کورونا اور دوا پاکستان میں، دارو دہلی میں


کمبخت کورونا کی وبا کیا آئی۔ ہندوستان پاکستان دونوں ممالک میں پرانے کشکول گدائی جگمگا اٹھے۔ مانو، بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اب یہ آج کل کے بچے کیا جانیں کہ چھینکا کیا ہوتا ہے؟ ان مظلومین کو تو ڈبے کے دودھ کی بوتل بھی فرج سے نکال کردی جاتی رہی ہے۔

چھینکا فرج سے پہلے کے زمانے میں کھانے کی ٹوکری ہوتی تھی۔ گھر میں کھانا تھوڑا اور لذیذ بنا کرتا تھا۔ بچ جاتا تو اسے کھلی ہوا میں ٹوکری میں لٹکا دیا جاتا۔ بلیوں کی دسترس سے دور مگر کبھی ایسا بھی ہوتا کہ چھیکے کی رسی ٹوٹ جاتی۔ ایسا ہوتا تو بلیوں کی بھی حکومت کے مشیروں کی طرح موج لگ جاتی تھی۔

اسپانسرز کشکول گدائی کی لہر دہلی سے اٹھی۔ مودی نے اپنے گجراتی سیٹھوں کو کہا
رکھے رام تجھ کو
”، تجھ کو اللہ رکھے
دے کورونا کے نام تجھ کو اللہ رکھے
پاکستان میں بھی چندہ جمع کر ہونے لگا۔ گاؤں سجنے لگا۔
مشیر منسٹر کورونا کا سوچ سوچ گانے لگے ہمرا کنور آیا، راجیشور آیا۔

پاکستان ہے۔ سب چل جاتا ہے ورنہ اپنے بنائے ہوئے کسی ادارے کے لیے سرکاری عہدے دار کا چندہ مانگنا، مہذب دنیا میں Conflict of Interest مانا جاتا ہے۔ یہاں تو پرانے ساتھی جاوید میاں داد نے ایسی رنگ میں بھنگ ڈالی بس امیر مقام کو بھیکو ماترے (فلم ستیا کا ہیرو) نہیں کہا۔ پرانے دوست کے منھ سے یہ گھٹیا کلمات سنے تو صاحب کی طبیعت ہی مکدر ہوگئی۔ وہ ۔۔۔ دی سری کہہ کر ایک طرف ہو گئے۔

ان کی اس شان بے نیازی کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے گھس بیٹھیے ساتھیوں نے آٹے چینی میں وہ دے مار ساڑھے چار کی کہ اللہ کی پناہ۔ ناجائز منافع کی رقم کی بھرمار سے ہیڈ کانسٹیبل کی پتلون کی جیب، آئی جی کی پتلون کی جیب بن گئی۔ کپتان خود کرپٹ نہیں لہذا ان کو جب آدم بو آئی تو اپنے ہی ایک قریبی ساتھی جو انہیں پلکوں اور جہاز پر لیے قریہ قریہ پھرتے تھے ان کو ایف آئی کے خون آشام دیو کے سامنے بلیدان کر دیا۔ سیاست کی بوجھل فضا میں یہ ہوا باز ساتھی، دغا باز کہلائے۔ محفل دل فگار میں ان کی مزاج پرسی کو جو جاتا اسے آنسو بھری آنکھ سے بنی گالہ کی طرف منھ کر کے ادا جعفری کا شعر پڑھتے تھے کہ

ہات کانٹوں سے کر لیے زخمی
پھول بالوں میں ایک لگانے کو

دنیا میں سب ہی ایسے کالی بطخ والے ایونٹس میں مال بنانے کی سوچتے ہیں۔ ہمارے والے کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ گئے۔ مشیران کی اتنی بڑی تعداد ان دنوں کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتی ہے کہ کچھ منتخب ممبران کا کہنا ہوتا ہے کہ کپتان جی اچھا ہے یہ اجلاس آپ قذافی اسٹیڈیم کی پچ پر چاندنی بچھا کر، گاؤ تکیے اور عطر دان، سترا وادن کی سنگت میں کر لیا کریں۔ منتخب ممبران کا خیال ہے کہ اکثر مشیروں کو تو ان کی بیویاں بھی نہیں پہچانتیں، وزیر اعظم کیا پہچانیں گے۔

ایسے میں آخری تنکا یہ بنا کہ سابق فوجی اور حاضر مولوی بھی اجلاس میں آنے لگے۔ منتخب ممبر کہنے لگے اب نہ ہم جنرل صاحب کی وجہ سے دنیا کے معاملات پر لب کشائی کر سکتے ہیں نہ فخر میاں چنوں کی وجہ سے ہماری نگاہ سے وہ موت کا منظر اوجھل ہو پاتا ہے۔ حلقے میں ہو سوال تو ہم کیا جواب دیں۔ مشکل ہو عرض حال تو ہم کیا جواب دیں۔ تم کو نہ ہو خیال تو ہم کیا جواب دیں۔

ان ہی درآمد شدہ مشیروں میں ایک پر الزام لگا کہ کورونا کے نام پر پہلے ملک میں موجود ماسک، سستے باہر بیچے اور بعد میں ان ہی ماسکس کو مہنگی قیمت میں منگوا لیا۔ بے طلب بوسوں کی یہ خو انہیں سوداگران آٹا چینی کی صحبت میں پڑی تھی۔ مشیر بھی خربوزے ہوتے ہیں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہی رنگ پکڑتے ہیں۔ اسی دوران کہیں سے رپورٹ ملی کہ وزارت صحت نے اس سرزمین کرپشن میں یہ فصل بھی کاشت کی ہے کہ زراعت تخیل حیران ہے۔ جان بچانے والی ادویات کی رو رعایت سے انہوں نے مردانہ طاقت کی دوائیں بھی بھارت سے منگوا لی ہیں۔

قریبی حلقوں کا خیال تھا کہ سوشل آئیسولیشن کا زمانہ ہے۔ خلافت عثمانیہ کے ڈرامے دیکھنے کی وجہ سے حرم، درون خانہ آباد ہوں گے۔ ڈرامہ ارطغرل کی وجہ سے نسوار گٹکے کھانے والے مرد بھی حرم کے پروٹوکول سے آشنا ہو چلے ہیں۔ خود اسرا بلگچ المعروف بہ حلیمہ سلطان کو دیکھ کر بہت سے پاکستانی مردوں کو علامہ اقبال کے اس مصرعے کی از سر نو سمجھ آ گئی ہے کہ۔۔۔ آسماں ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک۔

کسی نے وزارت صحت کے واقفان حال سے سن گن لی کہ یہ مردانہ ادویات، کورونا اور جان بچانے والے رموز بے خودی کا آپس کا کیا تال میل ہے کہ موذی بھارت سے منگا لیے۔ ارشاد ہوا کہ یہ صحت والے مرزا صاحب بھی بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ وہ جو ساری دنیا میں واحد، ڈھنگ کے مرزا ہوا کرتے تھے یعنی غالب ون نے کہا تھا ناکہ

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

(بھائی جان مجنوں کو پتھر مارنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ نے بھی بڑے ہونا ہے اور عشق کی ناکامی کے بعد مجنوں بننا ہے لہذا سڑک پر گھسیٹنے اور نیب کے چیرمین کی کیا مجال جو مجھ سے کچھ پوچھنے کی ہمت کرنے جیسے بڑبولے پن سے گریز کریں)۔ اسی وجہ سے وزارت صحت والے حضرت نے کثرت وصال اور بے خلل مہلت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ مردانہ طاقت کی دوائیں منگا لیں۔ کھاؤ تے جان بناؤ۔ وزارت صحت میں ٹوہ لینے والا کارندہ می ٹو سے ڈرتا تھا۔ میرا بدن میرا مرضی سے بھی واقف تھا۔ خلیل الرحمان کی اس بات پر مارچ کے مہینے والی ٹرولنگ کی بھی جان کاری رکھتا تھا کہ ”سسری تیرا جسم ہے کیا کوئی تھوکتا نہیں اس پر۔ سرگوشی کے لہجے میں وزارت صحت کے سیکشن افسر سے پوچھ بیٹھا کہ“ سسرے تم لوگوں نے یہ پلنگ توڑ دوائیں بھارت سے امپورٹ کرتے وقت سوچا تک نہیں کہ فریق ثانی کے بھی برابر حقوق ہیں۔ آئین جینڈر کی بنیاد پر کسی سے امتیازی سلوک کا حامی نہیں۔ کہنے لگا ہم نے انہیں صنفی حساس یعنی ( Gender Sensitize) کیا تھا۔ مجھے بہت چاہتے ہیں۔ پاکستانی وزیروں کی طرح سڑیل مزاج اور متکبر نہیں۔ ایک میمن مشیر تو ایسے ہیں کہ گریڈ اٹھارہ کے افسر کا نوٹ فائل پر پسند آ جائے تو اپنی کمپنی کے شیئرز بھی گفٹ دے دیتے ہیں۔

کہنے لگے ”سیکشن افسر صاحب، ہم ڈاکٹر اور عرب کے قدیم شاعر، عورتوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ عورتیں شاہراہ ہیں اور مرد، ان پر گامزن مسافر ہے۔ زندگی کی طویل مسافت میں شاہراہ کا کچھ نہیں بگڑتا بس مسافر تھک جاتا ہے۔ مسافر جو مرد ہے۔

صحت سے معاملات میدان پھلانگ کر سندھ تک آئے تو سپریم کورٹ نے پوچھ لیا کہ ”ابے بھوتنی کی اولادو، یہ سو کروڑ کا راشن کہاں گھٹکا گئے۔ جوڑیا بازار والوں [پاکستان میں ہول سیل کی تجارت کا سب سے بڑا مرکز] کی رپورٹ تھی کہ اس مالیت کا راشن پیک اور تقسیم کرنے کے لیے ایک ہزار پیکنگ گرلز، تین شفٹوں میں، چھ ماہ کی مہلت اور تین ہزار ٹرکس درکار ہوتے ہیں۔ سندھ سرکار کا نمائندہ بولا ”می لارڈ ابھی کیا ہے کہ اللہ کو ایسی خیرات صدقات پسند ہیں کہ سیدھا ہات بانٹے تو الٹے ہات کو خبر نہیں ہونی چاہیے۔

کورونا آیا تو وسیم اکرم پلس کو بھی لگا کہ چینی کی سبسڈی میں ان کا کچھ سامان بھی ایف آئی اے کے پاس پڑا ہے۔ ساون کے کچھ بھیگے بھیگے دن رکھے ہیں اور ان کے اک خط میں لپٹی راکھ پڑی ہے۔ سوچا۔ جب تک وہ لوٹائی جائے۔ کسی نے اماں جی کے نام کا ہسپتال تو پہلے ہی بنا لیا ہے۔ ہمارے ابا جی بھی بہت دل پھینک تھے کیوں نہ امراض قلب کا ایک ہسپتال سرکار کے خرچے سے ان کے نام کا بنا لیں۔ دہلی کی عورتیں کہا کرتی تھیں کہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ۔

چندہ ٹیکس عوام کا۔ نام اماں باوا کا۔ ادارے میں بڑی تنخواہوں والی نوکریاں لوزرز بھائی بہنوئیوں کی۔ عطیے میں ملے تجوری میں رکھے زیورات پر ملی بھگت سے بھائی بہنوں میں تقسیم کر نے کے بعد مظلومیت کا رانڈ رونا کرنے کے لیے کراچی کے مشہور فلاحی ادارے کی طرح ڈکیتی سیٹ اپ کرلو۔ کس نے پوچھنا ہے۔ باپ مرے اور اولاد میں بیل بانٹنے کا وقت آئے تو باپ کی ملکیت میں ادارے کے ہر قسم کے اثاثے بھی شامل کرلو۔ کروڑ کا چندہ دے کر خود بھی بیمار ہو جاؤ۔ نیک عورت کا سہاگ بھی خطرے میں ڈال دو۔

ابھی کیا ہے کہ خود تو ٹھیک سے اسکول نہیں گئے مگر بڑے صاحب سے ڈیمانڈ دیکھو میرے کو یونیورسٹی بنانی ہے۔ حکیم صاحب نے یہ چمت کار جنرل ضیا کے دور میں دکھایا تھا۔ پاکستان میں جس کو دیکھو عوام کے چندے سے سیلف پروجیکشن کرتا پھر رہا ہے۔ فنڈز قائم کر رہا ہے۔ گھاگرے انیتا ڈونگرے کے۔ نام ممی پپا کا۔ پاکستان کا احوال یہ کہہ کر لپیٹ دیتے ہیں کہ

ایک کی جگہ، دو، دو، میاں پھر آ گئے
پیٹ میں گھس کر کلیجہ کھا گئے

دہلی کے مکھیہ منتری۔ اروند کیجری وال کی اچھی باتیں کسی اور دن۔ روح اختصار ملحوظ خاطر ہے کہ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔ ہمدم دیرینہ اور پیکر الفت و تمکنت ہمارے ایڈیٹر وجاہت مسعود کو ہماری طرح منٹو کا معرکتہ الآرا افسانہ ”بو“ بہت پسند ہے۔ اس شاہکار کو ہم موپاساں، سمرسٹ ماہم، چیخوف، ہیمنگوے۔ ایچ۔ ای۔ بیٹس، ایڈنا اوبرائین اور جھمپا لہری کے ہر افسانے سے بڑا افسانہ مانتے ہیں۔ یہ شاہکار، پاکٹ بک کے چھ صفحات میں ختم ہوجاتا ہے۔ افسانہ کیا ہے ایک قطرہ قطرہ بھیگتی، دہکتی، سلگتی شام اور شب سپردگی و دختر فطرت کی کم گو قربت کا احوال ہے جس کے بارے میں انجم اعظمی کا حوالہ دیں تو سواد اور بھی سوا ہوجاتا ہے کہ

وصل کا قصہ مختصر یہ ہے
رات آئی تھی بے حجاب بہت۔
اسی منٹو نے موذیل، صاحب کرامات اور کالی شلوار جیسے پچیس صفحات کے تسلسل واقعات پر مبنی افسانے بھی لکھے۔

کیجری وال کو کسی نے سمجھایا کہ پینے والوں کو پینے کا بہانہ چاہیے۔ کیجری وال ریونیو سروس کے پرانے افسر ہیں ان کی بیگم زکوٹا جن قسم کی افسر ہیں۔ سمجھایا ہوگا کہ

توبہ تیرے میکش جو کریں گے میرے ساقی
تو بندگئی آب و ہوا کون کرے گا

لپک جھپک دہلی کے ایکسائز ایکٹ کی دفعہ 154 کے رول چار میں ترمیم کی اور دارو کی بوتل پرایک دم سے ستر فیصد قیمت بڑھا دی۔ مانو، دارو کی بوتل پر جن چڑھ گیا۔ ہزار روپے کی بوتل سترہ سو کی ہوگئی۔ ڈیڑھ اسٹور سرکار کے ہیں۔ کمال یہ ہوا کہ اس کے باوجود مندروں کے باہر اتنی لمبی لائن نہیں جتنی دارو کی دکان پر ہے۔ دس دن میں دلی سرکار نے ستر کروڑ روپے کمائے۔

انگریزی میں پن (pun ) کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ایک مطلب ایک سے زیادہ۔ ابھی انگریز لوگ شراب اور آتما (روح) دونوں کو اسپرٹ بھی بولتے ہیں۔ ممبئی میں ایک جگہ لکھے لا ہے ”جذباتی مت بنو۔ تدفین اور کریا کرم کے سمے بیس آدمی کی اجازت اس لیے ہے کہ اسپرٹ (آتما) بدن چھوڑ کے چلی گئی ہے۔ رش لگانے کا فائدہ نہیں مانو اگر یہ سپرٹ [آتما] سانس بن کر واپس آ جائے تو سپرٹ کی دکان کے باہر دو ہزار انسان لائن میں لگ سکتے ہیں۔

جو کام خسرو بختیار، جہانگیر ترین نے غریبوں کی چائے سے چینی کم کر کے اسے کڑوی بنا کر کیا۔ وہ ہی کام کیجری وال نے شراب کو سرکار کے فائدے میں مہنگی اور کڑوی کر کے کیا۔ اے ایمان والو، اپنی اولاد کو دیکھو اور سچ بولو جنت پر زیادہ حق پی ٹی آئی کا کہ عام آدمی پارٹی کا۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments