کورونا وائرس، سازشی تھیوریاں اور ہمارے ایمان پر حملہ


جب سے کورونا وائرس دنیا پر حملہ آور ہوا ہے، اس سے متعلقہ سازشی تھیوریاں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہا گیا کہ یہ وائرس ووہان شہر میں انسٹیٹیوٹ آف وائرالوجی میں تیار کیا گیا ہے۔ جیسے جیسے اس حوالے سے مزید حقائق سامنے آتے جا رہے ہیں ویسے ویسے اس مفروضے کی نفی ہوتی جا رہی ہے۔ فرانس میں پائے جانے والے وائرس کے بارے میں یہاں تک تسلیم کر لیا گیا ہے کہ فرانس میں موجود کورونا وائرس باہر کہیں سے نہیں آیا، یہ مقامی طور پر پیدا ہوا بلکہ اب تو یہ بھی شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید کورونا کی ابتدا فرانس میں ہی ہوئی ہو۔

دوسرا مفروضہ اس حوالے سے یہ سامنے آیا کہ اس وائرس کو چین اور دنیا کی آبادی کم کرنے کے لیے پھیلایا گیا۔ یہ مفروضہ اس لیے درخور اعتنا نہیں کہ اس سے اموات کی شرح 3 تا 7 فیصد ہے۔ چین میں کم و بیش 83 ہزار لوگ متاثر ہوئے ان میں سے صرف ساڑھے چار ہزار لقمۂ اجل بنے جبکہ چین کی آبادی سوا ارب سے بھی زیادہ ہے، اسی طرح پاکستان میں متاثرین کی تعداد تادم تحریر 46 ہزار ہے جبکہ اموات 985، یعنی پاکستان میں شرح اموات 2 فیصد ہے، لہٰذا اس وائرس سے دنیا کی معیشت تو تباہ ہو سکتی ہے لیکن آبادی کم کرنے کی دلیل کوئی وزن نہیں رکھتی۔

ایک اور مفروضہ جو بہت سے حلقوں میں مقبول رہا وہ یہ کہ یہ ایک بایو لوجیکل (حیاتیاتی) ہتھیار ہے جو امریکا نے چین پر استعمال کیا اور یہ وائرس چین میں امریکی فوجیوں کے ذریعے پہنچا جو مشترکہ مشقوں کے لیے چین کے صوبے ووہان گئے تھے۔ اس الزام کو پہلے چینی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ٹویٹ کیا پھر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیان میں دہرایا، نیز یہ کہا کہ اگر اس مفروضے پر یقین کریں تو امریکا کی بنی ویکسین پر کون یقین کرے گا۔

یہ مفروضہ یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ بعض امریکی یہ تھیوری آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین کو جب پتا چلا کہ امریکا نے وائرس حملہ کیا ہے تو چین نے وائرس کی حیاتیات کو بدل دیا اور امریکا میں پھیلا دیا تاکہ اگر امریکا کے پاس اگر ویکسین ہو بھی تو وہ کچھ کام نہ آ سکے اور زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہو اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کورونا وائرس سے امریکا میں دنیا میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔

حیرانی تب ہوتی ہے جب دوسری جانب یہی سازشی مفروضے گھڑنے والے امریکا میں ہونے والی ہلاکتوں کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں اور ”رازدارانہ“ انداز میں بتاتے ہیں کہ امریکا میں کوئی اموات نہیں ہو رہیں، نہ ہی کوئی کوئی ڈیڈ باڈی دکھائی گئی ہے یہ صرف نمبرز گیم ہے جسے جتنا چاہو بڑھا لو۔ حالانکہ جن افراد کے بھی عزیز و اقارب امریکا میں مقیم ہیں وہ حقیقت معلوم کر سکتے ہیں کہ کیا واقعی امریکا میں کوئی ہلاکت نہیں ہو رہی اور کیا یہ سب ڈرامے بازی ہے۔ میرے اپنے دائرہ احباب میں جن کے رشتہ دار امریکا میں مقیم ہیں، ان میں سے ہر کسی کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار کورونا کا شکار ہو چکا ہے جبکہ کئی ایک کی تو ہلاکت بھی ہو چکی ہے۔

پھر کورونا کے حوالے سے ایک دور کی کوڑی یہ ہے کہ کورونا وائرس چمگادڑوں، چوہوں اور حرام جانوروں سے پھیلا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ جانور صرف چین میں ہی کھائے جاتے ہیں؟ کوریا سمیت کئی ملکوں میں یہ پرندے، جانور کھائے جاتے ہیں۔ دوم، کیا چین نے ایسے ”حرام“ جانوروں کا استعمال حالیہ عرصے میں شروع کیا ہے؟ چین میں تو دہائیوں بلکہ صدیوں سے یہ جانور خوراک کا حصہ ہیں تو پہلے ”حرام“ کھانے سے کوئی وائرس کیوں نہیں پھیلا۔ پھر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر ”حرام“ ہی معیار ہے تو یہ وائرس صرف حرام جانوروں سے ہی کیوں پھیلتے ہیں، ناجائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی کی ”حرام خوری“ سے ایسے وائرس کیوں نہیں پھیلتے؟

ایک سازشی تھیوری جو برطانیہ سے شروع ہوئی اور وہیں اس کا سب سے زیادہ اثر دیکھا گیا وہ یہ کہ کورونا کا پھیلاؤ 5 G ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔ پہلے سے منطق تراشی گئی کہ کورونا انہی علاقوں میں پھیلا جہاں 5 Gٹاورز لگائے گئے تھے، یہ وائرس دراصل ریڈی ایشن کا نتیجہ ہے۔ اس کا سائنسدان بڑا تسلی بخش جواب دے چکے ہیں کہ فائیو جی ٹاورز کی جتنی ریڈی ایشن ہے اس سے زیادہ ریڈی ایشن گھریلو مائیکرو ویو اوون کی ہے۔ اس سے کوئی ری ایکشن کیوں نہیں ہوتا۔ پھر یہ کہا گیا کہ دنیا میں لاک ڈاؤن اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ فائیو جی کا تجربہ کیا جا سکے۔ اس بات میں بھی کوئی حقیقت نظر نہیں آتی۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ایسے وائرس اس لیے پھیلائے جاتے ہیں تاکہ ان کی ویکسین دھڑا دھڑ بک سکے۔ ممکن ہے کہ بات حقیقت ہو، مگر نہ اس کی تصدیق کے لیے کوئی دستاویزی ثبوت ہیں اور نہ یک جنبش قلم اس کی تردید کی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر دیکھا جائے تو پولیو کی ویکسین پاکستان جیسے ملکوں کو مفت فراہم کی جاتی ہے مگر اس ”مفت کے مال“ پر بھی لوگوں کے تحفظات اسی طرح بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہیں۔

ان سب سازشی تھیوریوں کے رد ہو جانے کے بعد آج کل جو مفروضہ سب سے زیادہ گردش کر رہا ہے وہ یہ کہ بل گیٹس کی فاؤنڈیشن اس وائرس کی ویکسی نیشن بنا رہی ہے جس میں ایک ایسی مائیکرو چپ ہو گی جو ہر بندے کے جسم میں انسٹال ہوگی کیونکہ اس ویکسی نیشن کو لازمی قرار دیدیا جائے گا، یہ چپ انسانوں کو کنٹرول کرے گی اور یوں بل گیٹس پوری دنیا کا ڈیٹا اپنے قابو میں کر لے گا۔ اس چپ سے انسان کے وہ جینز جن کی بدولت وہ خدا پر یقین رکھتا ہے، کو تبدیل کرنے میں مدد ملے گی اور آہستہ آہستہ یہ ”دجالی نظام“ اس قدر حاوی ہو جائے گا کہ انسان خدا کا ہی منکر ہو جائے گا۔

اس چپ کا دوسرا مقصد دنیا کی آبادی کنٹرول میں کرنا ہو گا۔ اس چپ سے خواتین میں بچہ پیدا کرنے والے ہارمونز کو کنٹرول کیا جائے گا اور ان میں بانجھ پن کو بڑھایا جائے گا۔ اپنی اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے بل گیٹس کی کچھ تقریروں اور بیانات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مثلاً 2015 ء میں TEDکے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں بل گیٹس نے اپنی تقریر میں دنیا کو وارننگ دی تھی کہ ایک ایسا ہلاکت خیز وائرس آنے والا ہے جو دنیا بھر میں کسی جنگ سے بھی زیادہ تباہی مچائے گا ”۔ اپنی تقریر میں بل گیٹس نے کہا کہ دنیا کو نیوکلیئر حملے سے نہیں بلکہ“ اس ”سے زیادہ خطرہ ہے۔“ اس ”پر جو تصویر بل گیٹس نے دکھائی تھی وہ ہوبہو کورونا وائرس ہے۔ اب کیا یہ سب اتفاقات ہیں۔ ۔ ۔ اسی طرح 2010 ء میں ایک کانفرنس میں بل گیٹس نے کہا تھا کہ دنیا کی آبادی کو 15 سے 20 فیصد تک کم کیا جانا چاہیے۔

اسی حوالے سے 2005 ء کی ایک وڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں یہ پریزنٹیشن دی جا رہی ہے کہ کس طرح انسان کے ان جینز میں تبدیلی کی جا سکتی ہے جن سے وہ مذہب سے شدید لگاؤ رکھتا ہے۔ ممکن ہے کہ دونوں باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہوں مگر اس کے باوجود میں انہیں جھوٹ، فریب اور دھوکے کا سامان سمجھتا ہوں۔ یہ میرے نزدیک خدا پر کمزور ایمان کا شاخسانہ ہے۔ ایک مسلمان کا تو ایمان ہے کہ ”جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو پیدا ہونے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی“ ۔ پھر بھلا بل گیٹس تمام انسانوں کے اندر بھی چپ داخل کر دے تو بھی کچھ نہیں ہونے والا مگر جو اللہ نے لکھ رکھا ہے۔

فرعون اگر تمام بچوں کو قتل کرا دے تو بھی وہ موسیٰؑ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ سیدنا موسیٰؑ فرعون کے محل میں، اس کی آنکھوں کے سامنے ہی پرورش پاتے ہیں۔ نہ ہی نمرود کی آگ سیدنا ابراہیمؑ کا بال بیکا کر سکتی ہے، نہ ہی چھڑی سیدنا اسماعیلؑ کا گلا کاٹ سکتی ہے، نہ ہی یہود کی سازشوں سے سیدنا مسیح ابن مریمؑ کو مصلوب کیا جا سکا۔ مقابل اگر نہتے کے سامنے تلوار بھی لیے کھڑا ہو تو وہی ضرر پہنچا سکتا جو لکھ کر کاتب کا قلم سوکھ چکا۔

تلوار نہیں انسان کا مقدر اس کی موت و حیات کا فیصلہ کرتا۔ اگر موت کا وقت مقرر نہ ہو تو کوئی بھی ذرہ برابر بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ ایسی ہزار ہا مثالیں موجود ہیں کہ جہاں بم دھماکے، حادثات حتیٰ کہ جاپان پر ہونے والے ایٹمی حملوں میں کئی معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔ سورۃ یونس کی آیت 107 ہم پڑھتے تو ہیں مگر شاید عملی زندگی میں اس پر ایمان نہیں رکھتے۔

”اگر خدا تم کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تم سے بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں“ ۔

اس طرح کی تھیوریز پولیو کی ویکسین کے بارے میں بھی بیان کی جاتی ہیں، بلکہ ایک جگہ جب یہ پڑھنے کو ملا کہ پولیو کی ویکسین سے انسان میں موجود ”غیرت“ کے جراثیم کو کنٹرول بلکہ ختم کیا جا رہا ہے تو ہنسی نکل گئی۔ سادگی مسلم کی دیکھ کہ لوگ اس پر اعتبار بھی کرتے ہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث 24 دلالت ہی اس بات پر کرتی ہے کہ حیا کا تعلق ایمان سے ہے۔ پولیو کیا، بے غیرتی و بے حیائی کی ویکسین بھی بن جائے تو وہ بھی کچھ بگاڑنے والی نہیں کیونکہ حیا و غیرت کا تعلق ایمان سے ہے اور ایمان کا ہدایت سے اور ہدایت خالص اللہ کی جانب سے ہے۔ وہ چاہے تو پیغمبر زادوں کو طوفان میں غرق کر دے، چاہے تو صنم خانے کے پروردہ کو کعبے کا پاسبان بنا دے، یہ تو خالصتاً اس کا اختیار ہے کہ کسے ہدایت دینی ہے اور کسے گمراہ کرنا ہے۔

ان سازشی تھیوریوں کو آگے پھیلا کر کیا ہم یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ خدا تو ہمارے لیے آسانی کرنا چاہتا ہے مگر بل گیٹس اس آسانی کو تنگی میں تبدیل کر رہا ہے۔ خدا تو مسلمانوں کی آبادی کو بڑھانا چاہتا ہے مگر بل گیٹس اسے گھٹا رہا ہے۔ خدا نے تو انسان کو عقل سلیم کے ساتھ پیدا کیا جو اسے اس کے خالق کی پہچان عطا کرتی ہے مگر بل گیٹس تو عقل سلیم کو اس خوبی سے ہی محروم کر دے گا جو خدا کی پہچان کرائے۔ خدارا! ایسی باتیں پھیلانے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ آخر ہم کہنا کیا چاہتے ہیں۔

سورۃ فاطر میں اللہ نے فرمایا ”خدا جو اپنی رحمت (کا دروازہ) کھول دے تو کوئی اس کو بند کرنے والا نہیں۔ اور جو بند کر دے تو اس کے بعد کوئی اس کو کھولنے والا نہیں“ ۔ (آیت 2 )

انسان کو پہنچنے والی ہر تکلیف، ہر کشادگی، ہر تنگی، ہر آسانی، ہر آزمائش، ہر آسائش خدائے ذوالجلال کی طرف سے ہے۔ بل گیٹس یا اس جیسے تمام افراد اگر اکٹھے ہو جائیں تو بھی کسی کو ایک تنکے کے برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنا، اپنی مرضی کے مطابق جینز میں تبدیلی کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ انسان تو آج تک اپنے ہاتھ سے بنائی گئی مشینوں کے بارے میں پورے وثوق سے نہیں بتا سکتا کہ وہ کب تک ٹھیک چلیں گی، کوئی خرابی ان میں پیدا نہ ہو گی کجا یہ کہ کسی انسان کی تخلیق کو اپنی مرضی کا رخ دیتا پھرے، جس کا خالق کوئی انسان نہیں بلکہ خالق کائنات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments