کرونا بحران اور نئی ابھرتی دنیا


آج جبکہ دنیا کی کرونا سے شناسائی کو تقریباً چھ ماہ ہو چکے ہیں، اس عرصے میں بنیادی انسانی حقوق اور حکومتی رویوں میں بہت تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ جہاں ہم ایک طرف انفرادی اور سماجی سطح پر دلوں کو گرمانے والی بے لوث کہانیوں سے آگاہ ہو رہے ہیں وہیں پر ہمیں اس امر پر بھی نظر رکھنا ہو گی کہ آمرانہ سوچ والے مقبول عام سیاسی لیڈران اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اس وبا کو ایک زریں موقع سمجھتے ہوئے اپنے مفادات کو آگے بڑھائیں گی۔

بے شک آپ نے ترقی پسندوں اور ماحولیاتی مجاہدوں کو بھی سنا ہو گا کہ اس عالمی بحران نے دنیا کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ کس طرح انسان بڑھتی ہوئی معاشی تفریق، گنجان شہروں کے پیدا کردہ مسائل اور قدرت سے ہمارے تعلقات کو نئے سرے منظم کرے، لیکن اس طرح دوسرا طبقہ بھی ہے جو اس پورے منظر کو بالکل دوسری طرح دیکھ رہا ہے۔ ان کے نزدیک اس بحران نے ان کو اپنا ایجنڈا بڑھانے کا ایسا موقع فراہم کیا ہے جو عام حالات میں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا۔ اب وہ تمام ایسے کام تیزی سے کر رہے ہیں جبکہ دنیا دوسری طرف دیکھ رہی ہے۔

ہم اپنا سفر یورپ سے شروع کرتے ہیں جہاں ایک طرف یورپین یونین ہوتے ہوئے بھی قومیت پسندی بڑھ رہی ہے اور حکومتوں نے اپنی اپنی سرحدیں ہمسایوں کے لیے بھی بند کر دیں ہیں، دائیں بازو کے قومیت پرست سیاستدان متحرک ہو رہے ہیں اور اس بحران کے نام پر اپنی پوزیشن مضبوط بنا رہے ہیں، وہیں پر آمرانہ حکومتیں ایسے قوانین جاری کر رہی ہیں جن سے انسانی بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔ اگرچہ آمرانہ عادات والے حکمرانوں کو اپنے اقدامات کے لیے کسی بحران کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اس وبائی بحران کی اصل اہمیت اس امر میں ہے کہ اس نے عالمی سطح پر ان حکمرانوں کے لیے ایسی فضا پیدا کر دی ہے جب ان کے مخالفیں ملکی اور بین الاقومی سطح پر زندگی اور موت کے اس بحران سے نبٹنے میں مصروف ہیں۔

اس سلسلے میں واضح مثال ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوبارن کی ہے جس نے اس بحران سے فوری فائدہ اٹھاتے ہوئے ”ہنگامی اختیارات“ کے قوانین کو مارچ میں پارلیمنٹ سے منظور بھی کروا لیا۔ لیکن ان قوانین کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی، جس کا مطلب ہے کہ یہ قوانین اس بحران کے ختم ہونے کہ بعد بھی نافذ رہ سکتے ہیں۔

ہنگری کے ان قوانین کے تحت ”افواہیں /جھوٹی خبر پھیلانے والوں“ والوں کو جیل بھیجا جاسکتی ہے اور اس قلیل مدت میں عمل درآمد کرتے ہوئے ایسے شہریوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے ”فیس بک“ پر حکومتی اقدامات پر تنقید کی تھی۔ قوم پرست وزیراعظم وکٹر اوبارن کافی عرصے سے ایسی خواہش کا اظہار کر رہا تھا اور کرونا کی موجودہ وبا نے اس کو ایسا موقع فراہم کر دیا جس کہ تحت وہ اپنے مخالف سمیت کسی بھی ایسی رائے کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے کر خاموش کر سکتا ہے۔ وطن عزیز میں تو ہم پہلے ہی ایسے ان لکھے قوانین کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن اس پر بات ذرا بعد میں۔

چین جہاں پہلے ہی سوشل کریڈٹ سسٹم کے تحت شہریوں کی نقل و حرکت تک حکومتی نظر میں تھی اب اس موجودہ وبا کے تحت انفرادی صحت بارے معلومات بھی اس میں شامل کر لی گئی ہیں اور ان حالات میں یہ دلیل ہی کافی ہے کہ انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے اچھے شہری کا حکومت سے تعاون کوئی غلط بات تو نہیں۔ اسی طرح باہر آنے والی خبروں کے مطابق، سنکیانگ کے صوبے میں مسلمانوں کی کیمپوں میں نظر بندی اور ان میں خراب ہوتے حالات پر بھی کوئی زیادہ شور نہیں۔

اسی طرح امریکہ میں جہاں صدر ٹرمپ پر ان کے اس بحران سے نبٹنے کے طریقہ کار پر تنقید ہو رہی ہے لیکن وہاں اس مشاہدے کا ادراک بھی ضروری ہے کہ وہ ایک ماہر جادوگر کی طرح ایک ہاتھ سے سب کی توجہ اپنے بیانات پر رکھتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اسی وقت ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیں جن کے دور رس اثرات ہوں گے۔ ان میں، ماحولیات بارے ایسے بہت سے قواعد و ضوابط ہیں جن کے نتیجے میں انسانی صحت پر ہونے والے اثرات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

ٹرمپ کے ہمسائے میں برازیلی صدر ”جیر بولسنارو“ تو اس سلسلے میں امریکہ سے بھی دو ہاتھ آگے چلے گئے ہیں۔ انہوں نے قواعد و قوانین میں تبدیلی کو کافی نہ سمجھتے ہوئے، اپنی حکومتی ماحولیاتی ایجنسی کی ماہرانہ رائے کے بر خلاف اپنے فوجی دستوں کو ”ایمزون جنگلات“ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا ہے۔ میں ”حفاظت“ کا لفظ اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ اسی ہفتے این بی سی نیوز نے اطلاع دی ہے کی سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق ان جنگلات کی کٹائی میں کرونا وبا کے دوران میں انتہائی تیزی آ گئی ہے اور پچھلے سال کے مقابلے میں اس اپریل میں کٹائی والے رقبے میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

عام زبان میں اس مہینے میں 448 فٹ بال گراونڈ کے برابر رقبے سے درخت کاٹ لیے گئے۔ یہ اس جگہ کی تباہی کے بارے میں ہے جس کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے۔ اگر دنیا کی توجہ کرونا کی وبا کی طرف نہ ہوتی تو اس پر بڑی لے دے ہونا تھی، ماحولیاتی تنظیموں کی چیخ و پکار پر رائے عامہ سے مجبور ہو کر دنیا کا ردعمل سخت ہوتا لیکن آج اس بحران کے دوران جب دنیا کی توجہ دوسری طرف ہے، یہ درخت کوئی آواز پیدا کیے بغیر ہی گر گئے۔

اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے لیے یہ کرونا ایک غیبی امداد ثابت ہوا ہے جس نے اس کی ٹمٹماتی سیاسی زندگی کو نئی طاقت بخشی ہے جس کے ذریعے اس نے حزب اختلاف کو ایک قومی

حکومت میں شامل کر کے نہ صرف اپنے دور اقتدار کو نئی زندگی دی بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں ضم بھی کر لیں گے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اسرائیلی حکومت ان اقدامات پر عمل کرے گی یہ نہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ عام حالات میں اس طرح کے اقدامات کا اعلان بین الاقوامی برادری میں ایک بم دھماکے سے کم نہ ہوتا اور یہ فوراً عالمی سفارتی ایجنڈے کا حصہ بن جاتا لیکن آج کے حالات میں میڈیا میں اس کا تذکرہ ہی غنیمت ہے۔

اس طرح کی ایک اور مثال فلپائن کی ہے جہاں صدر رڈریگو ڈیوٹرٹے جو اپنے سخت گیر رویے سے جانے جاتے ہیں۔

دور کیوں جائیں اپنے ہمسائے میں ٹرمپ کے بڑے شیدائی یعنی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ہی دیکھ لیجیے، جس نے اس وبائی بحران کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے کرونا وبا کے لاک ڈاؤن کی آڑ میں مسلمان شہریوں پر شدید سختی شروع کر دی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گرفتار شدگان کے لیے قانونی امداد حاصل کرنا ایک کار لاحاصل بن گیا ہے۔ مودی سرکار کو یقین ہے کہ عوامی اکثریت کی رائے اس کے ساتھ ہے کیونکہ ہندو سیاستدانوں نے اس وائرس کو ایک ”مسلم بیماری“ قرار دیا ہے اور میڈیا کا بڑا حصہ اس بیانیے کو ہوا دے رہا ہے جس کے مطابق ہندوستانی قوم کو ایک ”کرونا جہاد“ کا سامنا ہے۔

وطن عزیز میں پچھلے چند ماہ میں، بہت سے ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن کے دور رس نتائج ہوں گے۔ ان میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب قوانین میں تبدیلی، کے علاوہ دوسری کی پالیسیوں کی تیاری یا نفاذ ہے لیکن سرخ بتی جس سے قوم کو ہوشیار رہنا ہو گا وہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں مجوزہ تبدیلیاں ہیں جن پر عمل درآمد ترقی معکوس کے مترادف ہو گا۔ میڈیا میں اکا دکا آوازیں لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کروانے کی کوشش کر رہی ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ کرونا اور قومی سلامتی کے نقار خانے میں ان کی مثال طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں۔

بیشک کرونا کے پیدا کردہ بحران نے بہت سے طبعا آزماؤں کو عوام پر کنٹرول سخت کرنے اور اپنے نظریاتی اور ذاتی مفادات کے لیے پالیسیوں کے نفاذ کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان حالات میں نئی ابھرتی دنیا قوم پرستی، رنگ و نسل کی بنیاد پر پالیسی سازی اور عالمی یکجہتی کے بجائے اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کا منظر پیش کرتی نظر آ تی ہے۔ اس پس منظر میں بین الاقوامی اداروں کا مصالحتی کردار اور بھی اہم ہو جائے گا لیکن وہاں بھی قوموں کے درمیان تعاون کی تاریخی کمی نظر آ رہی ہے۔ امید پہ دنیا قائم ہے لیکن عام شہری کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments