ننھی انیکا جو تین تعصبات کا نشانہ بنی


انیکا، مجھے اس کا پورا نام تو یاد نہیں مگر مجھے اس کا چہرہ اور نین نقش سب یاد ہیں۔ لمبی سی، گندمی رنگت والی، بہت سیاہ اور گھنے بال۔ اب جبکہ میں اس کے بارے میں لکھ رہی ہوں تو اس سے ملنے، بات کرنے کی شدید خواہش سی بیدار ہوگئی ہے۔ دل کو رنجیدہ کر دینے والی یاد سی آ گئی ہے اس کی۔ اس کو آخری بار کب دیکھا تھا یہ بھی اب ٹھیک سے یاد نہیں رہا مگر میرا دل اچانک سے پسیج سا گیا ہے۔ خدا جانے وہ اب کیسی ہوگی۔ خدا کرے سلامت ہو، بھلے حالوں میں ہو۔

میں نے انیکا کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔ میں نے اس کو اپنا شیشے کا گڑیا گھر دینے کا وعدہ کیا تھا مگر میں وعدے سے پھر گئی۔ ”مین گرلز“ کی طرح میں نے اس کو کہا میں کیوں دوں تمھیں کچھ۔ مگر مجھے جلد ہی اس مکر اور تنگ نظری کی سزا مل گئی تھی جب مدرز ڈے کا اسپیشل فنکشن بارش کی وجہ سے دو بار ملتوی ہوا اور پھر منسوخ ہی ہوگیا۔ مجھے انیکا لے کر گئی تھی وہاں آڈیشن کے لئے۔ میں نے بھی خوب ماڈلز کی طرح کیٹ واک کی کہ انتخاب کرنے والی میری پریپ کی استانی میڈم کلثوم تو حیران ہی رہ گئیں۔ وہ ریہرسل کے دن کتنے اچھے ہوا کرتے تھے۔ مجھے آج بھی وہ احساس یاد ہے، اس کی یاد مجھے وہیں واپس لے جاتی ہے۔ راولپنڈی کی سہہ پہر کا وقت، نیلے آسماں تلے ہوتی اسکول کے فنکشن کی تیاریاں اور ہلکی ہلکی دھوپ کے ساتھ ہلکی ہلکی بے حد یخ ٹھنڈی ہوا۔

مگر میں دوبارہ انیکا کی طرف آؤں گی۔ انیکا کو یاد کیا تو اس سے آتی خاص خوشبو تک یاد آ گئی مجھے۔ اس کی پیشانی پر اس کے کٹے ہوئے بینگز اور اونچی پونی اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتے تھے۔ مجھے اس کی لمبی پلکی تک یاد ہیں جو اس کے چہرے کی خاصیت ہوا کرتی تھیں۔ وہ بہت دھیمے اور شائستہ لہجے میں بولتی تھی، بہت کم گو تھی اور میرے ساتھ ہی جماعت میں بیٹھا کرتی تھی۔ انیکا کی طرح میرے بھی کوئی اتنے رفقاء نہیں تھے اسکول میں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میں نے بھی انیکا کا گڑیا گھر کے لئے دل توڑا۔ مجھے شرمندگی ہے اور بہت ہی ہے، انیکا کو دیکھے ہوئے شاید پندرہ سال ہو گئے ہیں۔ مگر وہ میری اور میں اس کی ساتھی تھے کلاس تھری ایف میں۔

انیکا میرے علاوہ سب سے الگ تھلگ اس لئے بھی رہتی تھی کہ سب نے ہی اس سے فاصلے بنا کے رکھے ہوئے تھے۔ اس وقت ہم سب کی عمر ہوگی یہی کوئی سات برس۔ ہمیں لگتا ہے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں، مگر بچے تو اپنے گھر، خاندان کا منہ بولتا ثبوت ہوا کرتے ہیں۔ سات برس کے اطفال کی کیا نفسیات تھی، اس کا اندازہ اگلی چند باتوں میں قاری خود ہی لگا لیں گے۔ انیکا میں تین بڑی خامیاں تھیں جس کی بدولت سماجی دوری کا شکار تھی وہ۔

اول خامی کہ انیکا دادا کی وفات کے باعث سالانہ امتحانات دینے سے قاصر رہی تھی۔ چونکہ اس کا ایک سال ضائع ہوگیا تھا تو اس کو جماعت سوئم میں دوبارہ بیٹھنا پڑ رہا تھا۔ سال دوبارہ دہرانے والے اسکول و کالج کی طالب علم کو کیسے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا ہم سب کو ہی علم ہے۔ اس طالب علم کی ذہانت تو سمجھیے کہ معاشرے کی نظر میں جنم لیتے ہی دم توڑ دیتی ہے۔

انیکا کی آزمائشوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انیکا میں دو اور بہت بڑے نقائص تھے۔ دوسرا نقص ظاہر تھا۔ انیکا فربہ تھی۔ عام زباں میں انیکا ”موٹی“ تھی سو فربہ لوگوں کو تو سرے سے جینے کا حق ہی نہیں ہونا چاہیے۔ خاص طور پر اگر لڑکی موٹی ہو۔ اس کا جینا عذاب، سانس لینا مجروح اور کھانا پینا ممنوع ہو جانا چاہیے۔ نہایت عمدہ آواز والی انیکا سب لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے ناقابل قبول تھی صرف اپنے صحت مند ہونے کی وجہ سے اور جلتی پر تیل اس کے لمبے قد نے ڈالا۔ ایک وہ سال دہرانے والی اور غضب خدا کا اوپر سے موٹی۔

مگر ٹھہریئے، جو تیسرا عیب میری اس سہیلی میں تھا، وہ آپ سنیں گے تو کانوں کو ہاتھ لگائیں گے، توبہ کریں گے۔ چلو مان لیا انیکا سال دہرا رہی تھی کہ دادا جہان فانی سے کوچ کر گئے اور سب کو فیصل آباد جانا پڑا، چلو یہ بھی قبول ہے کہ وہ لوگوں کی نظر میں کچھ زیادہ ہی صحت مند تھی مگر ہم یہ کیسے قبول کریں کہ وہ کسی دوسرے مسلک سے ہو؟ اجی بس کریں، بہت ہوگیا برداشت، رواداری کا تماشا۔ یہ شرائط تو مان لی گئیں ہیں نا کہ باڈی شیمنگ نہیں کرنی چاہیے، یہ بھی تو کسی طرح مان لیا کہ فیلئر شیمنگ نہیں کرنی چاہیے مگر ہم یہ تیسرا نقطہ کاہے کو تسلیم کریں۔

انیکا کسی عام ادھر ادھر کے مرتب کردہ مسلک سے نہیں تھی، انیکا شیعہ مسلک سے تھی۔ جی، آیا نا پہاڑ اونٹ کے نیچے۔ مجھے اچھے سے یاد ہے کہ کیسے سب اس سے اس کے مسلک کے بارے ناپسندیدگی کا برملا اظہار کیا کرتے تھے۔ کوئی ڈھکے چھپے الفاظ نہیں ہوا کرتے تھے۔ بچے تو من کے سچے ہوتے ہیں نا، تو جو ان کے دماغ اور من میں سنائی دیتا تھا اہل تشیع بارے وہی من کے سچے بچے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کرتے تھے اور میں کوئی بات کو کھینچ کر نہیں بتا رہی، واقع میں کھلے لفظوں میں اس کو بتایا جاتا تھا کہ شیعہ تو مسلمان نہیں ہوتے۔

کسی کو کوئی اور بات معلوم ہو نہ ہو، انیکا سے بس ہر کوئی ان کی یہاں کی کھیر کے حوالے سے استفسار کرتا دکھائی دیتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ جب وہ کہہ رہی تھی کہ ہم کھیر میں کچھ نہیں ڈالتے اور لڑکے اس کا مذاق بنا رہے تھے کہ اس کی کھیر میں گندگی ملی ہوئی ہے۔ یہ میں مستونگ، پارہ چنار یا بنوں کا قصہ بیان نہیں کر رہی بلکہ فضائیہ انٹر میڈیٹ کالج چکلالہ (نور خان) کی روداد بتا رہی ہوں۔ مجھے اس کا وہ بے بس چہرہ ابھی بھی یاد آ رہا ہے۔

مجھے آج اچانک سے انیکا کی بہت یاد آ رہی ہے۔ دعا ہے کہ وہ جہاں بھی ہو سلامت اور بخیر ہو اپنے اہل خانہ کے ساتھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments