کووڈ۔ 19 کے لئے خدمت خلق کے مربوط عالمی نیٹ ورک کی ضرورت


سیلابوں، طوفانوں اورزلزلوں سے پیدا شدہ بحرانوں سے نمٹنے کے لئے ہمیشہ عوامی سطح پر جذبہ خیرسگالی اورخدمت خلق کے عملی اظہار کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے اوراسی طرح کووڈ۔ 19 وبا کے سبب پوری دنیاجس ناقابل بیان بحران کی زد میں ہے، اس سے نمٹنے کے لئے بھی ایسی ہی خیرسگالی کی کہیں زیادہ ضرورت ان دنوں محسوس کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ اس عالمی وبا سے اب تک چالیس لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ تین لاکھ سے زائد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔

اس انٹرنیشنل انٹرکونیکٹڈ فلانتھراپک نیٹ ورک (آئی آئی پی این) اس عالمی وبا کے مقابلہ میں مشترکہ اورفعال منصوبہ بندی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ عالمی وبا کو کنٹرول کرنے، مستقبل میں کسی بھی وبا کو ایسی شکل اختیارکرنے سے روکنے اوردنیا بھر کی اقوام کو عالمی وبا سے نمٹنے اوراس سے پیداشدہ بحرانوں سے نکلنے میں مدد فراہم کی جاسکے۔

آئی آئی پی این کا مقصد بامقصد خدمت خلق ہونا چاہیے اورخیرات کے روایتی تصورسے ہٹ کرمربوط منصوبہ بندی پر بھی مشتمل ہونا چاہیے۔ خیرات یا امداد لوگوں کی ہنگامی ضروریات کو مدنظر رکھ دی جاتی ہے جبکہ بامقصد خدمت خلق کے ذریعہ ہم متاثرین کو درپیش سماجی اورمعاشی مسائل کے خاتمہ کے لئے ہر ممکن حد تک ان کے حالات کی بہتری کے لئے بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔

کووڈ۔ 19 کی عالمی وبا کے دوران دنیا بھرکے مختلف خطوں میں خدمت خلق کی تنظیمیں اپنے اپنے علاقوں میں قابل قدر خدمات انجام دے رہی ہیں جن میں عالمی سطح پر نمایاں دکھائی دینے والی تنظیموں میں مارز انکارپوریٹڈ، دی چھب چیریٹیبل فاؤنڈیشن اورسٹاوروس نیارکوس فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ انفرادی اوراجتماعی طور پر بھی لوگ اورادارے عالمی سطح پر کام کرنے والے ایسے اداروں کی معاونت میں مصروف ہیں اوران اداروں میں ریلیف انٹرنیشنل، یونیسف، انٹرنیشنل میڈیکل کیئر، ہیومینٹی اینڈ انکلوژن اورآکسفام امریکہ شامل ہیں۔ یہ رفاہی کام بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن بدقسمتی سے کووڈ۔ 19 عالمی وبا کے عالمگیر سطح پر تباہ کن اثرات، تمام چھوٹی بڑی قوموں اورخطوں میں صحت، تعلیم اورمعاشی نظام کی اس وبا کے سبب ہونے والی تباہ حالی کے مقابلہ میں یہ چیریٹی انتہائی کم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئی آئی پی این جیسے نیٹ ورک ایسی صورتحال میں انتہائی اہمیت اختیارکرجاتے ہیں۔ یہ ایسی بدتر صورتحال کابہترانداز میں مقابلہ کرنے کی پلاننگ میں مددگارہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق کووڈ۔ 19 کے سبب دنیا بھرمیں کساد بازاری 1930 ء کی عالمی کساد بازاری کے بعد سب سے بڑا بحران بن سکتا ہے۔ یادر ہے کہ 1930 ء میں پیدا ہونے والا بحران ایک عشرہ سے زائد جاری رہا تھا جس میں امریکہ اوردنیا بھرمیں عالمی معیشتیں بیٹھ گئی تھیں اورکروڑوں لوگ معاشی بدحالی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔

آئی آئی پی این ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک باقاعدہ فریم ورک تیارکر سکتی ہے جس کی بنیاد منصوبہ بندی، ازسرنو احیاء اورمالی سپورٹ پر مبنی ہونی چاہیے تاکہ معاشی استحکا م کی بحالی کے لئے تمام فریقین کے مفادات اورانویسٹمنٹ کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھاجاسکے اورعالمی وبا کے اثرات سے اقوام عالم کو نکالنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی پر پیش رفت ممکن بنائی جاسکے۔ قبل ازیں اپنے ایک آرٹیکل میں میں یہ تجویز دے چکا ہوں کہ ہر قوم کو کورونا سے نجات کے لئے مختصرالمیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اپنے نظام صحت کی بہتری اورمعاشی ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا۔

آئی آئی پی این ایسی قابل عمل تجاویز تیارکرکے دنیا بھر میں متاثرہ اقوام کو فراہم کر سکتے ہیں۔ اس معاونت کی پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک اورامریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کو بہرحال ضرورت ہوگی جو اس عالمی وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر متاثر ہورہے ہیں۔ آئی آئی پی این کے ازسرنو احیاء کے منصوبوں سے کورونا وائرس سے بحالی اورنظام صحت میں بہتری ممکن بنائی جاسکے گی اوریہ معاشی نظام کی بہتری کے لئے بھی ممدومعاون ثابت ہوں گے ۔

اس میں کسی بھی قوم کی ترقی میں کلیدی اہمیت کے حامل نکات پر توجہ دینے اوراس پر معاشی پالیسیاں استوار کرکے آگے بڑھنے کی راہ ہموارکی جاسکے گی۔ مثال کے طور پر مستقبل میں کسی بھی خطرناک متعدی بیماری کے مقابلہ میں فوری اورہنگامی بنیادوں پر ویکسین کی تیاری ممکن بنائی جاسکے گی۔ آن لائن لرننگ پروگرامز کے ذریعہ فاصلاتی نظام تعلیم کو زیادہ فروغ دیاجاسکے گا۔ ٹیلی ہیلتھ اورمیڈیکل ٹریٹمنٹ، کونسلنگ اورعلاج معالجہ کے تصور کو عملی شکل دی جاسکے گی۔

آئی آئی پی این کے اس پروگرام کے حتمی نقطعہ مالی معاونت کی فراہمی ہے جس کے لئے اس کے ارکان فنڈریزنگ پلان ترتیب دینے کے علاوہ دیگر مخیر افراد اورتنظیموں کے ساتھ اشتراک کرکے مختلف ممالک کو ترقیاتی ماڈلز پر عملدرآمد میں تعاون فراہم کر سکتے ہیں۔ میرے نزدیک، تاریخی طور پر ان ترقیاتی ماڈلز میں تعلیم، ثقافت، شہری سہولیات اورعالمی میل جول کے مواقع شامل ہونے چاہئیں۔ موجودہ عالمی بحران کے تناظرمیں کئی مزید شعبے ایسے ہیں جنہیں اس فہرست میں شامل جا سکتاہے۔

آئی آئی پی این کا آئیڈیا اگرچہ ابھی دورکی کوڑی لانے کے برابر ہے لیکن اس پر عملی پیش رفت پہلے سے موجود بھی ہے۔ اس وقت 23 ممالک میں تقریباً دوہزار سے زائد افراد، جوڑے اورخاندان اپنی آدھی سے زائد دولت اس مقصد کے لئے عطیہ کرنے کے لئے تیارہیں جن میں بل اینڈ میلنڈا گیٹس، راک فیلیر فاؤنڈیشن جیسے بڑے ڈونرز بھی شامل ہیں جو تعلیم وتربیت کے بہتر مواقع کی فراہمی، نظام صحت کی بہتری اورزیادہ معاشی مواقع کی فراہمی کے ذریعہ لاکھوں لوگوں کی زندگی بدلنے کے لئے عملی طور پر برسرپیکارہیں۔

کووڈ۔ 19 عالمی وبا دنیا بھرکی اقوام کے لئے صحت اورخاص طور پر معاشی لحاظ سے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے اوراگر صرف حکومت پاکستان کی ماہ اپریل کے اوائل میں جاری رپورٹ کو دیکھاجائے تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کی معیشت کو 2.5 ٹریلین روپے کا نقصان ہوچکا تھا۔

اس تناظر میں اقوام عالم کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے جو حیرت زدہ کردینے والا ہوگا۔ اس عظیم نقصان کو پورا کرنے کی بنیادی ذمہ داری تو حکومتوں پر عائد ہوگی اوراس ضمن میں وہ تنہاء نہیں ہونی چاہئیں اورانکی بامقصد معاونت کی نہ صرف ضرورت ہوگی بلکہ آئی آئی پی این کو اس معاونت میں ان کا اتحادی بننے کی ضرورت ہوگی۔ حال ہی میں ایک افطار کی تقریب میں اظہارخیال کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ پورے ماہ رمضان کے دوران ہم سحری سے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں تاکہ اپنا ایمان تازہ کرسکیں اوراپنے اعمال کو یکسو کرکے معاشرے میں بہتری لاسکیں اوراس سے بڑھ کر ضرورتمندوں کے کام آسکیں۔

کورونا بحران کے اس تکلیف دہ وقت میں مالی حیثیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم سب کے ایمان کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ ہم سب سے پہلے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں اورتجدید عہد کریں کیونکہ پاکستان کو بھی ایسی ایمان افروز قیادت کی ضرورت ہے اوراس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کو بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments