جماعت اسلامی کے ایک پڑھے لکھے دانشور کا المیہ!


محترم شاہ نواز فاروقی۔۔۔ جماعت اسلامی کے پڑھے لکھے افراد میں شمار ہوتے ہیں اور جماعت کے آرگن روزنامہ جسارت میں کالم لکھتے ہیں۔ ان سے میرا غائبانہ تعارف ہے اور میں ان کی مختلف وڈیوز دیکھتی رہتی ہوں اسی لئے مجھے ان کی فکر سے کچھ آگہی ہے بالخصوص ان کی سر سید احمد خان پر تنقید اورتحریک علی گڑھ کے منفی نتائج۔ موصوف کا ایک حالیہ کالم روزنامہ جسارت میں مورخہ17 مئی 2020ء کو شائع ہوا ہے (https://www.jasarat.com/2020/05/17/200517-03-7/) جس میں انہوں نے روزنامہ ڈان میں مس نکہت ستار کے کالم کا جواب دیا ہے جس کا عنوان تھا۔۔۔ جہاد اور اجتہاد۔ (شائع شدہ یکم مئی 2020ء)۔ شاہ نواز فاروقی کی تحریر غالباً ان کے محبوب حلقوں میں شاہکار شمار کی جائے اور کلمہ حق تصور ہو لیکن اس میں جو نکات اٹھائے گئے ہیں وہ تاریخ اسلامی سے متصادم اور مزید تفصیل چاہتے ہیں۔ مثلاً

1۔ ان کا کہنا ہے مس نکہت ستار کا روزنامہ ڈان میں مضمون۔ جہاد برائے اجتہاد۔۔۔ اسلام کو ’مشرف بہ مغرب‘ کرنے کی کوشش ہے۔ اپنے مضمون کی ابتداء انہوں نے لبرل و سیکولر افراد کی دو قسمیں بتا کر کی ہے۔ ان کی دانست میں ان دو میں سب سے زیادہ خطرناک لوگ وہ ہیں جو اسلام کو۔۔۔ مشرف بہ مغرب۔۔۔ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں

2۔ ان کے مضمون کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے۔ ۔ ۔ جہاد ”اقدامی“ بھی ہوتا ہے صرف ”دفاعی“ ہی نہیں۔ اپنی فکر کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انہوں نے قرآن و حدیث سے دلیلیں بھی پیش کی ہیں اور اسی پر ہم تفصیل سے تجزیہ کریں گے۔

3۔ ایک اور اہم نکتہ پر اعتراض کرتے وہ لکھتے ہیں۔ اجتہاد کیا ہے اور نکہت ستار یا مغرب زدہ طبقہ کیسے اسے استعمال کرکے دین اسلام کا حلیہ بگاڑنا چاہتا ہے ’یہ ہے سب سے خطرناک رجحان”۔

4۔ باقی عمومی باتوں جیسے روزنامہ ڈان۔ ۔ ۔ طالبان کے دفاعی جہاد کے خلاف ہے اور اس پر مختلف کارٹون شائع کرکے ان کا مذاق اڑاتا ہے ’اس پر انہوں نے اشارہ کیا ہے‘ ان کے اعتراضات پر ہم مجموعی طور پر گفتگو کریں گے۔

اس گفتگو کو پڑھنے سے پہلے اتنا جان لیں نہ ہی میں نکہت ستار کو جانتی ہوں ’نہ ان کے کالم پڑھتی رہی ہوں اور نہ ہی میرا روزنامہ ڈان سے کوئی تعلق ہے۔ میری یہ گزارشات صرف شاہ نواز فاروقی صاحب کے مضمون‘ ان کی اسلامی دلیلوں اور ان کے فہم اسلام تک محدود ہیں اور جس چیز کو میں۔۔۔ اپنی دانست میں۔۔۔ غلط سمجھتی ہوں اس پر بے لاگ تبصرہ کر رہی ہوں!

اول۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں۔۔۔ لبرل و سیکولر وہ کون لوگ ہیں جو اسلام کو ’مشرف بہ مغرب‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عام معروف معنوں میں۔۔۔ جماعت اسلامی یا مذہبی طبقے کے نزدیک ہر وہ شخص لبرل یا سیکیولر ہے جو مذہب کی سیاسی امور سے علیحدگی کا قائل ہو۔ درست۔۔۔ یہ بات قابل تسلیم مگر یہ کہہ دینے یا سمجھنے سے کوئی مسلمان دائرہ اسلام سے باہر چلاجاتا ہے یا اسلام کا دشمن بن جاتا ہے ’یہی نتیجہ ہے جو فاروقی صاحب اخذ کر رہے ہیں۔

یہ کہتے ہوئے غالباً وہ بھول گئے ہندوستان میں تمام کے تمام علماء۔۔۔ مولانا حسین احمد مدنی سے لے کر آج تک کے علماء سیکولرازم کے کٹر حامی رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے۔۔۔ وہ مذہب کے سیاست میں داخلے کے سخت مخالف ہیں جس کی وجوہات ظاہر ہیں۔ ہندو مت چونکہ ہندوستان میں اکثریتی مذہب ہے اس لئے ہندو اسٹیٹ کا تصور ہندوستان کے کٹر مسلمانوں کو قابل قبول نہیں۔ بالکل ٹھیک۔۔۔ لیکن یہ سوچ رکھنے پر فاروقی صاحب ہندوستانی مسلمانوں اور کٹر دیوبندی علماء کو کس درجے میں رکھیں گے اس کو سمجھنے کے لئے کسی علم نجوم کی ضرورت نہیں۔ یہاں ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے۔۔۔ ہندومت یا دوسرے مذاہب کا داخلہ تو سیاست میں ہر گز نہیں ہونا چاہیے مگر جب بات اسلام اور مسلمان ملک کی ہو تو یہی مستحسن عمل۔۔۔ شجر ممنوعہ بن جاتا ہے‘ اس پر فاروقی صاحب اور ان جیسے مفکرین کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔

یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا آئیں اصل موضوع کی طرف۔ ۔ ۔ فاروقی صاحب کی دانست میں وہ مسلمان (نام نہاد مسلمان) جو اسلام کی تشریح۔ ۔ ۔ ایسے کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طور پر اسلام کو ”مشرف بہ مغرب“ کریں وہ زیادہ دشمن اسلام ہیں ’ان کا شر چھپا ہوا ہے وہ زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ پہلے یہ سمجھتے ہیں یہ اصطلاح۔۔۔ اسلام کو مشرف بہ مغرب کرناہے کیا بلا؟ اس کی تعریف و مثال وہ خود ہی پیش کرتے ہیں‘ کہتے ہیں نکہت ستار کا مضمون جس میں انہوں نے جہاد کو دفاعی بتایا ہے ’یہ اسلام کو مشرف بہ مغرب کرنے کی کوشش ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments