جندر: داستان گوئی کی تجدید


میں داستان گوئی کو متروک صنف سمجھ چکی تھی۔ مگر کبھی کبھی دل میں اُس کی یاد تازہ کرنے کے لئے ”ناپا “یا ”آرٹس کونسل“ میں داستان گوئی کے کسی پروگرام پر پہنچ جاتی جہاں سفید لبادوں میں ملبوس داستان گو اسٹیج پر بچھی چاندنی پر بیٹھ کر عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے بغیر ہی رٹی رٹائی داستان سناتے چلے جاتے تھے۔ یہ مُٹھی بھر لوگ تھے جو پاک و ہند میں داستان گوئی کے احیاءپر کام کر رہے تھے۔ اس مجمعے میں کچھ لوگ تو کہانی سنتے سنتے اونگھ جاتے جو محض دل پشوری کی خاطر یہاں آیا کرتے تھے۔ جبکہ مجھ جیسے کچھ لوگ کسی رقّت آمیز سین پر تالیاں بھی بجادیتے۔ مگر یہ داستان گو میری تسکین کے لئے ناکافی ثابت ہورہے تھے۔ کہانی میرے وجود کا حصہ نہ بن پاتی تھی اور میں اُس کے کسی بھی کردار کی صورت خود کو تصور کرپانے میں قاصر ہی رہی۔ یہ کشمکش ابھی جاری تھی کہ میری میز پر ایک ناول نے دستک دی۔ کچھ دن اُس سے آشنائی پیدا کرنے کی غرض سے میں نے اُسے اپنے سرہانے جگہ دی اور پھر ایک رات کروٹیں بدلتے بدلتے ناول کھول ہی لیا۔۔۔ پلک جھپکے بغیر صفحے نکلتے جا رہے تھے۔۔۔ شاید میری پیاس کو تسکین مل گئی تھی۔۔۔ مجھے داستان گو مل گیا تھا۔۔۔

اس داستان گو نے مجھے دیکھے بغیر میری نبض تھام لی تھی۔ وہ خوب جانتا تھا کہ مجھے کیا سننا ہے! مگر اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ اُسے کیا سنانا ہے! اُس نے میری انگلی پکڑی اور مجھے اُس ندی میں لے گھوما جس پر چلنے والے جندر کی کہانی اُس نے مجھے سنانا تھی۔ اکیسویں صدی کی سمارٹ دہائی میں ہوش سنبھالنے کے کارن مجھے دیر تک پتہ ہی نہ چل سکا کہ جس جندر کی وہ بات کر رہا ہے، وہ ہے کون! مجھے تو وہ ایک جیتا جاگتا کردار محسوس ہوا، جو جندروئی ولی خاں کی زندگی کا ضامن تھا۔ جس کی کھلتی سانسوں کو دیکھ کر ولی خاں سکون کی نیند سوسکتا تھا۔ داستان گوئی کے اعلیٰ اوصاف کو استعمال کرتے ہوئے اختر رضا سلیمی نے اس جندر سے میرا تعارف نہیں کرایا بلکہ دوستی ہی کرا دی۔ اور اُسے میرے سامنے مجسم کردار کی صورت لاکھڑا کیا۔ اُس نے مجھے اس ندی کے اردگرد اُگے ہوئے کاہو کے درخت دکھائے، ڈاک ٹیلا دکھایا، جندر کے ساتھ والی پرانی سڑک دکھائی، اردگرد کھیتوں میں لیتری کا عمل دکھایا، داستان کے مافوق الفطرت عناصر کو پورا کرنے کے لئے اودھ بلاﺅ، بجّو اور گھوڑی ڈینچ کے نام میرے ذہن میں ڈال دیئے۔ میں اُس کی بے چین طبیعت کے ساتھ چلتی رہی اور پھر وہ میرا ہاتھ تھام کر مجھے ”جندر“ پر لے آیا تو میں نے دیکھا کہ یہ تو پن بجلی سے چلنے والے پتھر کے دو پاٹ ہیں، جو کسی وقت پورے گاﺅں کا آٹا پیسنے کے کام آتے تھے۔ مگر اب تیز نظام زندگی اس پر بھی اپنا اثر دکھا چکا تھا۔ جندر پر پسنے والی چُونگیں ختم ہو چکی تھیں اور اُس کی ”کوک“ ”ہوک“ میں بدل رہی تھی۔ مجھے جندر اور جندروئی کی دھڑکنیں ایک ساتھ چلتی محسوس ہوئیں۔ مگر یہ تو اکھڑی اکھڑی سانسیں تھیں۔ وہ مجھے شاید ادھر لایا ہی اسی لئے تھا کہ میں ان دونوں کے وجود کو کچھ مزید سانسیں دے سکوں۔ مگر میرے بس میں رہ ہی کیا گیا تھا۔ ہاں ! میں جندر اور جندروہی تہذیب کو ایک شاندار اختتام تو دے سکتی تھی۔

اُس نے مجھ پر جندر کی سریلی کوک کی افادیت کچھ یوں ظاہر کی کہ اگر بُدھا کو یہ کوک نصیب ہوتی، جیسی اُسے مطالعہ کرتے ہوئے ملتی تھی تو وہ جلد نروان پالیتے۔ کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ بُدھا مجھے ہمیشہ متاثر کرتا رہا ہے۔ اس داستان گو نے میرے لئے جندروئی کو اردو ادب اور روسی ادب پڑھایا۔ میں نے بھی تو یہی پڑھ رکھا تھا۔ وگرنہ وہ جندروئی کو لوک ادب، مقامی ہندکو شاعری یا صوفیانہ ادب بھی تو پیش کرسکتا تھا۔ اس داستان گو ”اختر رضا سلیمی“ نے میری ذہنی اُپج کو بھانپتے ہوئے مجھے ایسے کہانی سنائی کہ جندر کی ہوک مجھے اپنے وجود سے اٹھتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ دھیرے دھیرے اُس نے میری نبض پر ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے خدا اور موت پر بحث شروع کردی۔ کیونکہ اُسے معلوم تھاکہ میں اُس کی ہر بات سننے کے لئے تیار ہوچکی ہوں۔ بستر مرگ پر شروع ہونے والی اس کہانی نے مجھے ذرا بھٹکنے نہیں دیا۔ مجھے اس بات کا یقین تو تھاکہ جندروئی ولی خاں کے مرنے کے بعد پہلا شخص جلد ہی جندر پر آئے گا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ مگر جب اُس نے میری آنکھوں میں اُس کی لاش کی ڈی کمپوزیشن کا منظر بھرنا شروع کیاتو مجھے نہ جانے کیوں اس پر یقین آگیا۔ مجھے ایسا لگاکہ ولی خاں بھی اس جندر پر آٹا پیستے پیستے نروان پاچکا تھا، جس کے بعد اُسے اپنی بیوی، بیٹے اور دوسرے عزیز و اقارب کی ضرورت ہی نہ رہی تھی۔ اختر رضا سلیمی نے مجھے جندر اور جندروئی کی صورت اس کہانی کے دو مرکزی کردار مرتے ہوئے دکھائے، جن کی موت ایک پوری تہذیب کا اٹھ جانا تھا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے سے ایسی محبت کی کہ دنیا سے بھی ایک ساتھ گئے۔ مگر میرے اس داستان گو کی کہانی میں امر ہوگئے اور تہذیب انہدام کا شکار ہوتے ہوتے لفظوں میں محفوظ ہوگئی۔

جندر کی جگہ چکّی نے ایسے ہی لے لی، جیسے داستان کی جگہ ناول نے۔ جہاں تھریشر، ٹریکٹر کی صورت افسانہ، مائیکرو فکشن ہمارے سامنے ہے۔ یہ ناول نہ صرف جندروئی تہذیب کی ایک اہم دستاویز ہے بلکہ اس نے ہم سب پر ایک بات عیاں کردی ہے کہ اب تجریدیت، علامت اور مشکل پسندی کے فائرنگ سکواڈ سے نبرد آزما ہوتے ہوئے خواص سے نکل کر کہانی کو عام آدمی کی سطح پر آنا ہوگا۔ کیونکہ کہانی تو ہر انسان کے ذہن کی بنیادی غذائی ضرورت ہے، یہ جتنا عوام سے دور ہوئی، اُس کا نتیجہ ہم نے اخلاقی پستی کی صورت میں پچھلے عشروں میں بھگت لیا۔ مجھے اب کہانی سانس لیتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔۔۔”جندر “ کا پڑاﺅ داستان گوئی کے اس فن میں تجدید ِنو کی حیثیت رکھتا ہے جس کے مجدد اختر رضا سلیمی ہیں۔ اگلے کچھ برسوں میں اگر کہانی کو گھٹن سے نکالنے والے مزید ایسے کہانی کار میسر آگئے تو مجھے یقین ہے کہ داستان گوئی کا فن پھر زندہ ہوگا۔ نئے انداز سے، نئے سلیقے سے، نئی چال چلتے ہوئے اور ”جندر “ کا شمار اس تجدید کے پیش اماموں میں ضرور کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments