چنٹو میرا بچپن ساتھ لے گیا


اسی کی دہائی کے اولین سالوں میں جب پاکستان میں وی سی آر کی آمد ہوئی، ستر کی دہائی کی فلمیں بھی نئی ریلیز فلموں کی طرح دیکھی گئیں۔ وہ میرے بچپن کے دن تھے۔ ہندی فلموں میں امیتابھ بچن کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔ امیتابھ کی اس دور کی فلمیں دیکھیں تو ان کی باڈی لینگویج سے صاف عیاں ہوتا ہے، کہ کوئی ان کے دائیں بائیں دور دور تلک نہیں ہے۔ جیتندر اور راجیش کھنہ اپنی آخری اننگز کھیل رہے تھے، متھن چکرورتی کسی ستارے کی طرح ابھرے، اور ڈوب بھی گئے۔ ونود کھنہ نے دوبارہ اینٹری دی، کمل ہاسن ایک منفرد اداکار کے طور پہ سامنے آئے، اور نوجوانوں میں پسند بھی کیے گئے، لیکن امیتابھ امیتابھ ہی تھے۔ ان چند ناموں میں رشی کپور کا تو کہیں ذکر ہی نہیں۔ حالاں کہ اس بیچ میں ان کی فلم ”پریم روگ“ سپر ہٹ فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں اوپر تلے عرفان خان اور رشی کپور کی موت کی خبریں آئیں۔ مجھے نہ رشی کے لیے کچھ لکھنا تھا، نہ عرفان خان کو یاد کرنا تھا۔ کسی جانے والے کو یاد کرنا برا نہیں، لیکن جنھیں لکھنا ہو وہ لکھ دیتے ہیں۔ میں رشی کو یاد کر رہا ہوں تو اس کی وجہ ہے۔

سچ بات یہ ہے کہ گول مٹول سے رشی کپور جنھیں گھر میں چنٹو کے نام سے پکارا جاتا تھا، نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ فلم ”زمانے کو دکھانا ہے“ سے یہ گانا، ”ہو گا تم سے پیارا کون، ہم کو تم سے ہے، ہے کنچن پیار“ ، میں اتنے دلارے لگتے ہیں، لیکن تب تک میں یہ جان چکا تھا، کہ یہی وہ شخص ہے، جس نے نیتو سنگھ سے شادی کر رکھی ہے۔ یوں تو اسی زمانے میں ٹینا منیم، رتی اگنی ہوتری، پونم ڈھلوں میں سے کسی ایک کی فلم پہ ہاتھ رکھنا ہو، تو کئی بار سوچنا پڑتا تھا، لیکن نیتو سنگھ کی فلم کے لیے کیا سوچنا اور کیوں سوچنا!

رشی کپور نے ”اکبر، امبر، انتھونی“ ، ”کبھی کبھی“ میں امیتابھ بچن کے ساتھ، ”دنیا“ میں دلیپ کمار کے ساتھ کام کیا۔ اب ایسے سورجوں کے سامنے بھلا کون چمک کے دے۔ ”نصیب“ کا ”چل چل میرے بھائی“ اپنے وقت کا مقبول گانا تھا۔ اس میں ایک جگہ ”جس کا بڑا بھائی ہو شرابی، چھوٹا پیا تو ہے کیا خرابی“ یہ بول آتے ہیں۔ میرا ایک جواں سال کزن ان بولوں کو کچھ یوں گاتا تھا، ”جس کے بڑے بھائی کی ہو شادی، چھوٹا بھی کرے تو کیا ہے خرابی“ ۔ ایسی دہائیاں سن سن کے اس کے گھر والوں نے جلد اس کی شادی کر دی۔

فلم ”یارانہ“ کا یہ گانا جس نے سن رکھا ہے، وہ اس کی مدھر دھن کیسے بھول سکتا ہے، ”چھو کر میرے من کو کیا تو نے کیا اشارہ“ ! میں بستہ لیے اسکول کے لیے گھر سے نکل رہا تھا، کہ آل انڈیا ریڈیو سے یہ گیت نشر ہوا۔ میرے بڑھتے قدم وہیں تھم گئے۔ کئی دن تک یہ گانا کہیں ذہن میں بجتا رہا۔ آج بھی ایسا ہوتا ہے۔ اس گیت میں امیتابھ اور نیتو ہیں۔ نیتو تو ہر ہیرو کے ساتھ جچتی تھیں۔ رشی کے ساتھ مجھے کبھی نہیں بھائیں۔

جن دنوں ”یارانہ“ کی شوٹنگ ہو رہی تھی، نیتو سنگھ اور رشی کپور کا عشق جواں تھا۔ دونوں کے گھر والوں کی طرف سے ملنے پر پا بندی تھی۔ یہ بات مشہور ہے، کہ مذکور گیت کی شوٹ جاری تھی، اور نیتو کو رشی سے ملاقات کرنے جانا تھا۔ وہ سیٹ پر بیٹھی رو رہی تھیں۔ امیتابھ بچن کو جب واقعہ معلوم ہوا، تو انھوں نے ڈائریکٹر سے کہا، نیتو کے شاٹس پہلے لے لو، اور اسے جانے دو۔ اس گانے کی وڈیو دیکھیے، تو اندازہ ہو جاتا ہے، اس قصے میں سچائی ہے۔ چند ایک شاٹس کے علاوہ نیتو الگ، اور امیتابھ سولو شاٹس میں دکھائی دیتے ہیں۔

تو مجھے رشی کپور اس لیے بھی پسند نہیں تھے، کہ چلو انھوں نے تو نیتو سنگھ کو پسند کیا، لیکن نیتو نے انھیں کیوں کر پسند کیا۔ پرستار کو یہ شکوہ نیتو سے ہونا چاہیے تھا، پر پرستار تو معصوم ہوتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے، اسے الزام سے بچانے کے لیے جتن بھی کرتا ہے۔

4 ستمبر 1952 ء میں پیدا ہونے والے رشی کپور اکیس سال کی عمر میں پہلی بار فلم ”بوبی“ میں ہیرو کے طور پہ جلوا گر ہوئے۔ ان کے مقابل تھیں قتالۂ عالم ڈمپل کپاڈیا۔ ”بوبی“ آج بھی ہندوستانی سنیما کی یادگار فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس سے پہلے رشی ”میرا نام جوکر“ میں نمودار ہوئے، جب وہ محض اٹھارہ سال کے تھے۔ اس فلم کے ہیرو راج کپور تھے۔ اس میں رشی نے راج کپور کے لڑک پن کا کردار نباہیا۔ اس سے بھی پہلے ”پیار ہوا اقرار ہوا، پیار سے پھر کیوں ‌ ڈرتا ہے دل“ اس گانے میں دو سالہ چنٹو نے فٹ پاتھ پر جاتے ہوئے تین بچوں میں سے ایک بچے کا کردار پہلی ہی ٹیک میں او کے کروایا تھا۔

رشی اپنی سوانح حیات میں ذکر کرتے ہیں، راج کپور نے اپنی اہلیہ یعنی رشی کی والدہ سے بیٹے کو فلم ”میرا نام جوکر“ میں کاسٹ کرنے کی اجازت چاہی، تو والدہ نے مشروط اجازت دے دی۔ تب رشی اپنے کمرے میں جا کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ خود کو اسٹار سمجھتے ہوئے، آٹو گراف دینے کی پریکٹس کی۔ رشی لکھتے ہیں، ”شری 420“ کے گانے ”پیار ہوا اقرار ہوا“ کے سیٹ پر نرگس نے انھیں لالچ دیا کہ وہ ہدایت کار کی ہدایت پر عمل کریں گے، تو انھیں چاکلیٹس دیں گی۔ انھوں نے چاکلیٹس کی لالچ میں پہلی ہی ٹیک او کے دے دی۔

”ساگر“ میں ایک بار پھر ڈمپل کپاڈیا رشی کے مقابل ہوئیں۔ لیکن ”ساگر“ میں کمل ہاسن میلہ لوٹ گئے۔ یہی فلم ”دیوانہ“ میں ہوا، جہاں دیویا بھارتی ان کی ہیروئن ہیں، لیکن ایک نیا اداکار شاہ رخ خان شو لوٹ کر لے جاتا ہے۔ ”ساگر“ ، ”دیوانہ“ ”حنا“ ، ”بول رادھا بول“ ، ”چاندنی“ میرے بچپن اور لڑک پن کی وہ فلمیں ہیں، جن سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ آج کی طرح تھوڑی ہے، دن کو جو دیکھا رات میں بھول گئے۔

2010 ء میں ”دو دونی چار“ نے رشی کپور کو ایک نیا جنم دیا۔ ”اگنی پتھ“ میں روف لالہ کے کردار میں رشی کپور مجھے پہلی بار اچھے لگے۔ اب میں بھی میچور ہو چکا تھا، اور رشی بھی ہیرو کی عمر سے آگے جا چکے تھے۔ میری نظر میں ”روف لالہ“ ہی رشی کپور کا یادگار کردار ہے۔ شاید یہ وہ دور ہے، جب میں نے انھیں معاف کر دیا تھا۔ میں اتنا بڑا ہو گیا تھا، کہ یہ سمجھ سکوں، نیتو سنگھ نے انھیں پسند کیا تو کیا برا کیا!

گزشتہ دنوں اوپر تلے عرفان خان اور رشی کپور کی موت کی خبریں آئیں۔ مجھے نہ رشی کے لیے کچھ لکھنا تھا، نہ عرفان خان کو یاد کرنا تھا۔ کسی جانے والے کو یاد کرنا برا نہیں، لیکن جنھیں لکھنا ہو وہ لکھ دیتے ہیں۔ دونوں کی موت انڈسٹری کا نقصان ہے، لیکن رشی کی موت کی خبر سن کر میں بہت دیر تک اداس رہا۔ یوں لگا جیسے کسی نے میرے بچپن اور لڑک پن کا ساتھی چھین لیا ہو۔ بچپن کے ساتھی سے بچھڑنے کا دکھ تو ہوتا ہے نا۔ مجھے کیا معلوم تھا، کہ جس چنٹو کو میں رتی بھر اہمیت نہیں دیتا تھا، وہ در اصل میرے لیے کتنا اہم رہا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments