مجرم کرنل کی بیوی یا دوہرا معیار قانون؟


لاک ڈاؤن کی سختیوں کے دوران کی بات ہے کہ میں اپنے بیٹے کے گھر سے واپس اپنے گھر آ رہا تھا۔ جمعہ کا دن تھا اور ابھی ساڑھے بارہ بجنے میں پورے 120 منٹ باقی تھے۔ جب 25 کلو میٹر سے بھی زیادہ کا فاصلہ طے کر کے میں گھر سے بصد مشکل 250 میٹر دور رہ گیا تو راستہ چاروں جانب سے بند پایا میرے بریک لگتے ہی دیکھتے دیکھتے درجنوں گاڑیوں کی قطاریں لگ چکی تھیں اور چند ہی منٹوں میں دور دور تک گاڑیوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگنا شروع ہو گئے۔

درجن بھر پولیس اہل کار اور اس سے کہیں زیادہ تعداد میں رینجرز اہل کار ناکہ لگائے ہوئے تھے۔ میں نے جرات کر کے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے تو گھورتی آنکھوں نے روح قبض کر لینے کا الارم بجانا شروع کر دیا اس لئے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ پھر کچھ دیر بعد اشارہ ملا کہ گھوم کر دوسری سڑک پر آئیں اور واپس لوٹ جائیں۔ سوال یہ تھا کہ واپس جائیں تو آخر کہاں جائیں اور کیا 25 کلو میٹر واپسی کے راستے میں کوئی اور رکاوٹ نہ ہوگی۔

میرا گھر دو قدم پر ہی تھا لیکن اس کے لئے ضروری تھا کہ مجھے کوئی 20 میٹر مزید آگے جانے دیا جائے تو میری گلی کا موڑ آ جاتا تھا۔ کچھ حوصلہ ہوا تو ایک جانب گاڑی کھڑی کر کے میں نے ڈیوٹی پر کھڑے ایک اہل کار کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ سامنے والا بائیں ہاتھ کا موڑ میری گلی کا ہے تو کچھ مہربانی کرلی جائے۔ ہو گئی مہربانی، گاڑی کے ایک ٹائر کی ہوا نہایت چابک دستی کے ساتھ نکال دی گئی۔

قانون پر عمل درآمد ہو تو ایسا ہو، میں کیوں کہ تنہا نہیں تھا سیکڑوں مردوزن اور معصوم بچے اور بچیاں بھی اس سزا کو بھگت رہے تھے اس لئے دل سے دھوں اٹھتے رہنے کے باوجود ایک تسکین سی ضرور تھی کہ سزا کا حقدار میں اکیلا نہیں۔

ایک جانب تو یہ سارا کچھ ہورہا تھا اور آئے دن مختلف ناکوں پر دیکھنے میں آتا بھی رہتا ہے۔ ذرا ذرا سی دیر میں میلوں لمبی قطاریں لگ جایا کرتی ہیں لیکن لوگ اس لئے خاموش رہتے ہیں کہ سب کے ساتھ ”جان کی امان پاؤں تو“ والا معاملہ در پیش ہوتا ہے۔ مگر اس دوران بھی قانون کے دہرے معیار والا معاملہ بہر کیف آپ اپنی نگاہوں سے خود دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کتنی ہی لش پش گاڑیاں وہاں سے گزر رہی ہوتی ہیں اور ان کو روک لینے کی جرات کوئی بھی نہیں کر رہا ہوتا۔

کرنل کی بیوی تو خوامخواہ بدنام ہو گئی۔ اصل میں مجرم تو ہمارا دہرا معیار ہے۔ روکنے والے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ان کی ساری زندگی اسی طرح فرض شناسی میں ہی گزری ہے؟ جب ہر عام و خاص کے علم میں یہ بات اچھی طرح ہو کہ مختلف ”شارٹ کٹوں“ کے کیا کیا طریقے ہیں اور کہاں کہاں ”عہدے“ اور کہاں کہاں ”قائد اعظم“ سے کام نکل جاتا ہے تو پھر ایسا کچھ ہونا کوئی ایسی بات نہیں جو نہ سمجھ میں آنے والی ہو۔ اگر کرنل کی بیوی کو یہ معلوم ہوتا کہ پاکستان میں قانون ہی چلتا ہے تو اسے توڑنے کی ہمت بیوی تو بیوی، کرنل صاحب کو بھی نہیں ہوتی۔ انھوں نے نہ جانے کتنی بار اپنے شوہر نام دار کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ”کرنیلی“ رویہ دیکھا ہوگا اور ہر پاکستانی کی طرح کتنی بار خود ان کے علم میں ایسا سب کچھ آیا ہوگا۔ اگر پاکستان میں قانون ہی کو حکمران پایا ہوتا تو کیا وہ ایسی فرعونیت کا مظاہرہ کر سکتی تھی؟

سنا ہے آرمی چیف قمر باجوہ صاحب نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا ہے اور باقاعدہ انضباطی کارروائی کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ اچھی خبر ہے، لیکن اہل پاکستان کا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اہل کراچی کو اس بات پر یقین مشکل ہی سے آئے گا اس لئے کہ سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل کے حوالے سے وہ آفتاب احمد کو شاید کبھی فراموش نہ کر سکیں، ویسے بھولے تو وہ سرفراز احمد کو بھی نہیں۔

لوگ کچھ بھی کہیں، میں ناکے پر کھڑی پولیس کے اقدامات کو سیلوٹ کرنے کی بجائے اس شیرنی کو سلام پیش کروں گا جس نے درجنوں اہلکاروں کو دھکا دیتے ہوئے اور انھیں گاڑی کے نیچے کچل دینے کے اقدامات کی عملی دھمکی دیتے ہوئے رکاوٹی بیریئر کو توڑا اور قانون کو جوتے کی نوک پر مارتے ہوئے موقعہ واردات سے فرار ہو گئی۔ یہ کیسے اہلکار تھے جو اقدام قتل جیسی کارروائی پر ”کرنل“ کے حوالے پر صرف ہاتھ ہلاتے رہ گئے اور گاڑی کے نیچے کچل کر رکھ دینے کے عملی مظاہرے کے باوجود کوئی ایک اہل کار بھی گاڑی کے نیچے کچل جانے کے لئے تیار نہیں ہوا۔

اگر قانون میری گزارش سننے کے بعد نرم اور شستہ زبان استعمال کرنے کی بجائے ایک 70 سالہ بزرگ کی گاڑی کے ٹائر سے فوراً ہوا خارج کر سکتا ہے تو کرنل کی بیوی کی دھمکی اور اقدام قتل کے عملی مظاہرے کے باوجود اس کے چاروں ٹائر کیوں نہ پھاڑ سکا۔

جنرل باجوہ صاحب، کرنل کی بیوی کے خلاف آپ کوئی کارروائی کریں یا نہ کریں، ڈیوٹی پر موجود تمام اہلکاروں اور ان کو ہیڈ کرنے والے سارے افسروں کے خلاف ایسے ٹھوس اور سخت اقدامات ضرور اٹھائیں کہ فرائض ادا کرنے والے یا تو اپنے فرائض نبھاتے ہوئے جان کی بھی پروا نا کریں یا پھر قانون توڑنے کی جرات کرنے والوں کے ہاتھ پاؤں توڑ کر کر رکھ دیں۔ ایسا کرنا ہی حلف کی پاسداری کے عین مطابق ہوگا ورنہ قانون ہمیشہ اسی طرح جوتے کی نوک پر مارا جاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments