آصف زرداری کے ساتھ دکھائی دینے والی رخسانہ بنگش کون ہیں


رخسانہ بنگش

آصف زرداری 2008 میں صدر مملکت منتخب ہوئے تو رخسانہ بنگش ان کی پولیٹیکل سیکریٹری کے عہدے پر کام کرتی رہیں اور آج بھی وہ یہ فرائض ہی سرانجام دے رہی ہیں

پاکستان میں احتساب کے ادارے نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی بیورو (نیب) نے ایک کاروباری شخصیت عمر منظور کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت تحقیقات شروع کی ہیں اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے اسے آصف زرداری کے خلاف ’گھیرا تنگ‘ کرنے کی بھونڈی کوشش قرار دیا ہے۔

آخر ایک غیر معروف نوجوان کاروباری شخصیت کے خلاف نیب کی کارروائی کا ملک کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک اور سابق صدر کے ساتھ ایسا کیا تعلق ہے کہ پیپلز پارٹی اسے اپنی جماعت کے خلاف ایک سازش قرار دے رہی ہے۔

آصف زرداری اور اس نوجوان کا تعلق، کئی دہائیوں پر محیط ہے اور اسے موجودہ وقت میں آصف زرداری کا سب سے قریبی تعلق قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ عمر منظور رخسانہ بنگش کے صاحبزادے ہیں۔

عمر منظور رخسانہ بنگش کے صاحبزادے ہیں۔

رخسانہ بنگش کون ہیں؟

کم لوگ جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ایک غیر معروف سیاسی خاتون سابق رکن قومی اسمبلی رخسانہ بنگش کا شمار پاکستان کی انتہائی طاقتور سیاسی خواتین میں ہوتا ہے۔

ان کے طاقتور یا بااثر ہونے کی وجہ ان کا پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ دیرینہ، قریبی اور گہرا تعلق بتایا جاتا ہے۔

رخسانہ بنگنش کا تعلق پنجاب کے راولپنڈی ڈویژن سے ہے اور ان کے والد محمد اسلم وفاقی سیکریٹری رہ چکے ہیں۔

رخسانہ بنگش کی بہن شمع پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کی اس وقت پولیٹیکل سیکریٹری بنیں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی بنیاد ڈال کر خاتون اول بیگم نصرت بھٹو کو عملی سیاست میں اتارا۔

کچھ عرصے بعد شمع امریکہ منتقل ہو گئیں اور ان کی بہن رخسانہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ جڑ گئیں۔

رخسانہ بنگش سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی بھی معاونت کرتی رہیں مگر بعد میں ناہید خان جب بینظیر بھٹو کی پولیٹکل سیکریٹری بنیں تو رخسانہ بنگش کو بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ بینظیر بھٹو کے خاوند آصف زرداری کی سیاسی معاونت کی ذمہ داری پر لگا دیا گیا۔

رخسانہ بنگش تب سے اب تک آصف زرداری کی پولیٹیکل سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

بینظیر بھٹو نے 2007 کے انتخابات کے لیے جن خواتین کو مخصوص نشستوں پر نامزد کیا تھا ان میں رخسانہ بنگش سرفہرست تھیں۔ 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو کی دہشت گرد حملے میں ہلاکت کے بعد انتخابات ملتوی کر کے 2008 میں کروائے گئے مگر امیدوار وہی رہے۔

اس لیے رخسانہ بنگش خواتین کی مخصوص نشستوں پر جمع فہرست کے مطابق پانچ سال کے لیے قومی اسمبلی کی رکن بن گئیں مگر ساتھ ہی آصف زرداری کی پولیٹکل سیکریٹری کے فرائض بھی سرانجام دیتی رہیں۔

آصف زرداری کی ’ناہید خان‘

آصف زرداری 2008 میں صدر مملکت منتخب ہوئے تو اس کے بعد بھی رخسانہ بنگش اسی عہدے پر فائز رہیں اور آج بھی وہ آصف زرداری کی پولیٹیکل سیکریٹری کے فرائض ہی انجام دے رہی ہیں۔

آصف زرداری کراچی میں ہوں یا اسلام آباد میں، نوابشاہ میں ہوں کہ نوڈیرو لاڑکانہ میں یا پھر دبئی یا لندن میں رخسانہ بنگش سائے کی طرح ان کے ساتھ رہتی ہیں۔

گذشتہ دنوں آصف زرداری کی نیب کی تحویل اور پھر جیل میں ہونے کے باوجود رخسانہ بنگنش ان کے تمام امور دیکھتی رہیں۔ وہ آصف زرداری کی تمام عدالتی پیشیوں اور نیب میں حاضریوں پر بھی نظر آتی رہیں۔

رخسانہ بنگنش آصف زرداری کی تمام مصروفیات اور معمولات میں معاونت کرتی ہیں اور انتہائی دیرینہ ساتھی ہونے کی وجہ سے آصف زرداری کے صحت کے متعلق بھی معاملات زیادہ تر رخسانہ بنگش خود ہی دیکھتی ہیں۔

سابق صدر آصف زرداری کی ملاقاتوں اور پارٹی سرگرمیوں کا حتمی شیڈول بھی پارٹی رہنما رخسانہ بنگش کے ذریعے ہی طے کرتے ہیں۔

نیب

رخسانہ بنگش نرم مزاج مگر انتہائی خاموش خاتون ہیں۔ آصف زرداری سے کوئی صحافی ملنے جائے یا سیاسی شخصیت یا کوئی اور ملاقات والے کمرے میں رخسانہ بنگش موجود تو ہوتی ہیں مگر ملاقات کرنے والوں کو ان کی موجودگی کا احساس صرف ان پر نظر پڑنے پر ہی ہو سکتا ہے وگرنہ وہ خاموشی سے اپنی جگہ پر اس وقت تک بیٹھی نظر آئیں گی جب تک اگلی طے شدہ ملاقات کے لیے انہیں آصف زرداری کو یاد نہ کروانا ہو۔

پیپلز پارٹی کے بعض رہنما ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ رخسانہ بنگش کا آصف زرداری کے ساتھ تعلق ایسا ہی ہے جیسا بینظیر بھٹو کی قریبی ساتھی اور پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان ان کے ساتھ تھا۔

پیپلز پارٹی کے انتہائی اہم رہنما بھی رخسانہ بنگش کے ذاتی زندگی سے لاعلم ہیں۔ پارٹی رہنماؤں کی اکثریت کو صرف اتنا پتا ہے کہ وہ آصف زرداری کی پولیٹیکل سیکریٹری ہیں اور اس سے قبل وہ بیگم نصرت بھٹو کی پولیٹکل سیکریٹری رہ چکی ہیں۔

مرتضیٰ اور بینظیر میں صلح کروانے میں اہم کردار

رخسانہ بنگش کا شمار پیپلز پارٹی کی قیادت کی ان قریبی شخصیات میں بھی ہوتا ہے جنھوں نے بینظیر بھٹو کی ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو سے صلح کے لیے ملاقاتیں کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

جب 1993 میں بینظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں تو 1977 سے جلاوطن ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو نے وطن واپس آنے کا اعلان کیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے بھائی پر درج مقدمات اور حالات کو بنیاد بنا کر ان کی وطن واپسی کی مخالفت کی تھی تاہم بیگم نصرت بھٹو نے بیٹے کی واپسی کی نہ صرف حمایت کی بلکہ عملی طور پر بھی ان کا ساتھ دیا تھا۔

نصرت اور بینظیر بھٹو

مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت کے بعد بیگم نصرت بھٹو کو بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے گھر بلاول ہاؤس منتقل کرنے کے لیے معاونت کرنے والوں میں رخسانہ بنگش کا ہی نام لیا جاتا ہے

مرتضیٰ بھٹو کو وطن واپسی پر کراچی میں گرفتار کر لیا گیا تھا جس کے بعد ان کے اپنی بہن وزیراعظم بینظیر بھٹو سے اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے۔ مرتضیٰ کی رہائی کے بعد بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو میں صلح کی کوششیں ہوئیں۔

20 ستمبر 1996 کو کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت سے کچھ عرصہ قبل بینظیر بھٹو سے کچھ ملاقاتیں بھی ہوئیں جس میں دیگر شخصیات کے علاوہ رخسانہ بنگش کا بھی کردار بتایا جاتا ہے۔

مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت کے بعد جب بیگم نصرت بھٹو یادداشت کھو بیٹھیں تھیں تب انھیں بھٹو خاندان کی رہائش گاہ 70 کلفٹن کراچی سے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے گھر بلاول ہاؤس منتقل کرنے کے لیے معاونت کرنے والوں میں رخسانہ بنگش کا ہی نام لیا جاتا ہے۔

بعد میں جب بینظیر بھٹو نواز شریف کی حکومت میں جلاوطن ہو گئیں تو انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کو بھی دبئی منتقل کیا تھا اور بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد بھی بیگم نصرت بھٹو تادم مرگ آصف زرداری کے پاس ہی رہیں۔

بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پارٹی کے سربراہ شریک چیئرمن آصف زرداری تمام تر اختیارات کا مرکز بن گئے تھے اور ان کی سب سے قریب ہونے کی وجہ سے رخسانہ بنگش کو بھی انتہائی طاقتور اور بااثر خاتون سمجھا جانے لگا تھا۔

آج بھی پیپلز پارٹی کے امور کو لے کر جہاں جہاں آصف زرداری کے اختیار کی بات ہوتی ہے وہاں رخسانہ بنگش کا بھی ذکر لازمی آ ہی جاتا ہے۔

آصف زرداری

پیپلز پارٹی کا الزام ہے کہ نیب کے ذریعے آصف زرداری سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

’یہ کارروائی آصف زرداری کے خلاف سیاسی انتقام ہے‘

پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ پنجاب کے سیکرٹری جنرل چوہدری منظور کے مطابق نیب نے رخسانہ بنگش یا ان کے بیٹے کے خلاف کس معاملے میں انکوائری شروع کی ہے اس کی تفصیل تو خود ملزم اور ان کے اہل خانہ کو بھی معلوم نہیں ہے۔

’ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ انکوائری رخسانہ بنگش کے خلاف ہے یا ان کے بیٹے کے خلاف اور یہ بھی معلوم نہیں کہ الزام کیا ہے۔‘

چوہدری منظور نے کہا ہے کہ نیب کی رخسانہ بنگش یا ان کے اہل خانہ کے خلاف دراصل آصف زرداری کے خلاف انتقامی کارروائی کا تسلسل ہے جس میں نیب کے ذریعے آصف زرداری سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

’ایسی کارروائیاں پہلے بھی بے اثر رہی ہیں اور یہ تازہ کارروائی بھی پیپلز پارٹی یا آصف زرداری کے سیاسی عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp