گھبرانا نہیں، ہم نے ریت میں سر چھپا لیا ہے


میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ اب کے بعد کرونا وائرس سے پھیلی مبینہ وبا کے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا، کچھ نہیں کہوں گا اور کچھ نہیں سوچوں گا۔ میں جس ریاست میں رہتا ہوں وہاں کے ولی جس کی اطاعت قانونی، آئینی، شرعی اور مذہبی طور پر مجھ پر فرض ہے اس نے فرمان جاری کر رکھا ہے کہ وبا جیسی کوئی بات ہی نہیں ہے ہے اس سے زیادہ خطرناک تو نزلہ، زکام اور ٹریفک سے ہونے والے حادثات ہیں لہذا مجھے گھبرانا نہیں ہے۔

اولو الامر کے حکم کی اطاعت ایک طرف مگر قاضی القضاۃ کے اس فیصلے کے خلاف کچھ کہنے پر حد بھی نافذ ہو سکتی ہے جس میں عید کے جوڑے کی اہمیت اور افادیت کے تقدم کو حفظان صحت کے اصولوں پر تقدیس دے کر تاجروں کو اپنا فرض ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور حکومت کو بجا آوری کی ہدایت۔ میں ایک اطاعت گزار شہری کی حیثیت سے اب کچھ کہنے کی توفیق نہیں رکھتا لہذا آمنا و صدقنا سرتسلیم خم ہے۔

مگر شام کو انٹر نیٹ پر گھومتی دو ایک جیسی تصاویر نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا ہے۔ دونوں تصویروں میں دو مختلف ہسپتال کے ٹوٹے شیشے، کاؤنٹر اور کھڑکیاں نظر آتی ہیں۔ دونوں واقعات میں ہسپتالوں میں ہنگامہ آرائی کرنے والے کرونا وائرس سے متاثر مریضوں کے لواحقین بتائے گئے ہیں اور وجہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کی عدم توجہی قرار دی گئی ہے۔

جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو ملک بھر میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ نصف لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ میں جس حساب سے اضافہ ہورہا ہے اس کے مطابق ہفتہ بعد یہ تعداد پونے لاکھ اور اگلے مہینے تک لاکھ ہو جائے گی اور مرنے والوں کی تعداد دو ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ جون کے مہینے کے آخر تک اس تعداد کے چو گنی ہونے کے امکانات بتائے جاتے ہیں۔

جون میں ملک کا مالیاتی سال تو ختم ہوجاتا ہے مگر نظام فطرت نے جاری رہنا ہے اور اس موذی وائرس کی روک تھام اور تدارک کے لئے کسی دوائی اور ویکسین کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ جون کے آخر تک دکانیں، کارخانے، ٹرانسپورٹ اور کاروبار کھول کر سرکاری خزانے کے محاصل کے ذرائع پیدا کرنے کے لئے گزشتہ دو ڈھائی مہینے سے جاری بندشوں کو کھول کر لوگوں کو گھلنے ملنے کی اجازت دی گئی ہے جس کے نتائج نوشتہ دیوار کی طرح عیاں ہیں۔

آج کی تاریخ میں پنجاب سے ایک خاتون رکن اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے ایک ممبر کی کرونا وائرس سے موت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اب تک ایک گورنر اور سپیکر قومی اسمبلی سمیت کئی ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کے اس وائرس کا شکار ہونے کی خبریں تھیں مگر کسی ممبر کی موت کی خبر پہلی بار آئی ہے وہ بھی ایک ہی دن میں دو ارکان کی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے بزرگ سیاستدان میاں افتخار اور بشیر بلور کے بھی کرونا سے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں جن کی صحت یابی کے لئے ہم دعا کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

اس دوران کئی اور لوگوں خاص طور پر مذہبی شخصیات کی موت کی خبریں تواتر سے آتی رہی ہیں مگر سرکاری طور پر جب تک کسی کی موت کے کرونا وائرس سے ہونے کی تصدیق نہ کی جائے اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جو بات میرے لئے باعث تشویش ہے وہ یہ کہ اس وبا سے ہونے والی ایسی چھپائی گئی بیماری اور موت کے نتائج اس کے مزید پھیلاؤ کی شکل میں سامنے آتے ہیں جو متاثر ہونے والے شخص کے لواحقین اور اعزا و اقرباء کے لئے زیادہ تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں چونکہ بیماری خدائی امر اور موت برحق ہے لہذا اس پر بھی مزید کچھ کہنا مثل کفر ہے۔

جب سے اولو الامر کا شاہی فرمان اور قاضی القضاۃ کا فتویٰ صادر ہوا ہے عامتہ الناس نے فیس ماسک سے ناک و منہ ڈھانپنے اور سینی ٹائزر کو ہاتھوں پر ملنے کی تردد سے بھی جان چھڑا لی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ مغرب کے کفار پر نازل ہونے والا خدا کا قہر مومنین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لہذا ان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب بین الاقوامی اداروں کی سازش ہے جس کا وہ شکار کبھی بھی نہیں ہوں گے۔

سوشل میڈیا نے ہمارے پیشے کے اعتبار سے طبیب صدر مملکت خدا داد کے ایک فرمان کو بھی اپنی ویب سائٹ سے یہ کہہ کر ہٹا دیا ہے کہ ایسی باتیں کرونا وائرس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کا موجب بن سکتی ہیں۔ مگر رعایا نے دل و جان سے اپنے صدر کی باتوں کو پہلے ہی قبول کیا ہے اور ان پر عمل پیرا ہے جس کی وجہ سے مساجد اور بازاروں میں رونق لگ گئی ہے۔ چونکہ سکول بند ہیں اور بچوں کو اگلے گریڈ اور کلاس میں پروموشن بھی مل چکی ہے اس لئے اب مطالبہ ہے کہ عید سعید پر تفریح گاہیں کھول کر بچوں کے لئے تفریح طبع کا سامان بھی مہیا کیا جائے۔

ملک میں صرف ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف روتا گڑگڑاتا دکھائی دیتا ہے جو چہرے پر لگائے جانے والے ماسک اور دستانے جیسی مہنگی چیزوں کا مطالبہ کرتے کرتے کچھ خود ہی ہسپتال کے بستروں اور کچھ قبروں میں پہنچ گئے۔ صرف ڈاکٹر ہی اپنی کمزور اور نحیف آواز میں یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گھروں میں اپنے عزیزوں کے درمیان رہنا ہسپتال میں اکیلے رہنے سے بہتر ہے، وینٹی لیٹر کی ہوا پھیپھڑوں تک آسانی سے نہیں پہنچتی اور کوئی ڈاکٹر یا نرس ماں باپ اور بچوں سے بہتر خیال نہیں رکھ سکتا۔ مگر نگار خانے میں طوطی کی آواز سنتا کون ہے۔

عالمی سطح پر وبا سے متاثر ہونے والے ممالک کی صف میں پاکستان کا نمبر تیزی کے ساتھ گر رہا ہے۔ اب تک انیسویں نمبر تک پہنچنے والے بائیس کروڑ کے ملک میں دستیاب طبی سہولتوں کے فقدان اور کمیابی کے تناظر میں بہت جلد پہلی صف میں کھڑا ہونے کی تشویش بھی موجود ہے۔ ایک طرف اس ملک کے بڑے شہروں کی پتلی گلیوں والی کچی آبادیوں تک پہنچ کا مسئلہ درپیش ہے تو دوسری طرف دور دراز کے دیہاتوں میں طبی سہولتوں کی فراہمی کے مسائل کے پہاڑ کھڑے ہیں۔

لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، راولپنڈی ملتان، فیصل آباد اور پشاور میں ہاتھوں پر مہندی لگائے بغیر اور نئے جوڑے کے بغیر بھی عید ہو سکتی ہے مگر دیہاتوں سے آنے والی گندم، چاول، گنا اور دال کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ وبا کے بعد جس مشکل کا سامنا لوگوں کو درپیش ہونے والا ہے وہ ہ فوڈ سیکیورٹی یعنی خوراک کی فراہمی کا ہوگا۔ لوگوں نے وبا کے دنوں میں صرف صرف عید تک ہی زندہ نہیں رہنا بلکہ اس وبا کے ویکسین کے آنے اور دوائی کے دستیاب ہونے تک زندہ رہنے کا سامان کرنا ہے اس میں مہینے اور سال بھی لگ سکتے ہیں۔

اگلے سال منفی تین فیصد کی شرح نمو کے اندازے ہیں جس کا مطلب ہے کہ جو کچھ دستیاب ہے اس میں مزید کمی آنے والی ہے۔ دوسری طرف لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ہم نے شتر مرغ کی طرح خطرہ دیکھ کر ریت میں سر چھپا لیا ہے لہذا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments