فیس بکی دانشور بنئے



ویسے کہنے کو تو یہ فیس بک ہے مگر یہاں بہت کم لوگ آپ کو آپ کے چہرے سے جانتے ہیں۔ اس لئے گھبرائیے نہیں، اگر آپ کی شکل سلطان راہی مرحوم جیسی بھی ہے تو فکر نا کریں، بس انٹرنیٹ سے کسی دانشور دکھتے انسان کی پکچر اٹھائیں اور اپنی ڈی پی بنا لیں۔ اس سوشل میڈیائی دنیا میں اس کا چلن عام ہے۔ اور اگر آپ نے ہزاروں لائک سمیٹنے ہیں، اور چاہتے ہیں کے لوگ صبح اٹھ کر آپ کے ”اٹس بریک فاسٹ ٹائم گائز“ یا ”ہاؤ از مائی مارننگ لک؟“ ٹائپ کے سٹیٹس کا انتظار کیا کریں، تو کسی بھی خوبصورت خاتون کی پکچر لگا لیں (یا نا بھی لگائیں، بس زنانہ نام ہی کافی ہے ) تو دیکھئے دن بہ دن آپ لوگوں میں کیسے مقبول ہوتے ہیں۔ لوگ آپ کے ابلے ہوئے انڈے اور سڑے ہوئے ٹوسٹ پر بھی واؤ یمی، مائی فیورٹ اور گریٹ چوائس میم جیسے کمنٹ کریں گے۔ اب آپ کو چاہیے ایک عدد انٹرنیٹ کنیکشن اورایک عدد سمارٹ فون، اور آپ دانشور بننے کی جانب پہلا قدم اٹھا چکے ہیں۔

اگلا کام آپ نے یہ کرنا ہے کہ اپنے بائیو میں دنیا جہاں کی ڈگریاں اور جگہ جگہ کام کرنے کا تجربہ لکھ ماریں۔ فکر نا کریں اس دنیا میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ جا کر تصدیق کرتا پھرے کہ ڈگری اصلی ہے یا نقلی اور یہ ادارہ جہاں کے آپ سی ای او، جنرل مینیجر یا ڈایئریکٹر ہیں، یہ آپ کے فون کے باہر وجود بھی رکھتا ہے کہ نہیں۔ اگر آپ مرد ہیں تو ڈاکٹر یا انجینئر پروفائل میں لکھنا کافی سود مند رہے گا اور لوگ آپ کی بات پر جلدی یقین کر لیں گے۔ اگر آپ خاتون ہیں تو بس یہی کافی ہے کہ آپ خاتون ہیں۔ لوگ آپ کی کہی بات کی گواہی یوں دیں گے جیسے آپ کو برسوں سے جانتے ہیں۔ بس آپ کو کمنٹس میں انگریزی میں ”تھینکس“ لکھنے کے سپیلنگ یاد کرنے ہیں۔

بس تھوڑا سا صبر اور۔ آپ دانشور بننے کے پہلے مرحلے کی انویسٹمنٹ سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی شکل میں کر چکے ہیں اب بس آپ کو سمارٹ کھیلنا ہے۔ فیس بک پر تھوک کے حساب سے لوگوں کو فرینڈ ریکوسٹ بھیجیں۔ فیس بک کے الگورتھم کے مطابق آپ کو تھوک کے حساب سے ہی جوابی ریکوسٹ موصول ہوں گی۔ آپ نے سب قبول کرتے جانا ہے تاکہ آپ کے فالورز بڑھیں اور آپ کی دانش کا چرچا چار دانگ عالم میں ہو۔ اس فرینڈشپ کے عمل کے دوران آپ نے مختلف پیجز لائک کرتے جانا ہے : جیسے اقوال زریں، بیسٹ کوٹس، گولڈن ورڈز یا کامیابی کے نسخے وغیرہ، اور گاہے بگاہے فلسفیانہ ٹائپ کے اقوال اپنی وال پر شئر کرتے جانا ہے۔ یاد رکھئے اب آپ دانشور بننے کے دو کٹھن مراحل سے گزر کر تیسرے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔

اگلے مرحلے میں آپ نے بہت سے ایسے پیجز کو لائک کرنا ہے جن میں صبح بخیر (کسی بہتے جھرنے کے ساتھ) دعائیہ میسجز (مذہبی مقامات کی بیک گراونڈ کے ساتھ) اور دینی کلمات روز ملتے ہوں۔ گھبرائیے نہیں، یہ تو آپ کے فالورز کی صرف صبح کی ڈوز ہے۔ ان کو دوپہر اور شام کی ڈوز دینے کے لئے آپ کو کچھ پیچیدہ پیجز لائک کرنا ہوں گے : جیسے اکانومسٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، گلوبل وارمنگ وغیرہ۔ اگر یہ آپ کی اوقات سے باہر ہوں اور ایک لفظ بھی آپ کے پلے نہیں پڑ رہا تو اپنی فرینڈ لسٹ میں موجود سچی مچی کے دانشوروں کی لکھی باتیں اور ویڈیوز، بلا اجازت دھڑلے سے کاپی کر کے اپنی وال پر پیسٹ کر لیں۔

اتنے ثقیل الفاظ کاپی کرنا اور پھر یہ خیال رکھنا کہ کوئی زیر زبر پیسٹ ہونے سے نا رہ جائے، بلا شبہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ اور اس پر مستزاد اگر کوئی آپ کی شئر یا کاپی کی ہوئی پوسٹ پر بیہودہ سا منطقی سوال پوچھ لے تو بالکل نہیں گبھرانا۔ آپ نے اپنی دانش کے موتی بکھیر دیے ہیں جس کو چنناہیں چن لے۔ آپ کے فالورز میں سے کوئی نا کوئی، ان ناہنجار دلائل مانگنے والوں سے نپٹ لے گا آپ فکر نا کریں۔

اگلے مرحلے میں آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ایک ہی پروڈکٹ پر انحصار کرنا ہے یا اپنا پورٹ فولیو ڈائیورسیفائیڈ رکھنا ہے۔ زیادہ تر فیس بکی دانشور ڈائیورسیفائیڈ پورٹ فولیو رکھنا پسند کرتے ہیں اس لئے آپ بھی مذہبی پیجزاور سیاسی پیجز لائک کر سکتے ہیں، بلکہ ایک قدم آگے جاتے ہوئے لطائف اور میمز والے پیجز کا تڑکا بھی لگا ہی چھوڑیں تاکہ بوقت ضرورت ہر قسم کا اسلحہ آپ کی آرٹلری میں تیار رہے۔ مثلاً رمضان میں مذہبی پیجز کام آئیں گے اور آپ کی آڈئینس آپ کو ایک متقی اور پرہیز گار شخص کے روپ میں دیکھے گی۔

وبا کے موسم میں آپ کے پاس بیماری سے بچنے کے نسخوں سے لے کر دم سے شفایاب ہونے والوں کے انٹرویو تک ہونے چاہئیں جنہیں آپ بوقت ضرورت ریلیز کر کے اپنی طبی اور سائنسی اہلیت کا لوہا منوا سکیں۔ حالات نارمل ہوں تو لطیفے اور میمز شئر کر کے لوگوں میں اپنا سافٹ امیج ابھاریں۔ بس کوشش کریں کہ اپنے الفاظ کا استعمال کم سے کم کریں اور زیادہ انحصار شیئر اور کاپی پر ہی کریں مبادا آپ کی دانشوری کا پردہ کھل جائے۔

اب آپ سکہ بند فیس بکی دانشور بن چکے ہیں وہ بھی فلی لوڈڈ یعنی کہ تمام لوازمات کے ساتھ۔ آپ کے ہزاروں فالورز ہیں۔ اب آپ اپنا حلقہ عقیدت انسٹا گرام اور ٹویٹرتک بھی بڑھا سکتے ہیں۔ بلکہ اگر کام بڑھ گیا ہو تو کسی ایم اے پاس بیکار لونڈے کو اپنا اکاؤنٹ ہینڈل کرنے کے لئے رکھ لیں۔ وہ دن دور نہیں جب آپ کی شہرت اور خیالات سے متاثر ہو کر آپ کو کسی مارننگ شو میں انوائیٹ کیا جائے گا اور کیا بعید وہاں آپ سے کوئی سپر ہٹ پرفارمنس سر زد ہو جائے یا کوئی جملہ ہٹ ہو جائے تو آپ فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے ایک موٹیویشنل سپیکر بھی بن سکتے ہیں اور وہ کام جو آپ نے تھوڑی سی انویسٹمنٹ سے شروع کیا تھا، آپ پر دھن بھی برسانے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments