حقیقت پہ مبنی حلیمہ کی کہانی


حلیمہ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور اپنے ایک بھائی سے چھوٹی اور دو بھائیوں سے بڑی تھی۔ حلیمہ اور اس کے بڑے بھائی کو اس کی خالہ نے پالا پوسہ جنہوں نے اپنی زندگی اپنے بہن بھائیوں پر شادی نہ کر کے قربان کی، کیونکہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ جب حلیمہ کی سب سے چھوٹی خالہ صرف چھ ماہ کی تھی۔

حلیمہ کی خالہ (صغراں ) جنہوں نے ان دونوں بہن بھائی کو ماں بن کر پالا تھا بہت نیک اور باہمت خاتون تھی۔ اپنے بہن بھائیوں کی شادی کرنے کے بعد صغراں نے ان دونوں بچوں کی اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت کی اور پڑھایا لکھایا۔ حلیمہ اور اس کا بھائی اپنی خالہ کو اماں کہ کر پکارتے، نہ صرف حلیمہ اور اس کا بھائی بلکہ صغراں کے اپنے بہن بھائی بھی انہیں اماں کہتے تھے کیونکہ انہوں نے سب کو ماں بن کے پالا تھا۔

حلیمہ بڑی ہو رہی تھی وہ اپنی اماں کی سب سے لاڈلی تھی اس کی اماں نے اسے پھولوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ حلیمہ بہت خوبصورت تھی اس کی موٹی موٹی آنکھیں گہری لمبی پلکیں خوبصورت ناک، گلاب ہونٹ اور کالے لمبے گھنے بال تھے۔ جو بھی دیکھتا تعریف کیے بغیر نہ رہتا۔ اتنا خوبصورت ہونے کے باوجود حلیمہ میں ذرہ برابر بھی گھمنڈ نہیں تھا۔ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ سگھڑ بھی تھی۔ سلائی کڑھائی میں ماہر تھی۔

حلیمہ نے دسویں پاس کر لی تھی اب وہ آ گے پڑھنا چاہتی تھی اس کے لیے اسے کالج جانا تھا۔ جو اس کے گاؤں سے کافی دور تھا۔ ان دنوں تانگہ چلتا تھا۔ اماں نے حلیمہ کو آگئے پڑھانے کا فیصلہ کیا اور وہ روز تانگے پہ بیٹھ کر کالج جاتی۔ سب کچھ صحیح چل رہا تھا کسی کو نہیں پتا تھا کہ اتنے نازوں میں پلی حلیمہ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

حلیمہ چونکہ بہت سگھڑ اور خوبصورت تھی اس کی سب سے چھوٹی خالہ دل ہی دل میں اسے بہو بنانے کے خواب دیکھنے لگی جس کا بیٹا حلیمہ سے پورے آٹھ سال چھوٹا تھا۔ خالہ اور اس کا شوہر دونوں اس بات پر راضی تھے۔ اس وقت حلیمہ کی عمر انیس برس تھی وہ ایف اے کر رہی تھی۔

وہ اس انتظار میں تھے کہ کب حلیمہ امتحان پاس کرے اور وہ رشتے کی بات کریں۔ حلیمہ کا سگا باپ ایک دفعہ بھی ان دونوں بہن بھائیوں کو ملنے نہیں آیا اور نہ کبھی شفقت بھرا ہاتھ ان کے سر پر رکھا۔ وہ بہت کنجوس انسان تھا جو اپنے پیسے سنبھال سنبھال کے رکھتا تھا۔ وہ اس غرض سے انہیں ملنے نہ آتا کہ کہیں اسے ان کی تعلیم کے لیے پیسے نہ دینے پڑ جائیں۔ البتہ حلیمہ کی ماں اکثر انہیں ملنے آتی رہتی۔

اماں اپنی زمینوں سے آنے والا پیسہ ان پر خرچ کرتی۔ اماں نے اکیلے ان دونوں کو پڑھایا اور ان کی پرورش کی۔ وقت گزرتا گیا اور حلیمہ نے ایف اے پاس کر لیا۔ اس کے خالہ اور خالو جو اس تاک میں بیٹھے تھے رشتہ لے کر آ گئے۔ ان کی یہ بات سن کر اماں اور حلیمہ سکتے میں آ گئیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ بے جوڑ شادی ہے۔ مگر خالہ اور خالو بضد تھے۔ اماں چونکہ بہت ہمت والی اور صبر والی عورت تھی ان کو سمجھانے لگی مگر وہ کسی صورت بھی مان نہیں رہے تھے۔ خالو نے چونکہ ایک دو دفعہ اماں کی زمین خریدنے میں مدد کی تھی انہیں جتلانے لگے۔ اماں بہت پریشان تھی کہ کیسے وہ اس بے جوڑ شادی کے لیے راضی ہو جائیں اور وہ اپنی چھوٹی بہن کو جسے انہوں نے ماں بن کر پالا تھا ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔

اماں اپنی بیٹی کی زندگی اپنی بہن کی ناجائز خواہش کی وجہ سے خراب نہیں کرنا چاہتی تھی دل پر پتھر رکھ کر انکار کر دیا۔ جس پر خالو آگ بگولہ ہو گے اور غصے میں برا بھلا کہتے چلے گئے۔ وہ اس چیز کو برداشت ہی نہیں کر رہے تھے کہ انہیں انکار کر دیا گیا ہے اسے انہوں نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے احسانات کا بدلہ انہیں رشتے کی ہاں میں ملے گا مگر ایسا نہ ہوا اور وہ غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔

چنانچہ وہ حلیمہ کے سگے ماں باپ کے پاس چلے گئے اور اس کے باپ کو ورغلایا کہ حلیمہ تمہاری بیٹی ہے اس کی شادی کا فیصلہ بھی تم کرو گے۔ اس وقت جذباتی ہو کر حلیمہ کے باپ نے ہاں کر دی مگر حلیمہ کی ماں اس رشتے کے سخت خلاف تھی۔ جیسے ہی یہ بات پورے خاندان میں پھیلی حلیمہ کے ماموں نے بھی اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے حلیمہ کا ہاتھ مانگ لیا جو حلیمہ کا ہم عمر بھی تھا مگر وہ ایک ٹانگ سے معذور تھا۔

حلیمہ ان سب کے درمیان پس رہی تھی اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اماں بھی بہت پریشان تھی۔ وہ اپنے بھائی اور بہن کی ناراضگی سے بھی پریشان تھی۔ اماں کسی کو سمجھا نہیں پا رہی تھی۔ اماں، حلیمہ اور حلیمہ کی سگی ماں ان دونوں رشتوں پر قطعی راضی نہ تھیں وہ اپنی بچی کو رشتے بچانے کے لیے قربان نہیں کرنا چاہتیں تھی۔

ایک دن اچانک حلیمہ کا باپ دونوں بہن بھائی کو لینے آ گیا۔ بیس سال تک جس نے اپنے بچوں کو جھوٹے منہ پوچھا تک نہ تھا اسے اچانک اپنے بچے کیسے یاد آ گئے۔ اماں کو اس سے کسی سازش کی بو آ رہی تھی۔ اماں کو پورا یقین تھا کہ اس کے بچے کبھی اسے چھوڑ کر نہیں جائیں گے مگر اماں کے سب گمان دھوئیں کی طرح کہیں اڑ گئے جب حلیمہ نے ساتھ جانے کی حامی بھر لی۔

حلیمہ کے باپ نے اسے اپنی باتوں میں اتار لیا تھا کہ میں تمہاری شادی تمہاری مرضی سے کروں گا۔ وہ شاید کسی کو اپنا دل دے بیٹھی تھی اس خیال سے راضی ہو گئی کے میں اپنے ماں باپ کو اس کے لئے رضامند کر لوں گی۔ اسے شاید اماں پر یقین نہیں تھا کہ وہ مجھے اس گمبھیر حالات سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

حلیمہ نے اپنا فیصلہ سنایا کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ جا رہی ہے۔ اماں کو تو جیسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا وہ سکتے کے عالم میں زخموں سے چور چور کھڑی تھی۔ اماں گہرے صدمے میں تھی کیسے وہ ان کی بیس سال کی محبت کو بھول کر اپنے مستقبل کی فکر میں مجھے چھوڑ کر جا سکتی ہے۔

حلیمہ دل برداشتہ ہو چکی تھی وہ اپنے گھر جانا چاہتی تھی جہاں اسے کوئی ماموں کے گھر رہنے کا طعنہ نہ دے کیونکہ اماں اپنے بھائی کے دیے ہوئے گھر میں رہائش پذیر تھیں۔ ماموں کے بچے بہت منہ پھٹ اور بد لحاظ تھے جنہیں یہ دونوں بہن بھائی ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔

حلیمہ کے بھائی نے اس وقت ساتھ جانے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اماں کو اتنا بڑا دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔ اماں نے اپنی دعاؤں کے ساتھ حلیمہ کو رخصت کیا اور اپنے دل پر اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل کے لیے پتھر رکھ لیا۔ حلیمہ کے جانے پر جیسے ممانی اور اس کے بچے اسی انتظار میں بیٹھے تھے اماں کو ڈھیروں باتیں سنائی کہ جن کے لیے دن رات ایک کر رہی تھی کیسے وہ سب منہ پہ مار کے یہاں سے چلی گئی۔ ان کا اصل مقصد حلیمہ کے بھائی کو بھی یہاں سے بھگانا تھا تا کہ وہ ان کی جلی کٹی باتیں سن کر یہاں سے چلا جائے اور وہ اس گھر پر قبضہ کر سکیں۔

اماں نے اب کھانا پینا بہت کم کر دیا تھا انہیں ہر وقت حلیمہ کی فکر ستاتی رہتی وہ دن بدن کمزور ہو رہی تھی۔ حلیمہ اپنی ماں کے ساتھ خوش تھی اور وہاں نئی سہیلیاں بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ جگہ اس کے لیے بالکل نئی تھی کیونکہ وہ پہلی بار یہاں آئی تھی۔ حلیمہ کے باپ نے اس کے خالو کو کہا کہ جب تمہارا بیٹا بڑا ہو جائے گا تو ہم شادی کر دیں گے اس بات کا حلیمہ اور اس کی ماں کو نہیں پتا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور حلیمہ اپنے سب گھر والوں سے گھل مل گئی۔

پھر ایک دن حلیمہ کی خالہ رشتہ لے کر آ گئی کہ اب وقت آ گیا ہے میرا بیٹا پندرہ سال کا ہو گیا ہے اور ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ حلیمہ اور اس کی ماں نے بھر پور مخالفت کی اور نتیجے میں حلیمہ کے باپ کو انکار کرنا پڑا۔ خالو اور باپ کے درمیان جھگڑا ہو گیا کہ تم نے زبان دی تھی اب تم اس سے کیسے مکر سکتے ہو، بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔

خالو جو کے غصے کے بہت تیز تھے اپنے غصے کو قابو نہ رکھ سکے اور حلیمہ کے باپ کو تھپڑ مار دیا۔ اس کے بعد اس نے ٹھان لی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اس کے بیٹے سے نہیں کرے گا۔

حلیمہ نے اپنے بھائیوں اور ماں کو اعتماد میں لے کر اس لڑکے کے بارے بات کی جس سے وہ شادی کی خواہش مند تھی۔ سب گھر والے راضی ہو گئے اور لڑکے کے گھر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ جیسے ہی یہ بات اس کے خالہ اور خالو کو پتا چلی انہوں نے ایک اودھم برپا کر دیا۔ انہیں یہ بات کسی صورت ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ انہوں نے حلیمہ کے گھر جا کر بہت ہنگامہ کیا اور حلیمہ اور اس کے ماں باپ پر الزام لگایا کہ یہ اپنی بیٹی کے غلط کام میں اس کی حمایت کر رہے ہیں۔

اب مسئلہ سب کی عزت، غیرت اور انا کا بن گیا۔ اور اس کی بھینٹ حلیمہ کو چڑھا دیا گیا، حالات اس قدر سنگین ہو گئے تھے کہ اس کے باپ نے جلد بازی میں اس کی شادی ایک ان پڑھ شخص سے کر دی جس کے پاس محض کچھ گائیں اور بھینسیں تھیں۔ حلیمہ کی زندگی تباہ کر دی گئی جو اپنوں کی ناجائز خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ہمارے اردگرد ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں جن کو ہم اپنی جھوٹی انا اور غصے کی آڑ میں غرق کر دیتے ہیں۔ خدارا کسی کی حق تلافی مت کریں اور اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لیے دوسروں کی زندگی سے کھیلنا بند کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments