آپ کا متبادل بننا چاہتا ہے تو دوسری طرف شاہ محمود قریشی کو بھڑکایا گیا کہ جہانگیر ترین نا اہل ہونے کے باجود کابینہ کو مشورے دے رہا ہے۔

ان دو طرفہ تحفظات کے نتیجے میں سیاسی دوری پیدا ہو گئی لیکن شاہ محمود اتنے سمجھ دار ہیں کہ انھوں نے ان اختلافات کو بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی کوشش کی اور ان کوششوں میں وہ اس حد تک کامیاب ہو گئے ہیں کہ آجکل وہ اسد عمر، ذوالفقار بخاری اور اعظم خان کے ہمراہ وزیراعظم کی کچن کابینہ میں شامل ہیں۔

جہانگیر ترین کے حوالے سے شوگر سکینڈل اور پھر وزیراعظم کی طرف سے انکوائریوں کے پیچھے اسی کچن کابینہ کے انھی وزرا و حکام کے نام لیے جاتے ہیں۔

وزیر داخلہ بریگیڈیر اعجاز شاہ آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر، پنجاب کے ہوم سیکر ٹری اور پھر انٹیلی جنس بیوروکے سربراہ رہے اور اس حوالے سے انھیں فوج، بیورو کریسی اور سیاست تینوں شعبوں کا تجربہ ہے مگر وفاقی کابینہ کے دو تین اجلاسوں میں وزیراعظم نے سب کے سامنے ہی ان سے سخت باز پرس کر لی۔

ظاہر ہے یہ بات اعجاز شاہ صاحب کو پسند نہیں آئی اور انھوں نے اس رویے کا گلہ بھی کیا۔ وزیر اعظم اپنے اس اقدام سے شاید یہ اشارہ دے رہے تھے کہ آپ کسی اور کے فیورٹ ضرور ہونگے مگر میرے نہیں۔

اس بد مزگی کے باوجود وزیر داخلہ نے اپنا کام اسی توجہ سے جاری رکھا اور یوں وہ اپنے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا طوفان بلاخیز ٹالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

کوچہ کابینہ کے اہم ترین کھلاڑی پرویز خٹک شاندار سیاسی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ پیپلز پارٹی دور میں صوبائی وزیر رہے، ضلع کونسل کے چیئرمین رہے، پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ رہے اور صوبے میں ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ تحریک انصاف سے پہلے سے زیادہ اکثریت سے جیتی۔

مگر عمران خان اور پرویز خٹک کے درمیان انکی وزارت اعلیٰ کے دور میں کچھ ایسی غلط فہمیوں نے جنم لیا کہ وزیراعظم نے انھیں دوبارہ سے خیبر پختونخواہ کا وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کی بجائے وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا۔

پرویز خٹک کو اب اہمیت صرف اس وقت ملتی ہے جب اپوزیشن سے مذاکرات کرنے ہوں یا کوئی بحرانی صورتحال ہو کیونکہ وہ وزیراعظم کے اندرونی حلقہ مشاورت میں ابھی تک اذن باریابی نہیں پا سکتے۔

وفاقی کابینہ کے سب سے طاقتور ستون، ماضی کے مرد آہن اور جنرل یحییٰ خان کے مشیر جنرل (ر) غلام عمر کے فرزند ارجمند اسد عمر ہیں۔ ان کا عہدہ تو وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات کا ہے لیکن عملی طور پر وہ اس وقت ڈپٹی وزیراعظم ہیں۔

کورونا وائرس کے حوالے سے فوج کے تیار کردہ ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے اجلاسوں کی صدارت وہ کرتے ہیں چاروں صوبوں اور مرکز کو ہدایات بھی وہ ہی جاری کرتے ہیں تا حال انھیں طاقتور اداروں اور وزیراعظم دونوں کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔

سیاست میں انھیں حال ہی میں ملنے والے عروج کے بعد سے وہ انٹی جہانگیر ترین اور پرو احتساب لابی کے سر کردہ فرد بن گئے ہیں۔ کابینہ میں سے شفقت محمود بھی انھی خیالات کے حامی ہیں یوں کابینہ کے اندر موجود یہ طاقتور گروپ ایک طرف وزیراعظم کی پالیسیوں کا پر زور حامی ہے۔

احتساب اور مخالفوں کے خلاف مقدمات آگے چلانے کے حوالے سے انکا موقف کابینہ کو اہم فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے۔یہی گروپ اس وقت حکومت کر رہا ہے۔

ہیومن رائٹس کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری جس طرح عوامی زندگی میں عام لوگوں سے بالکل مختلف اور منفرد ہیں وفاقی کابینہ میں بھی انھوں نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہوئی ہے۔

اپنے والد سردار عاشق محمد خان مزاری کی طرح وہ بہت محنت سے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل دیتی ہیں لیکن عام طور پر انھیں کابینہ کی اکثریت سے حمایت کم ہی ملتی ہے۔

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چودھری فواد حسین ترقی پسند اور جدید سوچ کے حامل ہیں اس لیے بہت سے معاملات پر ان کی رائے بھی اکثریتی نقطہ نظر سے مختلف ہوتی ہے۔

لیکن حالیہ مہینوں میں ان کی وزارت نے محنت کر کے وزیراعظم سے باقاعدہ داد وصول کی ہے تاہم چودھری فواد حسین پر اگر کوئی فیصلہ گراں گزرے تو وہ اپنی اختلافی رائے کے اظہار سے بالکل نہیں گھبراتے۔ اس لیے کئی دفعہ ان کے وزیراعظم عمران خان سے معاملات خراب بھی رہے۔

وفاقی کابینہ پر ہونے والے اعتراضات میں سے سب سے بڑا یہ ہے کہ 51 رکنی کابینہ میں 5 ایڈوائزر اور 15 سپیشل اسسٹنٹ غیر منتخب شدہ ہیں۔ یوں پہلے سےبٹی ہوئی کابینہ میں ایک اور گہری خلیج کا اضافہ ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر بابر اعوان کو پارلیمانی مشیر کا عہدہ ملا ہے تو وفاقی وزیر فروغ نسیم اور ان میں در پردہ اختیارات حاصل کرنے پر رسہ کشی شروع ہو گئی ہے۔

سیاسی بیانیے کے نقیب اور انصافی عقاب شہباز گل کو سیاسی ابلاغ کے سپیشل اسسٹنٹ کا عہدہ ملا ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ شبلی فراز اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جوڑی میں گل صاحب کسی طرح فٹ ہونگے۔

پارلیمانی نظام اور کابینہ کا المیہ یہی ہے کہ ٹیکنو کریٹس کی بہت بڑی تعداد فیصلہ سازی میں شریک ہے جس کی وجہ سے سیاسی عناصر دب گئے ہیں اور اندیشہ یہ ہے کہ بجٹ غیر سیاسی ذہن کے ساتھ بنایا گیا تو اس کے سیاسی اثرات برے نکل سکتے ہیں۔

کہتے ہیں کابینہ اہم نہیں کابینہ چننے والا اہم ہوتا ہے، غلط مشورے مشیر نہیں دیتے غلط مشورے ماننے والا حکمران غلط ہوتا ہے۔

اکبر کے نو رتن ہوں یا موجودہ وزیراعظم کی کابینہ، کس سے کیا کام لینا ہے اور کس سے کیا کروانا ہے اسی کو حکمرانی کہتے ہیں۔ یاد رکھیں کبھی بھی زوال وزیروں کی غلطیوں کی وجہ سے نہیں آتا، وزیراعظم کے غلط فیصلوں کی وجہ سے آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سہیل وڑائچ

بشکریہ: روز نامہ جنگ

suhail-warraich has 34 posts and counting.See all posts by suhail-warraich