انگلینڈ میں اعضا لازمی عطیہ کرنے کا نیا قانون: ’یہ میرا (دل) ہے لیکن یہ میرا نہیں‘


انگلینڈ میں اعضا کو لازمی طور پر عطیہ کرنے کا نیا قانون، سوائے ان لوگوں کے جو یہ وصیت کریں گے کہ ان کے اعضا نہ لیے جائیں، بدھ سے نافذالعمل ہو گیا ہے اور اس سے ہر برس 700 زندگیاں بچائی جا سکیں گیں۔

اس نئے قانون سے ہر برس 700 زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔

چار ایسے افراد جن کی زندگیوں میں اس پیوند کاری کی وجہ سے تبدیلی آئی ہے، انھوں نے اپنے تجربات ہمیں بتائے ہیں۔

یہ میرا (دل) ہے لیکن یہ میرا نہیں

حنا شرما گزشتہ برس ہسپتال گئی تھیں۔ ان کو خدشہ تھا کہ شاید انھیں سینے میں انفیکشن ہو گئی ہو لیکن وہاں پتہ چلا کہ ان کا دل ختم ہونے کے قریب ہے۔

اس وقت تو صحت مند اور بہتر تھیں لیکن پھر پتہ چلا کہ شاید انھیں ’ڈائیلیٹڈ کارڈیومائیوپیتھی‘ نامی وائرل انفیکشن ہو گیا تھا۔

حنا شرما ایسیکس کے ایک قصبے مےفیلڈ کی رہائشی ہیں۔ انھیں ہسپتال میں کئی مرتبہ داخل ہونا پڑا۔ انھیں انفیکشن کے شدید اثرات سے بچنے کے لیے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بھی رہنا پڑا۔ لیکن وہ اتنا زیادہ بیمار ہو گئیں کہ انھیں احساس ہو گیا کہ انھیں اپنے آپ کو اب از سرِ نو تبدیل کرنا ہو گا۔

جب ان کے کنسلٹنٹ نے انھیں دل کی پیوندکاری کا مشورہ دیا تو 29 برس کی حنا نے کہا کہ ان کی ڈھارس بندھی لیکن اس پیوندکاری کے اپنے مسائل بھی تھے۔ اُنھیں چھ ہفتے تک کسی کے دل کے آنے کا انتظار کرنا پڑا۔

اس دوران دو دل دستیاب تو ہوئے تھے لیکن وہ دونوں ان کے جسم کے لیے مناسب نہیں تھے یعنی وہ ’میچ‘ نہیں کرتے تھے۔ جب تیسرے دل کے دستیاب ہونے کی اطلاع ملی تو کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی، کوئی خاص ہیجان پیدا نہیں ہوا۔

حنا نے کہا: ’ہم اپنے کمرے میں گانے سن رہے تھے اور محظوظ ہو رہے تھے۔‘

مزید پڑھیے:

’میرا بچہ مر گیا لیکن اس نے ایک بچے کو زندگی دی‘

مصنوعی جِلد اب ہر پاکستانی کی پہنچ میں

جس کا دنیا میں کوئی نہیں اس کا ٹرانسپلانٹ کیسے ہوگا؟

حنا کے دلی کی پیوندکاری کے آپریشن میں ساڑھے چار گھنٹے لگے اور وہ اینیستھیزیا کے اثر سے اگلے دن ہوش میں آ گئیں۔

’مجھے یاد ہے کہ میں اپنے بیڈ پر بیٹھی ہو ئی تھی اور میں اس کی آواز سُن رہی تھی، میں سوچ رہی تھی میں اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز سُن رہی ہوں۔ یہ بہت زیادہ آواز تھی لیکن یہ میرے دل کی (دھڑکنے کی) آواز نہیں تھی۔ میرا دماغ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا۔‘

چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی حنا نے اپنے بیڈ سے اٹھنا شروع کر دیا۔

پیوند کاری کے ایک ہفتے کے بعد انھوں نے اپنی بہت پرانی دبی ہوئی خواہش کو پورا کیا اور اپنی بہن کو بھیج کر پیارے سے کتے کا بچا خریدا۔ یہ وہ کتا تھا جو انھوں نے ہسپتال میں قیام کے دوران فیس ٹائم پر دیکھا تھا اور پیوندکاری کے دو ہفتوں کے بعد جب وہ ہسپتال سے فارغ ہوئیں تو یہ کتا ان کے حوالے کردیا گیا۔

’میں کافی عرصے ایک کتے کو پالنے کی خواہش رکھتی تھی مگر میری امی تو صاف کہتی تھیں، نہیں، تم کتا نہیں رکھ سکتی، لیکن میں ہمیشہ کہتی مجھے تو یہ ابھی چاہیے ہے، زندگی یہی ہے۔‘

حنا شرما کہتی ہیں کہ اب مستقبل ذرا ’تیکھا‘ ہے۔ ان کو میڈیسن کے استعمال کے اضافی مسائل (سائیڈ ایفیکٹس) کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اب اس بات کا ہمیشہ خطرہ ہے کہ جو دل لگایا گیا اُسے ان کا جسم کسی بھی وقت مسترد کرسکتا ہے۔

حنا کہتی ہیں جب وہ آپریشن کے بعد صحت مند ہو رہی تھیں تو وہ عطیہ دینے والے شخص کے بارے میں سوچ رہی تھی، وہ پچپن برس کی عورت جس کے اہلِخانہ کو وہ ایک خط لکھیں گی۔

’جس طرح میں نے سوچا تھا زندگی اس سے بہت مختلف ہے لیکن میں اس میں اپنا وقت صرف نہیں کرنا چاہتی ہوں اور جب تک میں صحت مند ہوں میں ایک بھر پور زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔‘

’کچھ لوگ دل کی پیوندکاری کے بعد 35 برس تک بھی زندہ رہے ہیں، اس لیے میں کئی برس زندہ رہ سکتی ہوں۔ ایک جانب یہ خوف پیدا کردیتا ہے لیکن شاید میری زندگی پچھلے برس ہی ختم ہو چکی ہوتی۔۔۔ اس لیے میں زندگی کے ہر لمحے کے لیے شکر ادا کرتی ہوں۔‘

یہ مداق نہیں ہے، یہ اس سے بھی برا ہوسکتا تھا

فیضان کے گردے کی پیوندکاری تین برس کی عمر میں ہوئی تھی اور اب وہ تیسری پیوندکاری کا انتظار کر رہے ہیں۔

فیضان اعوان کو پیدائش کے وقت ہی سے نئے گردے کی ضرورت تھی۔ اس لیے انھیں یاد نہیں کہ تین برس کی عمر میں گردے کی پیوندکاری کی گئی تھی لیکن انھیں اتنا ضرور یاد ہے کہ ان کی زندگی باقی بچوں سے مختلف انداز میں گزری۔

وہ اس دوران کسی سپورٹس میں حصہ نہیں لے سکتے تھے اور جب ان کے ہم عمر سینیما جاتے انھیں ڈائیلاسس کے لیے جانا پڑتا تھا۔ چودہ برس کی عمر میں ان کا دوسرا آپریشن ہوا تھا اور پھر ایک اور گردے کی پیوندکاری ہوئی جو ان کے والد نے عطیے کے طور پر دی تھی۔

برطانوی ادارے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے مطابق پیوندکاری کے ایک گردے کی اوسط عمر دس سے پندرہ برس ہوتی ہے۔

اس لیے اب چونتیس برس کی عمر تک پہنچنے والی فیضان اعوان کو تیسری مرتبہ نئے گردے کی پیوندکاری درکار ہے لیکن وہ اور ان کے اہلِخانہ حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں او جانتے ہیں کہ انھیں کیا توقع رکھنی چاہیے۔

’اس وقت تک ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں سوائے یہ کہ ہم انتظار کریں۔‘

فیضان کہتے ہیں کہ وہ گزشتہ پانچ برس سے گردے کے عطیے کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ اقلیتوں میں اپنے اعضا عطیہ کرنے کا رجحان بہت کم ہے۔

انھیں امید ہے کہ قانون میں تبدیلی سے انھیں گردہ ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے کیونکہ اس سے جنوبی ایشیا کی کمیونیٹیز میں اس موضوع پر زیادہ بات چیت ہو گی اور وہ انسانی اعضا کے عطیات دینا شروع کر سکتے ہیں۔

’کچھ تو اس میں نسلی تعصب ہے۔ میرے دادا اور نانا کی نسل اور ان سے پچھلی نسل نے پاکستان میں کبھی بھی انسانی اعضا کا عطیہ نہیں دیا۔ اس وقت یہی معمول تھا جب وہ ہجرت کر کے یہاں آئے جبکہ یہاں کا نظام کچھ اور تھا۔‘

’اسلام میں کئی ایک ایسی باتیں ہیں جنھیں آپ اعضا کا عطیہ کرنے کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی ایک واضح حکم نہیں ہے کہ ہاں آپ عطیہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔‘

فیضان اعوان اب این ایچ ایس کے انسانی اعضا عطیہ دینے کے لیے بیداری پیدا کرنے کے پیغام کے سفیر ہیں اور لنکاشائر اور ساؤتھ کیمبریا کی کڈنی پیشنٹس ایسوسی ایشن کے رضاکار ہیں جہاں وہ بیمار افراد اور ان کی نگہبانی کرنے والوں کی ڈائیلاسس اور گردوں کی پیوندکاری میں مدد کرتے ہیں۔

فیضان کا کہنا ہے ’لوگوں کو ایک لحاظ سے سکون ملتا ہے کہ یہ کوئی دنیا کا بدترین کام نہیں ہے۔ یہ مذاق نہیں ہیں، یہ اس سے بھی بدتر ہو سکتا تھا۔‘

تبدیلی کیا آئی ہے؟

بدھ سے یہ تصور کیا جائے گا کہ انگلینڈ میں تمام بالغوں نے اپنے مرنے کے بعد اپنے اعضا عطیہ کرنے کی رضا مندی دے دی ہے سوائے ان کے جنھوں نے اس رضا مندی کے عمل سے باقاعدہ استثنیٰ مانگا ہوا ہے یا وہ اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں اعضا عطیہ کرنے والوں سے علحیدہ کر دیا گیا ہے۔

اس نئے قانون کو میکس اینڈ کیئرا کے قانون کا نام دیا گیا ہے، اس قانون کو دو بچوں کا نام دیا گیا ہے۔

نو برس کی کیئرا بال نے چار زندگیاں بچائی تھیں جن میں ایک نو برس ہی کی میکس جانسن بھی شامل تھی۔ کمسنی میں کار حادثے میں موت کے بعد ان کے والد نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ ان کے اعضا عطیے کے طور پر ضرورت مندوں کو دے دیے جائیں۔

این ایچ ایس کے مطابق اندازہ ہے کہ قانون میں اس تبدیلی کے بعد انگلینڈ میں سنہ 2023 تک ہر برس سات سو زندگیاں بچائی جا سکے گیں۔

انسانی اعضا کے عطیے پر کھل کر بات چیت جاری ہے

دو برس قبل لورا بِیٹی کو جس خبر کا کافی عرصے سے انتظار تھا، وہ انھیں سنائی گئی کہ ان کے پھیپھڑوں کی پیوند کاری کی جائے گی۔

اکتیس برس کی لورا کو پیدائیشی طور ’سسٹک فائبروسس‘ کی بیماری تھی، زندگی کو مختصر کردینے والی خاندانی بیماری جس سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

سنہ 2016 میں ان کی سانس پھولنے کی تکلیف میں مزید اضافہ ہو گیا اور ان کی حالت بدتر ہونا شروع ہو گئی، ان کا معائنہ ہوا تاکہ انھیں پیوندکاری کے لیے منتخب کیا جائے۔

یہ جاننے کے بعد کہ انھیں پیوندکاری کی ضرورت ہے لورا بِیٹی نے این ایچ ایس کے ماہرین اور ماہرینِ نفسیات کی ٹیم کے ساتھ اس عمل کے لیے تیار ہونا شروع کردیا۔

„میں شاید تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھی۔ میں نے شاید ہر بات کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا۔ میں بس اپنے آپ میں پریشان ہو رہی تھی۔ اور میں خوف زدہ بھی تھی۔ میرا اس سے پہلے کبھی کوئی آپریشن بھی نہیں ہوا تھا۔‘

’آپ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ اب آپ سوچ لیں کہ جب پیوندکاری کا آپریشن ہو رہا ہو تو آپ کا ہر قسم کا ٹیسٹ ہوتا ہے اور یہ سب کچھ آپ کو مصروف رکھتے ہیں آپ پر مکمل توجہ رکھتے ہیں تاکہ سب چیزیں بہترین ہوں۔‘

’اور اس دوران آپ کے ملے جلے جذبات ہوتے ہیں اور آپ میں ہر دن نئے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔‘

لورا کو اپنے سائز کا لباس ڈھونڈنے میں مشکل پیدا ہوتی تھی، ان کی پسلیاں بیماری کی وجہ سے کچھ زیادہ بڑی تھیں۔

لورا کی بہن راشیل، اس وقت چودہ برس کی تھیں، ان کے ذہن میں ایک نیا خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنا ایک نیا برانڈ شروع کریں۔ اور اب ایک دہائی کے بعد وہ مانچسٹر، اٹلی اور پرتگال کی ٹیموں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

لورا بِیٹی کہتی ہیں ’یہ ایک مضبوط ارادے اور ہمت نہ چھوڑنے کی بات ہے۔ میں اپنے علاج کے کے لیے اور اپنے آپ کو بہتر حالت میں رکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرتی ہوں، اپنے کاروبار کے لیے بھی محنت کرتی ہوں، یہ دونوں ایک ہی طرح کی باتیں ہیں۔‘

’یہ کبھی بھی ہمت نہ ہارنے کی بات اور اس میں زندگی کے جھٹکوں سے نمٹنے کی بات ہے اور یقین پیدا کرنے کی بات ہے کہ آپ ہر آزمائش سے کامیابی کے ساتھ نکل سکتے ہیں۔‘

مانچسٹر سے تعلق رکھنے والی لورا بِیٹی کو امید ہے کہ قانون میں نئی تبدیلی سے انھیں اپنے لیے مناسب (میچنگ) پھیپھڑوں کے ملنے کی امید زیادہ ہو جائے گی۔ لیکن وہ افسوس کے ساتھ تسلیم کرتی ہیں کہ انھیں نئی زندگی تبھی مل سکے گی جب کسی کا کوئی پیارا موت کا شکار ہو گا۔

’یہ اعضا اس وقت آپ کو ملتے ہیں جب کوئی ہلاک ہوجاتا ہے اور اس کہانی کے اس رخ پر بات کرنا خوف زدہ کر دیتا ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اعضا کے زیادہ عطیات دینے کے معاملات پر بات کرنے سے اس پر بحث بھی زیادہ ہو گی۔‘

اس نے زندگی بچائی

دو برس قبل کیتھ اٹسبری کی بیٹی کے دماغ کی شریان پھٹ گئی۔

ان کی بیٹی کو مصنوعی طور وینٹیلیٹر پر زندہ رکھا گیا لیکن مسٹر اٹسبری کو معلوم تھا کہ ان کی بیٹی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ چند گھنٹوں کے بعد انھیں پتہ چلا کہ ان کی بیٹی نے تین مختلف ذرائع سے اپنے اعضا کو اپنے مرنے کے بعد عطیہ کرنے کی وصیت کی ہوئی تھی۔

گریٹر مانچسٹر کے ٹریفرڈ نامی قصبے سے تعلق رکھنے والے کیتھ نے کہا ’ہم نے سوچا کہ اگر پِپّا کی یہی خواہش تھی تو اسی پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔‘

پِپّا کی سنہ 2018 میں موت ہوئی۔ اسکے بعد ان کے پھیپھڑے کا عطیہ وصول کرنے والی تین بچوں کی ماں کی جانب سے ان کے والدین کو خط موصول ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ’دل کو جوش دلانے والا‘ تھا اور ’تکلیف دہ میٹھا‘ بھی۔ اس عطیے سے اس عورت کو نئی زندگی ملی۔

اسٹبری جو اس وقت این ایچ ایس کے عطیات دینے کی حوصلہ افزائی کی مہم کے سفیر ہیں، کہتے ہیں کہ دونوں خاندانوں کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا جس سے ان دونوں کو سکون ملا۔

انھوں نے کہا کہ ان کی بیٹی اس وقت تینتالیس برس کی ہوتیں اور ایک ایسی ماں جو اپنے بچے کے لیے زندہ ہوتی اور لوگوں میں مقبول شخصیت ہوتی، جو ہر شخص کا خیال رکھتی، وہ اتنا زیادہ خیال رکھتی تھی کہ اس نے ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے دوسروں کو بھی اسی کی تربیت دیبے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔

مسٹر اٹسبری کہتے ہیں کہ ’پِپّا کے اعضا ضائع نہیں ہوئے۔ اس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اور ہم سمجھتے ہیں کہ پِپّا کا ایک حصہ اب بھی زندہ ہے اور اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp