کشتی، تین دوست اور برائے نام کتا (قسط 2)۔


پہلی دونوں تجاویز مسترد ہونے کے بعد ہم نے سوچا کہ کیوں نہ دریائے ٹیمز میں ایک ہفتے کے لئے بوٹ سفاری پہ چلیں۔ دریا کی سیر کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ بحری سفر کی یکسانیت کے برعکس ارد گرد کے مناظر بدلتے رہتے ہیں اس لیے انسان بور نہیں ہوتا۔ دوسرا کشتی کھینا کافی مشقت کا کام ہے، جس سے بھوک بھی کھل جاتی ہے اور نیند بھی اچھی آتی ہے۔ اب ہم تینوں تو اس پہ متفق ہو گئے لیکن مانی کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔ اوہ، معاف کیجئے گا، میں مانی کا تعارف کروانا تو بھول ہی گیا۔

مانی دراصل میرے مسکین صورت کتے کا نام ہے۔ مانی دیکھنے میں اتنا مرنجاں مرنج اور شریف النفس لگتا ہے کہ اس کو دیکھ کے نیک سیرت بزرگ خواتین کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ اس وقت اس کے چہرے پہ کچھ ایسا تاثر ہوتا ہے کہ جیسے اس کی روح دنیا میں ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم و ستم کی وجہ سے بے حد مضطرب ہے اور وہ دنیا کی بہتری کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب مانی میرے پاس آیا نیا نیا آیا تھا تو مجھے لگتا تھا کہ لچوں لفنگوں سے بھری یہ دنیا اس فرشتہ صفت معصوم ہستی کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے کسی وقت اچانک آسمان سے فرشتے اتریں گے اور مانی کو کسی اڑن کھٹولے میں بٹھا کے لے جائیں گے۔

لیکن آنے والے دنوں میں ٓآہستہ آہستہ مانی کے جوہر کھلنے لگے تو میں بتدریج اس فکر سے آزاد ہوتا گیا۔ مجھے بارہا اپنے پڑوسیوں کو ان مرغیوں کی قیمت ادا کرنا پڑی جو مانی کے ہاتھوں اپنے مالکان کو قبل از وقت داغ مفارقت دے گئی تھیں۔ پھر ایک اور پڑوسی نے اپنے نوکر کو بھیج کے مجھے اپنی بارگاہ میں طلب کیا اور اپنے گھر کے گیٹ پہ آ کے مجھ سے یہ وضاحت مانگی کہ میں نے ایسے خونخوار درندے کو کس خوشی میں کھلا چھوڑا ہوا ہے؟

معلوم ہوا کہ گزشتہ شب سخت سردی میں کئی گھنٹے تک انہیں اپنے گیراج میں قید رہنا پڑا تھا کیونکہ باہر مانی ان کی ٹانگ دبوچنے کے لئے بے قرار تھا۔ اسی طرح ایک روز ایک خاتون اپنی مری ہوئی بلی مجھے دکھانے کے لئے لائیں اور جاتے جاتے مجھے ”قاتل“ کے خطاب سے نواز گئیں۔ اپنی گلی کے آوارہ کتوں میں سے چھانٹ چھانٹ کے اپنے جیسے بدمعاش جمع کرنا اور ان کی قیادت کرتے ہوئے قریبی گلی کے ایسے ہی کتوں سے دنگل کھیلنا آج کل مانی کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔ بوٹ سفاری سے مانی کی بیزاری کہ وجہ بھی یہی تھی کہ وہاں اس طرح کی سرگرمیوں کی امید ذرا کم تھی۔ تاہم مانی کے احتجاج کے باوجود دریائے ٹیمز میں کشی کی سیر کا پروگرام ہماری چار ممبران پہ مشتمل کمیٹی نے ”تین۔ ایک“ کی بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔

طے یہ ہوا کہ دیپک، مانی اور میں اگلے جمعے کنگسٹن سے صبح نو بجے روانہ ہو کے چند گھنٹے میں چرٹسی پہنچ جائیں گے، جہاں سے جارج ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا۔ (جارج آج کل روزانہ صبح دس بجے سے سہہ پہر چار بجے تک ایک بینک میں سونے جاتا ہے۔ لیکن جمعے کے روز آدھی چھٹی ہونے کی وجہ سے اس کو دو بجے ہی جگا کے بینک سے نکال دیا جاتا ہے ) ۔

اگلا اہم مسئلہ یہ تھا کہ دوران سفر ہم راتیں کہاں بسر کریں گے؟ کسی ہوٹل میں یا دریا کے کنارے اپنے خیمے میں؟ میں اور دیپک کیمپنگ کے حق میں تھے کیونکہ کھلے آسمان تلے آزاد فضا میں کیمپنگ میں جو لطف ہے وہ ہوٹلوں کی سڑی بؔسی عمارتوں میں کہاں۔ اس سحر انگیز ماحول کا تصور کریں جب دن کے اختتام پہ ڈوبتے ہوئے سورج کی سنہری کرنیں دریا کے پانی پہ جگمگا رہی ہوں، درخت سارا دن دھوپ جذب کرنے کے بعد اور بھی گھنے اور تروتازہ لگ رہے ہوں، اور پرندوں کے جھنڈ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہوں۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے شام گہری ہونے لگے اور ہر طرف ایک خوابناک خاموشی چھا جائے۔ ایسے سمے یوں محسوس ہوتا جیسے تاریکی کی پریاں روشنی کی آخری کرنوں کو الوداع کہنے کے لیے دبے پاؤں درختوں سے اترتی ہیں جس کے بعد مدھم ستاروں سے جھلملاتی رات دنیا کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتی ہے۔ ہم نے سوچا کہ ایسی طلسماتی فضا میں ہم دریا کے کسی پرسکون گوشے میں کشتی باندھ کے کنارے پہ اپنا خیمہ لگائیں گے۔ اس کے بعد آگ جلا کے بار بی کیو کیا جائے گا اور کھانے کے بعد ہم اپنے اپنے پائپ سلگا کے ہلکی پھلکی گپ شپ کریں گے جبکہ پس منظر میں صدیوں سے گامزن دریا کی لہریں سرگوشیوں میں گئے زمانوں کی داستانیں سنا رہی ہوں گی۔

رات ڈھلے جب ہم اپنے پائپ بجھا کے بستروں میں لیٹیں گے تو نیند کی دیوی ہمیں ہزاروں، لاکھوں برس پہلے کے اس دور میں لے جائے گی جب فطرت اپنی خالص ترین شکل میں تروتازہ اور شاداب تھی۔ جب انسان تصنع اور لالچ سے نا آشنا تھا اوراس نے اپنے آپ کو شہروں میں قید نہیں کیا تھا بلکہ اس کی زندگی فطرت کے ساتھ مکمل طور پہ ہم آہنگ تھی۔

اگر بارش ہوگئی تو؟ جارج نے پوچھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ جارج کو آپ ایسی باتوں سے متاثر نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں جذبات و احساسات نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔ اگر کبھی اس کی آنکھیں نم ہوں تو یہ فرض کرنے کی غلطی نہ کیجئے گا کہ کسی وجہ سے اس کا دل بھر آیا ہے کیونکہ اس کی آنکھوں میں آنسو صرف پیاز چھیلنے یا زیادہ پیاز کھانے کی صورت میں ہی آسکتے ہیں۔ اگر آپ چاندنی رات میں جارج کے ساتھ ساحل سمندر پہ چہل قدمی کر رہے ہوں اور اسے کہیں کہ یہ سب کچھ کتنا دلفریب ہے۔ غور سے سنو، سمندر کے اندر جل پریاں سریلے نغمے بکھیر رہی ہیں تو وہ آپ کو بازو سے پکڑ کے شہر کی جانب کھینچتے ہوئے کہے گا، مجھے تمہاری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی جانی۔ یہاں قریب ہی ایک جگہ ہے جہاں دنیا کی بہترین اسکاچ ملتی ہے۔ ایک ہی جام سے تم بالکل فٹ ہو جاؤ گے۔

جارج کہیں بھی ہو، اسے قریب ہی کسی ایسی جگہ کا علم ضرور ہوتا ہے جہاں کسی نہ کسی قسم کی اعلی ترین شراب مل سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر جنت میں بھی جارج سے آپ کی اتفاقاً ملاقات ہو جائے تو وہ آپ کو دیکھتے ہی کہے گا، ”اچھا ہوا تم آگئے جانی۔ یہاں قریب ہی میں نے ایک شاندار پب ڈھونڈا ہے جہاں کے مشروبات لاجواب ہیں۔ چلو۔“

یہ سب اپنی جگہ، لیکن اس موقع پہ جارج کی بات میں وزن تھا۔ برسات میں کیمپنگ کا سارا نشہ ہرن ہوجاتا ہے اور اس سے وابستہ لطیف احساسات اور رومانوی خیالات کی جگہ ذرا مختلف قسم کے مسائل سے واسطہ پڑ جاتا ہے۔ مصیبت کا آغاز کشتی میں پانی بھر جانے سے ہوتا ہے جس سے آپ اور آپ کا زیادہ تر سامان بھیگ جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ بڑی مشکل سے دریا کے کنارے کوئی ایسی جگہ تلاش کرتے ہیں جہاں نسبتاً کم کیچڑ ہو تاکہ وہاں خیمہ نصب کیا جا سکے۔ اب خیمہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ بارش کا پانی پی پی کے اتنا بھاری ہوچکا ہے کہ اس کو کشتی سے نکال کے کنارے تک پہنچانا ایک شخص کے بس کی بات ہی نہیں۔ اس پر طے پاتا ہے کہ دو افراد خیمہ نصب کریں جبکہ تیسرا کشتی سنبھالے اور شب بسری کے لیے ضروری سامان کشتی سے اتار کے لائے۔

اب جو خیمہ لگانے کی کوشش کر رہے ان دونوں کو لگتا ہے کہ اس کا ساتھی سراسر مجہول ہے جو خیمہ لگانے کی بجائے اسے اکھاڑنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ ایک اپنی طرف کے کھونٹے مضبوطی سے گاڑ کے ان پہ رسیاں باندھ چکتا ہے تو دوسرا ایک زبردست جھٹکے سے خیمے کو اپنی جانب کھینچ کے سارے کیے کرائے پہ پانی پھیر دیتا ہے۔ اندھیرے میں نہ کچھ سجھائی دیتا ہے، نہ بارش اور تیز ہوا کے شور میں دونوں کو کچھ سنائی دیتا ہے۔ ادھر سے یہ چیختا ہے، او پاگل کے بچے، خیمے کو ڈھیلا چھوڑ۔

ادھر سے وہ چلاتا ہے، ابے گدھے، خیمہ الٹا کیوں لگا رہا ہے؟ یا دونوں ایک ہی وقت خیمہ اپنی طرف کھینچتے ہیں یا دونوں ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس دھینگا مشتی سے تنگ آ کے ادھر والا فیصلہ کرتا ہے کہ اس طرح وقت برباد کرنے کی بجائے دوسری طرف جا کے اس احمق کو دیکھتا ہوں کہ آخر وہ کر کیا رہا ہے۔ ؑعین اسی لمحے دوسرا بھی یہی فیصلہ کرتا ہے اور نتیجتاً دونوں خیمے کے گرد ایک دوسرے کے تعاقب میں چکر لگانے لگتے ہیں یہاں تک کہ خیمے کا جتنا حصہ نصب ہو چکا تھا وہ بھی ہوا کے زور سے اکھڑ کے زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ خس کم جہاں پاک۔

آخر کار ان کا تیسرا ساتھی بھی آ جاتا ہے اور تینوں مل کے کسی نہ کسی طرح الٹا سیدھا خیمہ نصب کر کے اس میں گھس جاتے ہیں۔ لکڑیاں جلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے ٓاسٹوو سے کام چلایا جاتا ہے۔ اس رات کھانے کا سب سے اہم جزو بارش کا پانی ہے۔ سالن نوے فیصد اور روٹی دو تہائی پانی پہ مشتمل ہے، جبکہ مکھن، کافی، جام، اور نمک وغیرہ سب پانی میں گھل کے ایک نایاب قسم کے سوپ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ڈنر پہ تین حرف بھیج کے آپ پائپ سلگانے کی کوشش کرتے ہیں تو پتہ چلتا کہ سارا تمباکو بھیگ کے ضائع ہو چکا ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ کسی نہ کسی طرح بستر میں گھس کے سونے کی کوشش کی جائے۔

جیسے ہی آپ کی آنکھ لگتی ہے، آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ ایک ہاتھی آپ کے سینے پہ بیٹھ گیا ہے اور قریب ہی ایک آتش فشاں زوردار دھماکے سے پھٹا ہے جس نے آپ کو ہاتھی سمیت سمندر کی تہہ میں پھینک دیا ہے۔ آپ ہڑبڑا کے جاگتے ہیں تو اٹھتے ہی یہ گمان ہوتا ہے کہ قیامت آ چکی ہے۔ ذرا حواس ٹھکانے آتے ہیں تو لگتا ہے کہ قیامت تو نہیں آئی لیکن شاید تاتاریوں نے حملہ کر دیا ہے۔ اب گھبراہٹ میں آپ مدد کے لیے شور مچانا شروع کرتے ہیں تو جواب میں آپ پہ چاروں طرف سے لاتیں اور گھونسے برسنے لگتے ہیں۔

پھر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کے نیچے سے بھی کسی کی گھٹی گھٹی چیخوں کی آواز آ رہی ہے۔ آپ اس مصیبت سے نکلنے کے لیے دیوانہ وار ہاتھ، پاؤں اور ٹانگیں چلانا شروع کر دیتے ہیں جس کے جلد ہی مثبت نتائج نکلتے ہیں اور آپ کا سر کسی نامعلوم شکنجے سے آزاد ہوکے تازہ ہوا میں نکل آتا ہے جہاں سب سے پہلے جس چیز پہ آپ کی نظر پڑتی ہے وہ پاجامے اور پھٹی ہوئی بنیان ملبوس کوئی تاتاری جنگجو ہے جس کے دائیں ہاتھ میں ڈھال اور بائیں ہاتھ میں چپل ہے۔

ابھی آپ اپنے ممکنہ قاتل کے اسلحے کے باب میں حسن انتخاب کی داد ہی دے رہے ہیں کہ وہ بول پڑتا ہے، تو یہ تم ہو! اب آپ بھی پہچان لیتے ہیں کہ یہ دیپک ہے اور جس کو آپ ڈھال سمجھے تھے وہ دراصل فرائنگ پین ہے۔ دیپک آپ کو بتاتا ہے کہ خیمہ گر گیا ہے اور میں بڑی تگ و دو کے بعد ابھی ابھی اس کے نیچے سے نکلا ہوں۔ گویا جن ٹھوکروں اور مکوں سے آپ کی تواضع ہوئی وہ دیپک صاحب کی جدوجہد آزادی کا نتیجہ تھے۔ اب آپ کو اپنے تیسرے ساتھی جارج کا خیال آتا اور دونوں اس کو پکارنے لگتے ہیں لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں آتا۔

البتہ آپ کے سفری گدے کے نیچے ایک عجیب بھونچال آیا ہوا ہے جس سے آپ مسلسل ہچکولے کھا رہے ہیں۔ پھر نیچے سے ایک منمناتی آواز میں، جو آپ نے پہلے بھی سنی تھی، کوئی کہتا ہے، خدا کے لیے میری گردن تو چھوڑو۔ اس پہ آپ دیپک کے سہارے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو نیچے سے کیچڑ میں لت پت جارج برآمد ہوتا ہے جو کافی جارحانہ موڈ میں ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ آپ نے قصداً اسے قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔
(جاری ہے )

اس سیریز کے دیگر حصےکشتی، تین دوست اور برائے نام کتاکشتی، تین دوست اور برائے نام کتا(قسط 3)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments