رمضان ان لوگوں کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟


میں ایک ہجوم کے شور میں گم ہوئی جا رہی ہوں کرب کے زندہ وجود میں اپنی شناخت کھوئے جا رہی ہوں قدم اٹھانے کی کوشش کرتی ہوں تو نہنگ اور چیتھڑوں میں ملبوس بچہ میری ٹانگوں سے لپٹ کر سسکیاں بھر رہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس کی ہر ایک سسکی میری روح نکال دے گی۔

رمضان ہی گویا میرے کانوں میں تو صدائے اکبر گونجنی چاہیے لیکن عجب تماشا بپا ہے۔ ایک طرف زیادتی کا شکار ہوئی عورت کی کرب سے بھری درد ناک چیخیں میری سماعتوں کو چیر کر گزر رہی ہیں۔ تو دوسری طرف اس زیادتی کی شکار عورت کے لیے بنائے گئے جرگے کے بھونڈے قوانین میری عقل اور دماغ کو پریشان و پشیماں کر رے ہیں۔ گویا دھیرے دھیرے میں پاگل ہو رہی ہوں۔ ہائے افسوس کہ رمضان کو وقت کی کارنس پر مہینے کے گلدان میں سجا کر رکھ دیا گیا ہے اور یہ رمضان جرگہ والے حضرات اور ان کے اصولوں کو بال برابر بھی نہیں ہلا سکتا رمضان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

رمضان کے آخری عشرے میں قرآن سے بیاہی جانے والی دوشیزاؤں کا صبر احد اور احرام مصر کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دے مگر یہ نہ ہلا سکا تو اس سوچ کو اس ذہن کو جو عورت کو محض ایک سامان سمجھتی ہے، روندے جانے کا سامان، برباد کیا جانے کا سامان، بھائی اور باپ کے گناہوں کے جرم پر ہرجانے کی صورت میں قربان کیا جانے کا سامان۔

جاگیر دار کے بیٹے اور اس کے غنڈوں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار جوان بیٹی کی ماں کے آنسو لہو بن انسانیت کی گلی سڑی بدبودار میت پر ٹپک رہے ہیں اور ان قوانین پر لعنت بھیج رہے ہیں جو کبھی مظلوم کے حق میں فیصلہ نہیں کر سکتے۔ کبھی ظالم کو آئینہ نہیں دکھا سکتے۔ اس کو کٹہرے میں نہیں لا سکتے۔ اور نہ کبھی اس کو گناہوں کی سزا دے سکتے ہیں۔ یہ سکھاتے ہیں تو صبر روندے ہوؤں کو، چپ کی پٹی باندھ دیتے ہیں زیادتی زدہ کے ہونٹوں پر تا کہ ظالموں کی گدی چلتی رہے، عالی شان کاروبار چلتا رہے اور ان کی تکریم کو ٹھیس نہ پہنچے۔

کاری ہونے والی لڑکی کی آخری سانسیں انسانیت کے کلیجے سے روح کو کھینچ رہی ہیں۔ اور اس کے آنسو لاوے کی مانند سب کی عقل پر گر رہے ہیں اور اس کی راکھ کو چنگاری دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی گھٹی چیخیں قانون کے ایوانوں میں گونجنا چاہتی ہیں لیکن ان کو سننے کے لیے سب بہرے ہو چکے ہیں۔ ان کو سنائی دیتا ہے نہ دکھائی۔

میری نظر کی وسعت تک ایک بستی ہے افلاس کی گندگی میں ڈوبے مخملی جسم ہیں، تار تار پردوں کے پیچھے سے چیتھڑوں میں ڈھکی با پردا عورتیں ہیں جن کی خاموشی کائنات کے شور و غوغا پر بھی حاوی ہے اور چیخ چیخ کر اپنی حالت زار بتا رہی ہے اور سوال کر رہی ہے کہ ان کا کیا گناہ کیا قصور؟ کیا وہ بنی نوع انسان کے اس کنبے کا فرد نہیں جہاں فراوانی ہے اشیاء خورد و نوش کی جہاں فراوانی ہے برکتوں کی جہاں ساری رحمتیں سمٹ آئی ہیں کیا ان کا رمضان نہیں آیا گھر؟

کیا خدا کے مہینے بھی بھاری جیب اور لدے ہوئے پکے مکان دیکھ کر آتے ہیں؟ کیا اس انسانیت پر ان کا کوئی حق نہیں؟ کہ وہ بھی حق سے کہہ سکیں کہ کوئی تو آؤ اور ہماری مفلسی کی میلی چادر کو صاف کر دو۔ لیکن افسوس! معصوم چہروں کی تشنہ آنکھیں، اداسی اور یاس کے سمندروں سے پر ہیں۔ لیکن کوئی سکہ نہیں آتا وہاں جو ان کے درد کے سمندر پے چرخا لگا کہ اس کو خالی کر سکے اور اس میں خوشی کی سیپیاں اور ہنسی کے موتی بھر سکے۔

کیچڑ اور مٹی میں لتھڑے ننھے ہاتھ میرے ہاتھوں کو تاڑتے ہیں کہ شاید انسانیت کے دیس سے کوئی کھلونا آیا ہو۔ شاید وہاں کے انسانوں کو بھی علم ہو کہ اس بستی میں بھی معصومیت کھیل سکتی ہے چہک سکتی ہے۔ لیکن ناداں کہاں سمجھتے ہیں کہ خوشیوں کے میلوں سے کون بھٹکتا ہے غم کی تلاش میں غم کو مٹانے کی تلاش میں۔ اتنا بڑا ظرف انسانوں کی بستی میں کہاں پنپتا ہے؟ ان کو کیا معلوم کہ رمضان تو سکون کا مہینہ ہے آرام اور خوشی کا مہینہ ہے۔ اس میں کوئی بنی نوع گھر سے کیوں نکلے گا؟

رمضان یہ سب دیکھتا ہے مگر بڑا بے حس لگتا ہے نہ کچھ بولتا ہے نہ کچھ کر پاتا ہے۔ یہ کاری کی جانے والی عورت کی آخری چیخ سے دنیا کیوں نہیں الٹ دیتا یہ اس عورت کی طرف اٹھنے والے اجلی ہاتھوں کو ہمیشہ کے لیے مفلوج کیوں نہیں کر دیتا؟ رمضان دیکھ رہا ہے اور اپنی ڈائری میں محفوظ بھی کر رہا ہے۔ اس کے ہر ورق پر خون میں نہائے آنسو ہیں اور درد ہے۔ مگر یہ تو انسانیت کا کچھ نہیں بگاڑ سکا نہ سوچ بدل سکا نہ منفی رویے۔

لیکن امید ہے کہ شاید یہ ایک ایسے وقت کا انتظار کر رہا ہے جب انسانیت مظالم سے تھک کر گر جائے گی اور اس دن یہ رمضان ان سب کو گردن سے پکڑ کر کھڑا کرے اور بولے کہ اب! حساب ہو گا! سوال ہو گا! جواب ہو گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments