اجتماعی مدافعت؛ انسان ریوڑ نہیں


وبا کے نقطہ عروج پر پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔ بیماری کے پھیلاؤ پر کئی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی عوامل وبا کے جلد یا بدیر، آنے والے عروج کا فیصلہ کرتے ہیں۔ چونکہ ابھی تو اس موذی کورونا وائرس سے حضرت انسان کی واقفیت نئی ہے۔ اسی لئے اس کے ناز و انداز کی زیادہ سمجھ بھی نہیں۔ وبائی امراض کے حوالے سے کئی عالمی ادارے بشمول عالمی ادارہ صحت مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہر ملک میں وبا کے بدلتے تیور اور مقابلہ کے حوالے سے ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں فروری کے آخر میں ابتدائی مریض سامنے آئے تو خوف کی فضا قائم ہوگئی۔ قیادت نے لاک ڈاؤن کا اعلان تو کر دیا، لیکن تذبذب اور سیاسی نورا کشتی جاری رہی۔ ہفتوں کے حساب سے بڑھتا لاک ڈاؤن دو ماہ تک جاری رہا۔ قیادت کی غیر سنجیدگی پھر اہل وطن کے روایتی تجسس اور مہم جوئی نے لاک ڈاؤن کو مذاق بنا کر رکھ دیا۔ پھر ہم پاکستانیوں کو تو ہر مسئلہ میں فوراً نتائج چاہیے ہوتے ہیں۔ جبکہ کورونا کی سست رفتار اور نالائقی نے صورتحال کو تھوڑا مشکوک بنا دیا۔

بند کاروبار، میسر فرصت اور کورونا کی مشکوک اداؤں نے موقع فراہم کیا۔ اور قوم نے کون، کب، کیا اور کیسے ہونے والی ”کورونا سازش“ کی کھوج لگا ڈالی۔ اس حوالے سے بزرگوں اور سیانوں سے تبادلہ خیال بھی ہوا۔ کورونا کے مریضوں کے متعلق پوچھ تاچھ بھی چلتی رہی۔ آخر کورونا کی نا اہلی اور پھیلاؤ سے متعلق دستیاب ناکافی شہادتوں سے اجتماعی فیصلہ یہی سامنے آیا، کہ میڈیا جھوٹ بول رہا ہے، حکومت پیسے اکٹھے کرنے اور قرض معاف کروانے کے چکر میں ہے، جبکہ ڈاکٹرز سیاسی ایجنڈا کے تحت شور ڈال رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے ان ایام میں مندرجہ نقاط پر محمود و ایاز بلا تفریق متفق ہوچکے ہیں۔

نوبت تو یہاں تک پہنچی کہ اعلیٰ عدالت میں وبا پر ازخود نوٹس کیس میں وفاقی وزیر صحت کی طرف سے رپورٹ پیش ہوئی۔ جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ پولن الرجی کورونا وائرس سے بڑا مرض ہے۔ پھر جب سماعت کے لیے لارجر بینچ کی کارروائی سامنے آئی۔ تو لاک ڈاؤن شخصی آزادی پہ قدغن ہونے اور کورونا کے وبا نہ ہونے کا ”امید افزا“ پیغام قوم کے سامنے آیا۔

یہ تو بھلا ہو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل کے چیئرمین جنرل صاحب کا جنہوں نے اگلے ہی روز اعلیٰ عدلیہ کے روبرو پیش ہو کر کامیاب بریفنگ سے جج صاحبان کو یقین دلایا کہ واقعی کورونا وبا ہمارے ملک میں موجود ہے اور پولن الرجی سے زیادہ خطرناک بھی ہے۔ اس سے پیشتر مختلف مذہبی اور سماجی رہنماؤں کو یقین دلانے کے لیے ایس ایچ او صاحبان نے بھی کامیاب بریفنگز کا اہتمام کیا۔ جن میں کامیابی کا تناسب سو فیصد رہا۔

لیکن کیا کیجئے کہ دس/ پندرہ فیصد قومی اجتہاد سے منکر وہمی افراد کو نکال کر باقی کروڑوں لوگوں کے لئے اعلیٰ افسران کی فرداً فرداً بریفنگ ممکن نہیں۔ اس لئے خبر ہے کہ وبا کے حوالے سے اٹھ جانے والے یقین کو واپس لانے کے لئے بیماری کو گھر گھر پہنچانے کی سکیم متعارف کروا دی گئی۔

سائنس کی زبان میں یہ حرکت ریوڑ کی اجتماعی مدافعت (HERD IMMUNITY) کہلاتی ہے۔ بھیڑوں کی پرورش کے صدیوں پہ محیط انسانی تجربے کے مطابق کسی نئی بیماری کا شکار ہونے والی بھیڑ کو اگر علیحدہ رکھا جاتا تو مردہ بھیڑ کا منہ دیکھنا پڑتا۔ اور اگر بیمار بھیڑ کو ریوڑ کے ساتھ رکھا جاتا تو آہستہ آہستہ ساری بھیڑیں اس مرض کا شکار ہو کر بیماری کے خلاف اجتماعی مدافعت حاصل کر لیتیں۔ بس سو میں سے ایک بھیڑ کم ہو جاتی۔

اعلیٰ سطحی حکومتی اجلاسوں کی سطحیت سے تو اکثریت واقف ہی ہے۔ اس لئے حیران ہونے کی ضرورت نہیں نہیں۔ کہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں اجتماعی مدافعت کی تجویز منظور کرتے ہوئے، مرحلہ وار لاک ڈاؤن کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس عمل میں مجموعی قومی مزاج کے عین مطابق، بیماری سے متعلق ڈاکٹرز کے علاوہ سب کے مشورہ کو مقدم رکھا گیا۔

اس غیر علانیہ پالیسی میں ویکسین کی عدم دستیابی، 70 فیصد آبادی کا مرض میں مبتلا ہونا اور اس کا عمل لمبے عرصہ میں مکمل ہونا یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ اب تک سخت ترین احتیاطی تدابیر کے ساتھ اجتماعی مدافعت کا عمل اپنانے والا واحد ملک سویڈن ہے۔ جہاں شرح اموات دیگر پڑوسی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔

لاک ڈاؤن کے بعد احتیاطی تدابیر سے متعلق ہمارا مجموعی رویہ، صحت کی مخدوش سہولیات، وبا کا وسیع پھیلاؤ اور دنیا کا ہمارے متعلق ردعمل اس خطرناک کھیل کا انجام سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ جب سو میں سے دس شدید مریض اور ایک شخص کی موت کے حساب سے۔ اجتماعی تدفین جا تصور ہی ممکن نہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر، آئرش ڈاکٹر مائیکل جے رائن نے کچھ روز قبل جنیوا میں ایک پریس بریفنگ کے دوران غصے سے کہا تھا ”انسان ریوڑ نہیں ہے، جب ہم انسانوں میں قدرتی آفات کی بات کریں تو ہمیں حد درجہ محتاط ہونا چاہیے، کیونکہ اجتماعی مدافعت ایک ایسی وحشیانہ مساوات کو جنم دے سکتی ہے جس میں، انسان، زندگی اور تکلیف کو نظر انداز کیا جائے۔ ویکسین کے بغیر اجتماعی مدافعت کا تصور ہی ممکن نہیں۔“

کاش ریاست اور ہم عوام ایک دفعہ سازشوں کو چھوڑ کر سوچیں، کہ ہم خود اپنے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ کیا اجتماعی مدافعت کے نام پہ بنیادی حق زندگی چھوڑنا سستا سودا ہے؟ اور اگر کورونا واقعتاً سازش ہے تو ہم اس سازش کی کامیابی کیوں چاہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments