کورونا وائرس: انڈیا میں بہار کے مزدور رام پکار گھر پہنچنے کی تگ و دو میں کن حالات سے گزرے؟


رام پکار

رام پکار کی اس تصویر کا خاکہ جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی

انڈیا میں تقریباً دو ماہ قبل راتوں رات حکومت کی جانب سے ملک گیر لاک ڈاؤن کے بعد مختلف شہروں میں کام کاج کی تلاش میں آنے والے لاکھوں غریب مزدوروں نے پیدل اپنے گھروں کی جانب واپس چلنا شروع کر دیا تھا۔

ان میں سے بعض نے اپنے گھر پہنچنے کے لیے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کیا ہے۔ ان غریب مزدوروں کی متعدد دردناک تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔

ان میں ایک تصویر بہار سے تعلق رکھنے والے غریب مزدور رام پکار کی بھی تھی جو سڑک کنارے بیٹھے، ہاتھ میں پرانے ماڈل کا فون لیے زار و قطار روتے ہوئے کسی سے فون پر بات کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا لاک ڈاؤن سے انڈیا میں غذا کی قلت ہو جائے گی؟

اگر انڈیا میں صورتحال قابو میں ہے تو لاک ڈاؤن میں توسیع کیوں؟

میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق رام پکار اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر 11 مئی کو دلی سے پیدل ہی بہار کے علاقے بيگوسرائے میں واقع اپنے گاؤں بری یار پور کے لیے نکل پڑے تھے۔ لیکن پولیس نے انھیں اترپردیش اور دلی کی سرحد پر روک لیا۔

اترپردیش کی پولیس نے انھیں پیدل جانے کی اجازت نہیں دی اور رام پکار کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کرائے کی مہنگی گاڑی کر کے بہار چلے جاتے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کار کے ذریعے دلی سے بیگوسرائے کا سفر طے کرنے میں 20 گھنٹے لگتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے سبب ٹرینوں اور بسوں کی سروس بند ہونے کی وجہ سے رام پکار پیدل ہی اپنے گھر کی جانب نکل پڑے تھے۔

رام پکار کے پاس سمارٹ فون بھی نہیں ہے کہ وہ مزدوروں کے لیے جو اکا دکا خصوصی ٹرین چلی تھیں اس کا آن لائن ٹکٹ بک کروا لیتے یا بہار کی حکومت سے مدد مانگ لیتے۔

بغیر کسی مدد اور جیب میں نہ ہونے کے برابر پیسوں کے ساتھ رام پکار تین روز تک اترپردیش اور دلی کی سرحد پر پھنسے رہے۔ لیکن آخر کار ان کو مدد ملی۔

ایک سماجی کارکن نے ان کی بیگوسرائے تک پہنچنے میں مدد کی۔ 15 مئی کو مزدوروں کے لیے چلائی جانے والے خصوصی ٹرین سے وہ بہار کے دربھنگا علاقے لوٹ چکے ہیں اور حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے قرنطینہ مرکز میں وقت گزار رہے ہیں۔

پولیس نے روکا، بدمعاشوں نے پیسے چھین لیے

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رام پکار نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اپنی تصاویر کے بارے میں بتایا کہ ’میرا بیٹا چار دن پہلے ہی مرا تھا۔ اس کو تو میں آخری بار دیکھ بھی نہیں سکا۔ اس لیے چاہتا تھا کہ کم از کم اس کی تہروی میں شامل جاؤں۔ ایک باپ ہونے کا فرض ادا کردوں۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں ’پولیس نے مجھے سرحد پار کرنے سے روک دیا۔ میں ادھر ادھر گھوم کر لوگوں سے مدد مانگنے لگا۔ وہاں موجود دو لوگوں نے کہا کہ وہ مجھے سرحد پار کروا دیں گے۔ انھوں نے مجھے کار میں بٹھایا اور تھوڑی دور جانے کے بعد میری پٹائی کی اور میرے پاس جو بھی تھوڑے بہت پیسے تھے لوٹ لیے۔‘

رام پکار مزید بتاتے ہیں کہ ’وہاں ایک رات کو ایک میڈم کھانا تقسیم کرنے آئی تھیں۔ وہ جاتے وقت اپنا کارڈ دے گئی تھیں۔ انھی کو فون کرکے میں اپنا مسئلہ بتا رہا تھا کہ تبھی کسی نے میری تصویر اتار لی۔‘

سلمہ فرانسس کے بارے میں رام پکار بتاتے ہیں کہ ’وہ میرے لیے میرے والدین سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ جب سب سے نے میرے ساتھ دھوکہ کیا تو اس وقت انھوں نے میری مدد کی۔‘

https://www.facebook.com/salma.francis.9/posts/3794509397289765

رام پکار گھر کیسے لوٹے؟

ہم نے رام پکار سے سلمہ فرانسس کا نمبر لیا اور ان سے بات کی۔ سلمہ بتاتی ہیں کہ ’رام پکار کو گھر بھیجنے کے لیے میں نے جنوب مشرقی دلی کے سپیشل سی پی سے مدد طلب کی۔ انھوں نے خصوصی ٹرین سے رام پکار کا ٹکٹ بک کروایا۔‘

انڈیا ایکسپریس میں شائع ہونی والی ایک رپورٹ میں مشرقی دلی کے ڈی ایم ارون کمار کے حوالے سے لکھا گیا ہے ’ہماری ٹیم ہر وقت فیلڈ میں ہے۔ جب ہمیں رام پکار پنڈت کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں تو ہم نے انھیں بس کے ذریعے ریلوے سٹیشن بھیج دیا اور وہاں سے شام والی ٹرین سے وہ بہار کے لیے روانہ ہوگئے۔‘

ہراس اور تکلیف سہنے کے بعد رام پکار اپنے گاؤں کے قریب تو پہنچ گئے ہیں لیکن ابھی تک اپنے گھر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ مقامی قوانین کے مطابق وہ فی الحال قرنطینہ مرکز میں ہیں۔ ان کے بیٹے کی تہروی بھی گزر گئی ہے۔

گھر والوں سے ملاقات کے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ’کل میری بیٹی اور اہلیہ ملاقات کرنے آئی تھیں۔ میرے لیے گھر کا کھانا، مٹھائی اور ادویات لے کر آئی تھیں۔ ان سے بات چیت نہیں ہوسکی۔‘

’سارا وقت روتے ہوئے گزر گیا۔ آنکھوں میں ہر وقت بیٹے کا چہرہ گھومتا رہتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ بس میں زندہ بچ گیا یہی سوچ کر خود کو سمجھا رہا ہوں۔ معلوم نہیں آگے کیا ہوگا؟‘

https://twitter.com/DilliDurAst/status/1262246061621551107

’قسم کھا لی ہے پھر کبھی دلی نہیں جائیں گے‘

رام پکار پہلے اپنے گاؤں میں ہی رہتے تھے۔

کچھ دنوں تک انھوں نے گھر گھر جا کر سبزی فروخت کرنے کا کام کیا۔ بعد میں وہ اینٹ کے بھٹے پر کام کرنے لگے۔

تین بیٹیوں کے بعد گذشتہ سال ہی ان کا ایک بیٹا ہوا تھا۔ اس کے بعد روزگار کی تلاش میں وہ دلی چلے گئے۔

اس دوران ان کے چھوٹے بھائی نے ان کے خاندان کی دیکھ بھال کی۔

رام پکار مستقبل میں کیا کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں رام پکار کہتے ہیں ’پہلے قرنطینہ مرکز سے گھر تو پہنچ جائیں۔ صحت نے جواب دے دیا ہے۔ بہت کمزور ہوگیا ہوں۔‘

’جیسے ہی اٹھتا ہوں سر میں چکر آنے لگتے ہیں اور یہاں کے اہلکار کسی طرح کی دوائی نہیں دے رہے۔ کہتے ہیں ٹیسٹ کا نتیجہ آنے کے بعد دیں گے۔ گھر پہنچ کر 15 سے 20 روز تو صحت کو ٹھیک کرنے میں لگیں گے۔ اس کے بعد ہی کام کاج کے بارے میں سوچوں گا۔‘

رام پکار دلی میں تعمیراتی شعبے میں مزدوری کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے بعد ان کام بھی ختم ہوگیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اکلوتے بیٹے کو تو کھو دیا، اب صرف بیٹیاں بچی ہیں۔‘

تو کیا اب وہ روزگار کرنے کے لیے واپس دلی جائیں گے؟ رام پکار اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’اب چاہے جو ہوجائے، کام ملے یا نہ ملے، بھلے پیسے کم ہی کمائیں۔‘

’پھر سے اینٹوں کے بھٹے میں کام کرلیں گے، کسی کے یہاں مزدوری کر لیں گے لیکن واپس دلی نہیں جائیں گے۔ قسم کھا لی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp