آرمی کی بیوی اور زوجۂ ملت وغیرہ


ابھی چند ہی روز قبل ہمارے ازلی دشمن ملک کے ایک معمولی ٹریفک سارجنٹ نے وہاں کے بزدل اور ادنٰی قسم کے آرمی چیف کا چالان کر دیا تھا کیونکہ چیف صاحب نے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ لیکن ہمارے ہاں کیونکہ ایک ادنٰی قسم کا سیاہ وردی پوش اعلٰی درجے کے خاکی وردی پوش کو تو کجا اس کی اہلیہ کو بھی بلڈی سولین کی طرح ناکوں پر نہیں روک سکتا ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو کرنیل جرنیلوں کی بیگمات اسے ناکوں چنے چبوا دیں گی۔

ہمارے ازلی دشمن ملک میں تو خیر اور بھی بے شمار انہونے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہماری اشرافیہ کے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں۔ مثلاً آج سے کئی سال پہلے ازلی دشمن ملک کا چیف الیکشن کمشنر سٹنگ وزیر اعظم کو انتخابی جلسے سے روک کر اس کی ساری اکڑ فوں نکال چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ازلی دشمن ہر میدان میں ہمارے مقابلے میں کوسوں پیچھے ہے۔ صرف ایک مثال دیکھیے۔ ہمارے دو سو سات روپوں کے بدلے میں ازلی دشمن کا ایک روپیہ خریدا جاسکتا ہے۔ کرنسی کی گراوٹ کے سلسلے میں تو خیر سے ہم نیپال اور افغانستان سمیت خطے میں سب سے ”اوپر“ ہیں۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا!

ایک ریٹائرڈ نائب صوبیدار اور حاضر سروس اے ایس آئی کی اتنی جرات کہ وہ ایک کرنل کی بیوی کو ناکے پر روکے؟ ۔ ۔ کا بچہ یہ بھی نہیں جانتا کہ روایت کے مطابق کرنل کی اہلیہ کا رینک بریگیڈیئر سے بھی اوپر ہوتا ہے۔ ایک کرنیلنی کا یہ جاہ و جلال دیکھ کر ہمیں ان کے شوہر نامدار کی ہمت اور دلیری پر رشک آتا ہے کہ جنہوں نے ایسی خاتون کے ساتھ زندگی کی بیس پچیس بہاریں دیکھی ہیں۔ انہیں بجا طور پر تمغۂ شجاعت اور نشان حیدر ملنا چاہیے۔

کرنیل صاحب کی اہلیہ ناکے پر ایک اے ایس آئی کے ہاتھوں روکے جانے پر اس قدر مشتعل ہوئیں کہ جذبات کی رو میں بہہ کر یہ تک کہہ گئیں کہ میں آرمی کی بیوی ہوں۔ یوں تو کوئی شخص فخریہ انداز میں یہ کہہ سکتا ہے کہ میں فرزند پاکستان ہوں یا میں اس ملک کی بیٹی ہوں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی دختر مشرق کا خطاب دیا گیا تھا مگر جو طرز گفتگو کرنیل صاحب کی اہلیہ نے ٹریفک اہلکاروں پر دھونس جمانے کے لیے اختیار کیا اس سے ہمیں پچاس کی دہائی کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا جو معروف بزرگ کالم نگار جناب عبدالقادر حسن نے چند سال پیشتر اپنے ایک کالم میں لکھا تھا۔

شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد غالباً راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسۂ عام ہو رہا تھا۔ جلسے میں شہید ملت کی بیوہ رعنا لیاقت علی کو بھی مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا تھا۔ سٹیج پر براجمان ایک صاحب کی یہ ذمہ داری لگائی گئی تھی کہ وہ بیگم رعنا لیاقت علی کی پذیرائی کے لیے پر جوش نعرے لگوا کر حاضرین کا خون گرمائیں گے۔ نعروں میں ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ جب موصوف نعرہ لگائیں گے کہ ”زوجۂ شہید ملت“ ۔ ۔ ۔ تو حاضرین پر جوش انداز میں جواب دیں گے کہ ”زندہ باد“

جلسہ شروع ہوا اور مقررین کی تقریروں کے دوران مختلف نعرے لگتے رہے۔ آخر میں جب رعنا لیاقت علی تقریر کرنے آئیں تو وہ صاحب اٹھے۔ حاضرین پر نظر ڈالی اور ہاتھ لہراتے ہوئے فرط جذبات سے نعرہ زن ہوئے کہ ”زوجۂ ملت“ ۔ ۔ ۔ حاضرین نے آوٴ دیکھا نہ تاوٴ نعرے کا بھرپور جواب دیا کہ زندہ باد۔

ان صاحب کی زبان کی معمولی پھسلن اور جذبات کی رو میں بہہ جانے کی وجہ سے ”زوجۂ شہید ملت“ یک دم ”زوجۂ ملت“ بن گئیں۔ کرنل صاحب کی اہلیہ بھی کیونکہ اس وقت ملکۂ جذبات بنی ہوئی تھیں اس لیے زبان پھسل گئی اور آرمی افسر کی بیوی پل بھر میں آرمی کی بیوی بن گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments