ہیلن کیلر کا درد اور ہمارا معاشرہ


مارک ٹوین نے ایک بار کہا تھا ”انیسویں صدی کی دو سب سے دلچسپ ترین شخصیات نپولین اور ہیلن کیلر ہیں“ ۔ اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کہ ہیلن کیلر اس صدی کی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ پیدائشی طور پر نارمل تھیں مگر انہیں ایک بیماری نے اس طرح پچھاڑا کہ صرف انیس ماہ کی عمر میں بہری، گونگی اور اندھی بنا دیا۔ ہیلن کیلر بالکل نابینا تھیں مگراس کے باوجود انہوں نے اتنی کتابیں پڑھ لیں جتنی بہت سارے آنکھوں والوں نے نہ پڑھی ہوں وہ بہری ہونے کے باوجود ان لوگوں سے زیادہ موسیقی سے لطف اندوز ہوتی جن کے کان بھلے چنگے تھے۔

بے شمار کتابوں کی مصنف تھیں نیز اپنی زندگی پر فلم بھی بنائی جس میں خود اداکاری بھی کی۔ ہیلن کیلر اپنی معذوری کے بارے میں کہتی تھیں ”مجھے اندھا ہونے کا اتنا رنج نہیں جتنا بہری ہونے کا قلق ہے۔ اس تاریکی اور خاموشی میں جو دنیا اور اس کے درمیان دیوار کی طرح حائل ہے، وہ جس چیز کے لیے سب سے زیادہ ترستی ہے وہ انسانی آواز کا ہمدردانہ لب و لہجہ ہے“ ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کتنی بھی مشکل میں ہو، جتنی بھی تکلیف سے گزر رہا ہو، بے شک ہمت جواب دے چکی ہو اور حوصلے ٹوٹ چکے ہوں تب دو بول محبت اور ہمدردی کے اس کو پھر سے باہمت کر دیتے ہیں اور منزل کو آسان بنا دیتے ہیں۔

آج ہمارے معاشرے میں ہر شخص پیار، محبت، اخلاص، بھائی چارے اور ا چھے اخلاق کا متلاشی ہے جبکہ ہر دوسرا شخص دنیا کی جیت کا ارادہ لیے سب کو پچھاڑ کر آ گے بڑھنے کی دوڑ میں شامل نظر آتا ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ مادیت پرستی کے اس دور کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہم نے دین کی اعلیٰ تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ دوسری بد بختی یہ ہے کہ دین اور ذاتی زندگی کو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا۔ تیسرا بڑا سانحہ یہ ہوا کہ صدیوں کی غلامی نے اس علاقے کے افراد کی ذہنی بلوغت ہی نہیں ہونے دی۔

فکری اور اخلاقی تربیت ناپید تھی لہذا صرف غلام ابن غلام ہی جنم لیتے رہے اور ذہنی غلامی کی بدترین حالت میں افراد کا یہ گروہ پنپنے لگا۔ شخصی بت پرستی کی لعنت کو اس خطے کے افراد کے جینز میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈال دیا گیا تاکہ حکمران طبقے کی بقا اور خوشحالی برقرار رہے اور اس عمل کا مقصود صرف غلاموں کی فوج کو تیار کرنا تھا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد سے ہمارے حکمران طبقے نے بھی ماضی کی جاری گندی روایات کو اپنے لیے فائدہ مند جانا اور عوام کو بے سمت ہی چلنے دیا۔

آج آپ اپنے اردگرد دیکھیں اگرچہ کورونا کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے مگر ذخیرہ اندوزی جاری ہے، موت سامنے ناچ رہی ہے مگر ادویات کی قیمت بڑھا دی گئی ہے، حکومت نے ذرائع آمدورفت محدود پر پابندی لگائی تو کرائے بڑھا دیے گئے، بلکتے اور سسکتے لوگوں کو امداد کے بہانے لوٹا جانے لگا۔ سوال یہ ہے کہ کہاں گئی انسانیت اور کہاں گئے اچھے آدرش؟ کہاں گیا اسلام اور کہاں گئیں اسلامی تعلیمات؟ کیا ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے انسان اور ان پڑھ انسان کے عمل اور شعور میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟

نہیں ہرگز نہیں، سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش میں ہیں، سب اس افراتفری میں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایسے موقعہ پر جب غریب کے پاس خوشی کے لمحے بھی کم ہو گئے ہیں اور مزدور کا گھر اناج سے محروم ہے، انسانیت کا درس دینے والے، ہر سال حج و عمرہ کرنے والے، سالانہ لاکھوں روپے زکٰوۃ دینے والے، محافل سماع کا انعقاد کروانے والے، نام نہاد مفکر اور پڑھے لکھے افراد صرف اپنی دکان داری چمکا رہے ہیں اور افسوس ان کی سوچ اپنی ذات سے آگے نہیں دیکھ رہی۔

یاد رکھیں! ناموس رسالت کے خالی نعرے لگانے سے معاملہ حل نہیں ہو گا اور نہ اللہ اور اس کے پاک نبی راضی ہوں گے بلکہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو اور فرائض کی مکمل ادائیگی پر دنیا اور آخرت میں کامیابی کے دروازے کھلیں گے۔ آج سب حکومتی اہل کاروں اور اہل ثروت افراد کا فرض ہے کہ وہ اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کی ضروریات کا خیال کریں۔ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئیں کیونکہ ان لوگوں میں بے شمار ایسے ہوں گے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار ایسی صورتحال دیکھی ہوگی۔  وہ سامنے آتے بھی ہوں گے اور شرماتے بھی ہو ں گے ۔ ان کو آپ کے چند محبت بھرے بول اس احساس شرمندگی سے بچا سکتے ہیں جس کا سبب موجودہ مالی پریشان ہے۔

آئیے ہم سب عہد کریں کہ رمضان کے مبارک مہینہ میں ہم رحمت خداوندی سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے اور اپنے نبی پاک ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیراء ہو کر دکھی انسانیت کے درد کا مداوا بنیں گے۔ عید قریب ہے اور بے شمار لوگ اپنے بچوں کی خواہشات کے آگے بے بس ہیں کیونکہ بچے تو آخر بچے ہیں۔ یاد رکھیں! ایسا موقعہ بار بار نہیں ملتا۔ رحمت الہٰی جوش میں ہے اور رب کائنات مانگنے والوں کو عطا کر رہا ہے اس رحمتوں کی لوٹ سیل سے مستفید ہوں پھر نہ کہنا کہ ہمیں خبر نہ ہوئی۔ اللہ پاک ہماری مشکلات آسان فرمائے اور تنگ دستی اور فقر سے بچائے، آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments