سجدہ سہو



سعدیہ پانچوں نمازیں پڑھتی اور پانچوں وقت سجدہ سہو کرتی۔ انتہای توجہ سے نماز کا آغاز کرتی۔ رکوع سجود میں آہستگی برتتی، الگ الگ لفظ ادا کرتی مگر نہ جانے لڑی کہاں سے ٹوٹتی، موتی کدھر سے بکھرتے کہ آخیر تک پہنچتے پہنچتے گمشدہ ہو جاتی۔ کتنی رکعت ہو گییں اور کتنے سجود کچھ حساب نہ رہتا۔ فقط رہ جاتی اک نارسای۔ ایسی ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو جوڑ لگانے کا ایک ہی طریقہ تھا اس کے پاس، سجدہ سہو! تین رکعتوں کو چار کرنے کا، سجود ورکوع کی گنتی پوری کرنے کا اسیر نسخہ۔

سجدہ سہو سعدیہ کی عادت ثانیہ بن چکا تھا اور شاید اس کے پھٹے چیتھڑے لگے کپڑوں جیسی نمازیں لے جانے والے نورانی فرشتوں کی بھی، اگر کبھی جو سجدہ سہو کے بغیر ان کے پاس نماز پہبچ جائے تو شاید وہ بھی بیچ رستے میں چکرا کر واپس آ جائیں کہ آج غلطی ہوگی۔ غلط بندے کی نماز پکڑی گئی۔ اس عورت کی نماز کا سجدہ سہو تو رہ گیا۔ وہ عورت جو ہر شے کو اس کے ٹھکانے پر رکھنے کی کوشش کرتی پر نہ رکھ پاتی۔ کوی غلط بنت پڑ گیی تھی اس کی زندگی کے سویٹر میں، کوی ٹانکا جو غلط لگ گیا تھا۔

یا پھر وہ کسی آسیب زدہ راستے پر بھٹک کر رہ گیی تھی کہ کھو کھو جاتی۔ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی اور پھر گما جاتی۔ سنبھلتے سنبھلتے پھر پھسل جاتی۔ ایسی ہو کر ری گیی تھی اسکی زندگی۔ سعدیہ کی زندگی ہمیشہ سے ایسی نہ تھی۔ اسمیں نظم تھا ضبط تھا، آگہی تھی، اختیار تھا! کبھی اس کی زندگی کے آسماں پر صبح میں سورج نکلتا تھا اور رات میں چاند، اپنے وقت پر تاریکیاں ہوتیں اپنے وقت پرچاند راتیں۔ یہ بے ربطگی، یہ گھمسان کارن تو شادی کے بعد پڑا تھا زندگی میں۔

قیامتیں ساری جگمگاہٹوں ، قمقموں اور جشن کے بعد ٹوٹی تھیں اس کی زندگی میں مگر بجلیاں اس کے ظاہر میں نہیں کہیں اندر ہی اندر گری تھیں۔ چلتا پھرتا اٹھتا بیٹھتا وجود ایک ریت کے بھربھرے وجود میں بدل گیا تھا۔ لاکھ مٹھی میں سنبھالنے کی کوشش کرتی، کوزہ بنانے کی جوڑنے کی کوشش کرتی، پر ریت بکھر بکھر جاتی، اس کی پکڑ میں نہ آتی۔ ”نکاح کے لفظوں میں جادو ہوتا ہے۔“ یہ اس کی پھپھی نے کہا تھا۔ قاسم سے نکاح پر دستخط کرواتے وقت۔

وہ نہ بھی کہتیں تو دستخط تو وہ کر ہی دیتی۔ جادو چلے یا نہیں۔ منتر اپنا کام کریں یا آسیب۔ سر ہی جھکا دیا تو کیا فرق پڑتا تھا جادو چلیں یا بجلیاں گریں، طوفان آییں یا بہاریں، نغمیں پھوٹیں یا نوحے، کیا فرق پڑتا تھا اسکو۔ اور کیا فرق پڑتا تھا دستخط کروانے والوں کو۔ فرق تو تب پڑتا جب اس نکاح نامے پر نام کسی اور کا ہوتا۔ دستاریں گر جاتیں، عزتیں نیلام ہو جاتیں، بال نوچ لیے جاتے ، گردنیں کٹ جاتیں، خاندان اجڑ جاتے۔

اس نے سب کچھ بچا لیا بس اپنا آپ ہار دیا۔ ”تم سے بہت پیار کرتا ہے، بہت خیال رکھے گا! ” سہیلیاں خاص طور پر بار بار جتاتیں۔ انہوں نے یاد کروایا گیا سبق منہ زبانی رٹ لیا تھا۔ اس لیے بغیر کوئی لفظ بدلے ایک ہی فقرے کی بار بار تکرار کرتیں۔ ”اچھا! ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں مجھے صرف خیال ہی تو چاہیے، ” وہ بھی دن میں کیی کیی بار اپنے دل میں یہ فقرے انڈیلتی۔ اپنے دماغ کو جتاتی کانوں میں گونجتی آوازوں کو چپ کرواتی۔ بھٹکتی آنکھوں کو پکڑتی، روکتی اور ان کو بتاتی۔

”تمھیں خوش رکھے گا! تمھیں خوش رکھے گا! ” اور آنکھوں میں جلتی آگ اور بھڑکنے لگتی۔ بھانبڑ جہنم میں بدل جاتے۔ ہواییں بپھر کر طوفان بننے لگتیں۔ مجھے جنگل جنگل بھٹکا دو مجھے سولی سولی لٹکا دو جو جی سے چاہو یار کرو ہم بڑھ جو گیے تیری راہ پیا! اور وہ شام سلونا چمکتے سورج کی طرح صبح صبح اس کی منڈیر سے جھانکنے لگتا، شام ہونے پر سورج کے ساتھ غروب ہو جاتا اور چاند بنکر پھر نکل آتا! وہ پردے تانتی، دروازے بھیڑتی، کھڑکیوں کو کنڈیاں لگاتی مگر سورج کی کرنیں اور چاند کی چاندنی نہ پکڑ پاتی۔

نکلتے دن کو روکنا اس کے اختیار سے باہر تھا۔ ہ پاگل تھی عشق کے راستے کی دھول چاٹنے نکلی تھی۔ اور اب دیواروں میں سر پھوڑ نے سے بھی گیی تھی۔ باہر موت تھی تو اندر زلزلے، کس کو پکڑتی، کس کو چھوڑتی۔ کسی کا چہرہ تھا جو اس کے اندر باہر گونجتا تھا۔ کچھ الفاظ تھے جو اس کے د ل کی دیواروں پر سر مارتے پھرتے۔ کچھ زخم تھے دل میں جو سل کر نہ دیتے۔ واحد! واحد! واحد! اس کے دل میں، دماغ کی تہوں میں، آنکھوں کی چلمنوں پر، سانس کی ڈوری میں، دل کی دھمال پر، لہو کی حرارت میں، اس کے جسم اور روح کی لہروں پر ایک ہی نام تیرتا پھرتا۔

ایک نام کا آسیب اسکے وجود سے لپٹ گیا تھاجو وہ چاہ کر بھی اتار نہ پاتی۔ آنکھیں بند کرنے سے اسکا چہرہ گم جاتا تو وہ اپنے ہاتھ سے آنکھیں پھوڑ لیتی۔ کانوں میں زہر انڈیل لیتی اگر اسکی صداییں روک پاتی۔ لہو نچوڑ کر رکھ لیتی جسم کا اگر اس سے واحد کا نقش مٹ سکتا۔ سانسیں روک لیتی اگر جو کچھ مرہم بنتا۔ مگر وہ تو عشق کا جوگ لگا بیٹھی تھی۔ اور اب طوفانوں کے بیچ معلق تھی۔ اندر باہر کے طوفان اس کو لڑکھڑاے پھرتے تھے۔

ابا کے الٹے ہاتھ کی مار نے ایسا پٹخا تھا کہ دیوار میں جا لگی تھی۔ بھای نے مار مار کر ہڈیاں ہی توڑ دی تھیں۔ تب اس نے جانا باپ بھائیوں کے ہاتھ کتنے سخت اور بھاری ہوتے ہیں۔ صرف چوٹ ہی نہیں لگاتے ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں۔ پہاڑوں کو توڑ دیتے ہیں۔ زندوں کو مار دیتے ہیں۔ اعتماد توڑنے کی سزا دیوار میں چنوا کر نہیں دیتے پتھروں سے سنگسار کر کے دیتے ہیں۔ اور یہ اعتبار کا پل صراط جس سے دل گر گر جاتے ہیں۔ اور سنگساری مقدر ٹھرتی ہے۔

”اب ہماری بیٹیاں عشق فرماییں گی!“ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”۔ مار کر کھیتوں میں پھینک دو! ” باجیاں چنگھاڑی تھیں۔ بھائی لپک لپک پڑتے۔ کسی نے جھانپڑ مارے کسی نے ٹانگیں۔ سعدیہ خاموشی سے کھاتی رہی۔ وہ پیار سے بھی کہ دیتے تو ہونی تو انہی کی مرضی تھی۔ پر باپ اور بھائیو ں کو دھونس اور رعب عزیز تھا۔ سعدیہ نے سہہ لیا۔ اپنے چہرے بال اور جسم کو سہلاتی، چوٹوں کو دیکھتی۔ چلو تم کو لے چلوں! یہ مار دییں گے تم کو! ” ” اپنے باپ کو مار کر نہیں جا سکتی!

” باپ اس کے دکھ میں مر جاتا تو وہ مر بھی نہ پاتی۔ وہ پیروں میں پڑ گیی۔ ”“ آپ جو چاہے کریں! جیسے چاہے کریں! ” لب دم یہی اس کی زبان پر تھا۔ یہی دل میں تھا۔ یہ اور بات وہ دل زلزلوں کی زدمیں تھا نزع کا عالم تھا اور اس کے دل کی فکر بھی کس کو تھی۔ عزتوں کا بھرم رکھنے کو بڑی عجلت میں خاندان کا لڑکا پکڑا گیا تھا۔ لڑکی باغی ہو گیی ہے کہیں بھاگ نہ جائے۔ کہیں مونہوں پر کالک نہ مل جائے، دنوں، میں بات طے ہوئی اور ہفتوں میں نکاح۔

نہ مہندی ہوی نہ گانے بجے، نہ سہیلیوں نے ڈھولک پیٹی نہ شادمانے بجے اور نکاح ایسے ہو گیا کہ جیسے جنازہ ادا ہوا۔ اعتبار توڑنے والوں کے لیے شادمانے کوں بجاتا ہے۔ عشق محبت کرنے والی لڑکیوں کے لیے کہاں آتش بازیاں ہوتی ہیں۔ چاہے عزت بچے، دستار سجے، غرور بڑھے پر یہ شادمانی کی نعمت پھر تابعداری سے بھی نہیں ملتی۔ عشق کے رستے پر ہر طرف خواری ہے، ہار کر بھی جیت کر بھی۔ لڑ کر بھی جھک کر بھی، قربانی دے کر بھی اور لے کر بھی۔

یہ دیس نکالا کسی صورت نہیں ٹلتا۔ باپ نے نکاح کے وقت سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ نہ جانے خوش قسمتی کی دعا دی یا نہیں پر شکر ضرور ادا کیا دل میں کہ عزت بچ گیی۔ گھر سے جنازہ بڑی دھوم سے نکلا۔ ماں رونے کی بجائے رخصتی پر ہنستی رہی۔ اس کی بھی عزت رہی، گھر بھی بچا اور سہاگ بھی۔ سب کچھ بچ گیا صرف لٹا تو سسی کا شہر بھنبھور۔ رومانوی فقرے، تحفے تحایف، دعوتیں، رنگ برنگے کپڑے، جھلمل کرتے زیور، سب لوٹ آیا اس کی زندگی میں مگر ایسے کہ جیسے انٹینا ہل جانے سے رنگین ٹی وی کالا ہو جائے۔

تصویر ہلتی رہے چکراتی ہے۔ سعدیہ ایک بار بھٹکی تھی مگر اب قدم سنبھال کر رکھتی زندگی کے ساتھ چلتی رہی۔ گھر بنانے میاں کو اپنانے کی کوششوں میں جت گیی۔ سسرال کی خدمتوں میں مصروف رہنے کی کوششوں میں خود کو بگاڑتی گیی۔ اپنوں نے جن پھولوں پر رخصت کیا تھا تو غیروں سے تو توقع ہی نہ تھی۔ قبولیت ہی قبولیت تھی ہر طرف۔ جھولی میں پھول ییں یا کنکر، روڑے گریں، یا شبنم، کس کو فکر! جب پتھروں پہ چلنا مقدر ٹھرا تو تلوؤں کی کیا فکر۔

نہ فلک گرا نہ زمینیں پھٹیں۔ خدمتیں ہمیشہ کامیاب ٹھہرتی ہیں۔ اس کی بھی ٹھہر گیی تھیں۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ دل مر جائے، کیا فرق پڑتا ہے اگر وہ سجدہ سہو کرتی رہے۔ زندگی کی ایک بنت ڈھیلی رہ گئی تھی کوی ٹانکا غلط جا لگا تھا کہ لباس تنگ پڑ جاتا، سانس پھنسنے لگتا، دودھ ابلتا، سالن جلتا اور راتیں جاگتی رہتیں۔ نعمتوں میں سے لذت روٹھ گئی، خوبصورتیوں کے رنگ بکھر گیے۔ زندگی ادھوری، اس طرف پوری نہ اس طرف پوری۔ ماں باپ کے گھر لڑکیوں کی زندگیوں کے کچھ ٹانکے ادھیڑ دو۔

ساری عمر سسرال کو چاٹتی ان کی ٹھوکروں کو سہتی رہیں گی۔ میاں پر آمین پڑھتی رہیں گی۔ گھروں سے ایسے رخصت کرو کہ ڈولی کی بجائے جنازہ لگے پھر جنازہ بھی واپس نہ آئے گا۔ جو بیٹیاں باپ کے گھر لہولہان ہو جائیں ان کو رستوں کے آسیب پھر ڈراتے نہیں۔ راضی باضی سسرال، خوش اور مطمین شوہر۔ نقصان صرف ایک ذات کا۔ ۔ ۔ اک بے نشاں بیکار وجود کا جس کے ہونے نہ ہونے سے کاینات میں کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ زند گی کی بنت میں اس سے بھی کچھ بگڑ گیا تھا کوئی ٹانکا ادھڑ گیا تھا پر اس کو سدھارنے کا اب کوی چارہ نہ تھا۔ اس نے عشق کی نماز پڑھی تھی جس میں سجدہ سہو نہ تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments