کیا کرنل کی بیوی کو سزا مل سکے گی؟


سوال یہ ہے کہ کیا اس کرنل کی بیوی کو اصل میں سزا مل سکے گی؟ آپ نے بھی ضرور کرنل کی بیوی کا تیز ترین ٹرینڈ ملاحظہ کیا ہو گا۔ خدا اس ٹرینڈ کو مزید طاقت دے اور اس کی آواز وہاں تک پہنچائے کہ جہاں لوگوں سے اس کی وضاحت دینی نا ممکن ہو جائے۔ کم سے کم ایک بڑی نسل کو سچ اور جھوٹ، غلط اور صحیح کا شعور ہی ملے۔ ایسا رویہ اختیار کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے بچے آپ کے بچوں کو اسکول اور گلیوں میں ہراس کرتے ہیں کہ تمھیں پتا نہیں میرا باپ کون ہے، جن کی بیٹے سڑکوں پر جس پر چاہے گاڑیاں چڑھا دیتے ہیں اور بیویاں اور بیٹیاں جہاں چاہے جن پر چاہے حملہ کر دیتی ہیں کیونکہ ان کے دماغوں میں یہ ناسور ہیں کہ وہ بہت ہی باکمال، با اختیار اور طاقتور گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ وہ گھرانے ہیں جہاں طاقت، پیسے اور اختیار کا غرور صبح شام شیشے کی پلیٹوں میں ڈال کر کھایا اور کھلایا جاتا ہے، یہ لوگ مونچھیں مروڑتے اٹھتے ہیں، ٹھوکریں مارتے چلتے ہیں اور سروں کو پٹختے  ہوئے بولتے ہیں۔ اور یہ آپ کو ہر جگہ ملتے ہیں، کوئی کروڑ پتی جاہل بزنس مین، کوئی فیڈرل پڑھا لکھا سیکرٹری، کوئی اے سی اور ڈی سی، کوئی کرنل اور برگیڈئیر، کوئی وزیر مشیر، یہ ہر جگہ ہیں۔ یہ وہ خاندان ہیں جنہوں نے غربت اور کمزوری میں تذلیل سہی ہے، یہ وہ طبقہ ہے جنہوں نے کمزوری میں جوتے کھائے ہیں اور ایک دن، دن بدلنے کے خواب دیکھے ہیں تا کہ جس دن ان کے دن بدلیں وہ بھی اسی طرح، اکڑتے، لڑتے جھگڑتے، پٹختے چل سکیں۔

اور یہ وہ چند لوگ نہیں جو کیمرے کی زد میں آ گئے، کیمرے کی زد میں تو وہ آ گئے جنہوں نے قیادت سنبھالنے کی کوشش کی ورنہ یہ لوگ آپ کے آس پاس ہر طرف ہیں، بے شمار اور ان گنت۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قانون پر چلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں، جن کا رتبہ قانون کا احترام کرنے سے گھٹ جاتا ہے۔ طاقت ور افراد کا یہ مقبول رویہ دیکھ کر کم طاقت ور لوگ بھی اسی نوعیت کی اداکاری کے شوقین بن رہے ہیں۔ یعنی یہ کلچر بہت کامیابی سے اوپر سے نیچے بہہ رہا ہے۔ اس کلچر کے فالوور اس قدر ہیں کہ ان کی موجودگی میں قانون کی پابندی کرنے والا تماشا بن جاتا ہے، اپنے اختیار سے تجاوز نہ کرنے والا درویش بن جاتا ہے اور حرام نہ کھانے والا اللہ لوک ہو کر رہ جاتا ہے۔

کرنل کی بیوی اس ملک کا فیشن ایبل کلچر بن چکا ہے۔ جس میں طاقتور ہر طرح کے مواخذے سے محفوظ رہتا ہے اور غریب ذرا سی غفلت پر الٹا لٹکا دیا جاتا ہے۔ اور اس سسٹم کے سامنے سر جھکانے والے بھی اس پورے سسٹم کو پروان چڑھانے میں برابر کے شریک ہیں۔ ایک کے ساتھ دوسرا بزدل طاقت کے ساتھ کھڑا ہوتا رہے تو قانون تو خودبخود ہی یتیم ہو جاتا ہے۔ ہمیں ایسے دلیر اور قابل لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو غلط کو غلط کہنے کی جرات کہہ سکیں جو لحاظ، مروت، طاقت اور پیسے جیسی ترغیبات سے نمٹنے کا ہنر رکھتے ہوں۔

ایسے میں سلام ہے اس افسر کو جو ایسے جاہل اور طاقت کے نشے میں اندھے لوگوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ کیا اس افسر کی نوکری محفوظ رہے گی یا کچھ عرصے میں اسے بھی اونچے درجے سے نچلے درجے میں دھکیل دیا جائے گا۔ سوشل میڈیا میں اگر طاقت ہے تو اس طاقت کو اس کیس کو دور تک فالو کر کے اسے عبرت کا نشان بنانا چاہیے تا کہ آئندہ معاشرے کا ایک رخ متعین کیا جا سکے۔

آرمی چیف نے نوٹس لیا بہت ہی قابل تعریف امر ہے۔ مگر اس عمل کو مکمل انجام تک بھی پہنچنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوسکا اور کسی بھی وجہ کی بنا پر یہ کیس تعطل کا شکار ہوتا ہے تو پھر فوج کو بھی گلہ نہیں کرنا چاہیے کہ لبرلز یا لبرل بننے کے شوقین ان کے ادارے کو گالیاں نکالتے ہیں۔ اگر آپ اپنے ادارے کے وقار کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے افراد اور تعلقات کے ساتھ کھڑے ہوتے رہیں گے تو پھر آپ کے شہدا کی قربانیاں زائل ہوتی ہی رہیں گی۔ ایک کرنل کی ایسی بیٹی یا بیوی دس شہیدوں کی قبروں پر ٹانگ مار دیتی ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت بھی ابھی تک ایسے کسی بھی واقعہ کو ایک اچھی مثال بنانے میں ناکام رہی ہے۔ میک اپ سے لدی چشمہ لگائے رحم کی اپیل کرتی ماریہ بی سے سڑک پر بڑی گاڑی والے سے پٹتے موٹر سائکل سوار تک ہمارے ہر طرف ایسے ہی لوگوں کا انبار لگا ہے۔ ماریہ بی کو وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف کی مہربانی سے بقول خود ماریہ بی کے جتنی جلدی قانون شکنی کے بعد قانون کے شکنجے سے نکالا گیا اس نے پی ٹی آئی کی حکومت کی آئیڈیالوجی پر مٹی پھیر کر رکھ دی۔

تو کیا کرنل کی بیوی کا چالان اور سزا ہو گی اور کیا اس کے کرنل میاں کا مواخذہ ہو گا؟ واقعہ ساہیوال سے ماریہ بی تک آخر اتنی بڑی نظریاتی جماعت کا نظریہ فیل کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا اس نظریاتی جماعت سے پاکستان میں کوئی اصل تبدیلی آ بھی سکتی ہے یا اس جدید ترین ورلڈ آرڈر کے بیچ بھی عوام کو صرف میٹھے خوابوں اور جھوٹے وعدوں پر گزارا کرتے رہنا چاہیے؟ حکومت پاکستان کسی واقعہ کو عبرت کا نشان بنانے کی طاقت رکھتی ہے تو اسے واضح کرنا پڑے گا ورنہ خالی ڈگڈیوں سے تو عوام سالہا سال سے بہلتے ہی رہے ہیں، تبدیلی پھر کہاں پر آئی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments