شہباز صاحب کی بھینسیں اداس ہو جائیں گی


ساٹھ برس کی عمر پار کرجانے والوں کے دل ودماغ میں کرونا کے موسم میں جو سوالات اٹھ رہے ہیں ان کے بارے میں لکھتے ہوئے ایک شعر یاد آیا تھا۔ اتوار کی صبح اسے لکھ کر دفتر بھجوادیا۔ پیر کے روز چھپا ہوا کالم دیکھا تو اپنا سرپیٹ لیا۔ جس شعر کو روانی میں ناصر کاظمی سے منسوب کیا تھا وہ درحقیقت درویش منش مجید امجد کے بے پناہ تخلیقی ذہن میں آیا تھا۔ وہ شعر تھا:میں روزادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے۔ میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا۔ ”غلطی کے ارتکاب نے شرمساری میں مبتلا کر دیا۔

یہ جان کر مگر بہت طمانیت محسوس ہوئی کہ 30 کے قریب افراد نے میری ٹویٹر ٹائم لائن پر کالم پڑھتے ہی غلطی کی نشاندہی کردی۔ یہ تاثر غلط نظر آیا کہ آج کی نوجوان نسل اردو کے ادبی ورثے میں دلچسپی کھوچکی ہے۔ ٹک ٹاک سے جی بہلاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر یاوہ گوئی میں مصروف رہتی ہے۔

معاشرے کا ایک مخصوص حصہ ہی شعروادب کا دلدادہ ہوتا ہے۔ مجھے تاہم گماں ہوا کہ ان دنوں میری نوجوانی کے ایام کے مقابلے میں ادب میں سنجیدگی سے دلچسپی لینے والوں کی تعداد کا تناسب زیادہ ہے۔

چند جواں سال لوگوں نے یہ گلہ بھی کیا کہ مذکورہ کالم کے ذریعے میں نے مایوسی پھیلانے کی کوشش کی۔ ساٹھ برس کی عمر پار کرجانا جرم نہیں ہے۔ اس کی بابت پریشان ہونے کے بجائے زیادہ عمر والوں کو اپنی ”بصیرت“ اور تجربے پر فخر کرنا چاہیے۔ ہمدردی کے ایسے الفاظ بھی میرے لئے حوصلہ افزا ہی نہیں حیران کن بھی تھے۔ آج سے تقریباً دس برس قبل جب تحریک انصاف کے عروج کا آغاز ہوا تو ”نظام کہنہ“ کے خلاف جنگ لڑتے اس جماعت کے نوجوانوں نے جذبات کی شدت سے مغلوب ہو کر بڑی عمر کے لوگوں کو معاشرے میں پھیلی کرپشن کا شعوری یا لاشعوری حصہ دار ثابت کرنا شروع کر دیا۔

”لفافہ صحافی“ اس ضمن میں خصوصی ہدف تھے۔ انہیں بار ہا متنبہ کیا جاتا رہا کہ عمران خان صاحب کی انقلابی قیادت میں ”نیا پاکستان“ بنایا جائے گا۔ نوجوان نسل کا اس ”پاکستان“ پراجارہ ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد سے قوم کو ”گمراہ“ کرنے والے صحافیوں کے لئے زمین تنگ ہو جائے گی۔ ویسے بھی یوٹیوب دریافت ہوچکا ہے۔ نوجوان اس کے ذریعے لوگوں کو ”سچی خبروں“ سے آگاہ رکھیں گے۔ معلومات کے حصول کے لئے روایتی صحافت سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔

وزیر اعظم صاحب اس سوچ کی پرجوش سرپرستی فرماتے ہیں۔ یوٹیوب پر چھائے Influencers سے ان کی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ یوٹیوب کے ذریعے حق گوئی کو فروغ دینے والوں کے ذاتی چینل ہیں۔ ان چینلوں کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر انہیں بتایا جا رہا ہے کہ ”کپتان“ کسی بدعنوان کو معاف کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں ہوں گے۔ اس حوالے سے جہانگیر ترین جیسے قریبی دوستوں کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔ بس عید گزرجانے دیں۔ اس کے بعد گرفتاریوں کا ایک نیا دورشروع ہوگا۔ کووڈ 19 سے جنگ کی قیادت سنبھالنے کے گماں میں شہباز شریف صاحب اپنے بڑے بھائی کو لندن چھوڑ کر پاکستان لوٹ آئے تھے۔ کرونا کا مقابلہ کرنے کے لئے مگر کسی کو ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔

عمران خان صاحب کے مشیر برائے احتساب جناب شہزاد اکبر صاحب نے بلکہ سراغ یہ لگایا ہے کہ برسوں سے خود کو لاہور کے ایک کامیاب ترین کاروباری خاندان کا فرزند ٹھہراتے شہباز صاحب جب احتساب بیورو میں حاضر ہوتے ہیں تو دودھ کی فروخت کو اپنی آمدنی کا اصل ذریعہ بیان کرتے ہیں۔ ان کی ملکیت میں موجود بھینسوں کی تعداد اگرچہ دس سے زیادہ نہیں ہے۔

شہزاد اکبر صاحب کی گفتگو کو بہت توجہ سے سننے کے بعد میں بھینسوں کے بارے میں تھوڑی تحقیق کو مجبور ہوا۔ پنجاب کی روایتی بھینس اوسطا ایک دن میں 12 سے 13 لیٹر کے درمیان دودھ فراہم کرتی ہے۔ تین سے چار ماہ گزرجانے کے بعد اس کی مقدار میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ بالآخر وہ ”خالی“ ہوجاتی ہے۔ کم از کم دس ماہ تک آپ کو اس کے دوبارہ حاملہ ہوجانے کے بعد بچہ دینے کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ بھینس کوصحت مند اور توانا رکھنے کے لئے اسے چارے کے علاوہ بھوسہ اور کھل ونڈا بھی کھلانا ہوتا ہے۔

اس پر جو خرچ ہوتا ہے اسے نگاہ میں رکھتے ہوئے خالص دودھ کی فروخت سے خاطر خواہ منافع کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ بس گزارہ چلانے کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ آٹھ سے دس بھینسوں کا مالک محض دودھ کی فروخت سے کسی صورت لندن جانے کے لئے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ خرید ہی نہیں سکتا۔ اسی باعث بقول شہزاد اکبر احتساب بیورو والوں کو شہباز صاحب یہ بتارہے ہیں کہ ان کے ذہین وفرمانبردار بیٹے ان کی پرتعیش نظر آتی زندگی کا خرچہ اٹھاتے ہیں۔ یہ تحقیق لہذا لازمی ہے کہ فرزند ان شریف کے ”اصل“ ذرائع آمدنی کیا ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں ان کے کاروبار میں خیرہ کن ترقی کی وجوہات جاننا ہوں گی۔

ریگولر اور سوشل میڈیا کی بدولت شہزاد اکبر کی جانب سے اٹھائے سوالات کی تکرار نے شہباز صاحب اور ان سے رہ نمائی لینے والے، سنجیدہ اور تجربہ کار ”لے گیرہ نماؤں کو پریشان کر رکھا ہے۔ گزشتہ برس کے اکتوبر۔ نومبر میں جبکہ یہ رہ نما سرگوشیوں میں“ ان ہاؤس تبدیلی ”کے خواب دکھارہے تھے۔ عمران حکومت کے بارے میں ان کی وجہ سے“ صبح گیا یا شام گیا ”والی کیفیت نظر آئی۔

ایک اہم اور حساس ترین معاملہ پر قومی اتفاق رائے سے انتہائی عجلت میں پارلیمان سے قانون پاس کروانے میں ”سنجیدہ اور تجربہ کار“ لے گیرہ نماؤں نے جس ذمہ داری اور بردباری کا مظاہرہ کیا اس کی بدولت ”ان ہاؤس تبدیلی“ کے دعوے بے بنیاد نظر نہیں آئے۔ بالآخر ”رات گئی بات گئی“ ہوگیا۔ عمران خان صاحب آج بھی بہت آن، بان اور شان سے وزیر اعظم ہاؤس میں براجمان ہیں۔ وہ اصرار کرتے رہے کہ کرونا سے گھبرانا نہیں۔ یہ ”فلو“ ہی کی ایک قسم ہے۔

اس سے گھبرا کر شہروں کو لاک ڈاؤن کی زد میں لانے کی ضرورت نہیں۔ ”اشرافیہ“ نے مگر ان کے خیالات کو نظرانداز کیا۔ تمام کاروبار بند کروادیے۔ بالآخر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لینے کو مجبور ہوئی۔ ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو سرکاری حکام نے آگاہ کیا کہ اوسطا ہر برس پاکستان میں ایک ہزار افراد پولن کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پولن مگر بہار کے دنوں میں رونما ہوتا ہے۔ گرمی شروع ہوتے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ پولن کے دنوں میں کاروبار زندگی مگر رواں رہتا ہے۔

کرونا کی وجہ سے ابھی تک چار ماہ گزرجانے کے باوجود یہ کالم لکھنے تک کل 969 پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے۔ عالمی تناظر میں اموات کی یہ شرح حوصلہ افزا حد تک کم ترین ہے۔ شہروں میں لاک ڈاؤن جاری رکھنے کا ٹھوس جوازمہیا ہوا نظر نہیں آرہا۔ آئینی تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کاروبار زندگی لہذا بحال کردیے گئے ہیں۔ اس بحالی کے بعد ملک بھر میں لاکھوں افراد دیوانہ وار گھروں سے نکل کر ہجو م کی صورت بازاروں پر ٹوٹ پڑے۔ رونق لگ گئی ہے۔

زندگی کے معمولات بحال ہو گئے ہیں تو عمران حکومت کو ”چوروں اور لٹیروں“ کے احتساب کے عمل کو بھی بھرپور توانائی سے ازسرنو جاری رکھنا ہوگا۔ عید گزرجانے کے بعد اس میں تیزی آئے گی۔ شہباز صاحب کی بھینسیں اداس ہوجائیں گی۔

معاملہ مگر احتساب تک ہی محدود نہیں رہا۔ کرونا کے دنوں میں مراد علی شاہ کی قیادت میں چلائی سندھ حکومت بھی ”وفاق“ کے لئے عمران حکومت کی دانست میں خواہ مخواہ کی مشکلات کھڑی کرتی نظر آئی۔ معمول کی زندگی بحال ہوتے ہی لہذا سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے نمائندوں نے اپنے صوبے میں گورنر راج لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ آئین میں 18 ویں ترمیم ہوجانے کے بعد کسی صوبے میں گورنر راج لگانا اگرچہ آسان نہیں رہا۔

ہمارے آئین میں لیکن بے شمار ایسی شقیں ہیں جن پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ پاکستان کی ہر حکومت کو ذہین وفطین وکلاء کی معاونت میسر ہوتی ہے۔ وہ کوئی تخلیقی راہ ڈھونڈ نکالیں تو جسٹس منیر جیسے ایمان دار اور انتہائی سخت گیر منصف بھی ”نظریہ ضرورت“ کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ جنرل مشرف صاحب نے اکتوبر 1999 میں اقتدار پر قبضے کے بعد واضح الفاظ میں ”مارشل لا“ لگانے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ محض آئین کو معطل کیا۔

اس کی جگہ کاروبار ریاست وحکومت چلانے کے لئے ”عارضی“ ضابطہ کار متعارف کروائے گئے۔ خود کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کہلوانے کے بجائے وہ اس ملک کے ”چیف ایگزیکٹو“ ہوئے۔ بعدازاں آگرہ میں واجپائی سے ملاقات سے قبل صدر پاکستان بھی ہو گئے۔ یہ تمام عمل ان دنوں کے سپریم کورٹ نے جائز اور منصفانہ ٹھہرایا تھا۔ آئین میں 18 ویں ترمیم کے باوجود ہمارے تاریخی تناظر میں سندھ میں گورنر راج کی راہ بھی نکالی جاسکتی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ مراد علی شاہ دور حاضر کے ایوب کھوڑو بننے میں کتنے دن لگاتے ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments