چینی فارنزک رپورٹ: شہباز شریف نے اصل قصوروار عمران خان کو قرار دے دیا، جہانگیر ترین کی الزمات کی تردید


پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے جمعرات کے روز حکومت کی طرف سے جاری ہونے والی چینی فارنزک رپورٹ پر اپنے رد عمل میں کہا کہ اس تمام معاملے میں اصل قصوروار وزیراعظم عمران خان ہیں اور یہ رپورٹ اصل میں ’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہے۔‘

شہبار شریف نے کہا کہ کارروائی تو وزیراعظم کے خلاف ہونی چاہیے کیونکہ ایکسپورٹ کی اجازت کا فیصلہ انھوں نے کیا اور وہ ان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جنھوں نے اس فیصلہ کی رو سے چینی برآمد کی۔

دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما اور عمران خان کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والی کاروباری شخصیت جہانگیر ترین نے چینی فارنزک رپورٹ میں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو ناانصافی کہا۔

سما ٹی وی پر اپنے رد عمل میں انھوں نے کہا کہ چینی کی برآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ وہ بنیاد ہے کہ جس سے باقی تمام چیزیں خراب ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیے:

چینی فارنزک رپورٹ: ’ترین، زرداری، شریف خاندان سمیت چھ بڑے گروپس نے فراڈ اور ہیرا پھیری کی‘

چینی اور آٹا بحران رپورٹ: اہم حکومتی اور سیاسی شخصیات ذمہ دار قرار

چینی بحران کی تحقیقات میں معطل ہونے والے ایف آئی اے کے افسر سجاد باجوہ کون ہیں؟

پاکستان میں جیو ٹی وی کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں میزبان حامد میر نے شہباز شریف سے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اپنی ہی جماعت کے انتہائی اہم ارکان کے خلاف رپورٹ منظر عام پر لانے کے فیصلے کے بارے میں رد عمل جاننا چاہا تو شہباز شریف نے کہا ’وہ (عمران خان) تو خود اس میں ملوث ہیں۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم نے ’اپنے پیاروں کو خوش کیا اور جب شور مچا اور پوری دنیا بلکا اٹھی تو پھر مرتا کیا نہ کرتا یہیں کرنا تھا اور کیا کرنا تھا۔‘

شہباز شریف

شہباز شریف نے کہا کہ یہ معاملہ سبسڈی کا نہیں جو کہ ماضی میں بھی ان کی اپنی حکومت سمیت مختلف حکومتیں گندم اور شوگر کے اوپر دیتی رہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایکسپورٹ کے اوپر سبسڈی دینا اور زرمبادلہ کمانا تو بہت اچھی بات ہے۔

لیکن انھوں نے کہا کہ سبسڈی دینے کی کچھ بنیادی شرائط ہیں کہ آپ کے پاس وہ چیز اپنی ملکی ضرورت سے زیادہ موجود ہونی چاہیے اور اس کے علاوہ اگر عالمی منڈی دباؤ میں ہو تو حکومتیں سبسڈی دیتی ہیں تاکہ برآمد کرنے والوں کا نقصان پورا کیا جا سکے۔

شہباز شریف نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ سنہ 2018 کے بعد جس وقت کی وزیراعظم تحقیق کروا رہے ہیں، اس سال تو گنے کی پیداوار یا شوگر اپنی ضرورت سے زیادہ مقدار میں موجود نھیں تھی بلکہ ملک کی ضرورت بہت مشکل سے پوری ہو رہی تھی۔

انھوں نے کہا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں، جس کی سربراہی کئی بار وزیر اعظم کی جگہ وزیر خزانہ کرتے ہیں اور اس بار اسد عمر نے کی، ملک سے لاکھوں ٹن شوگر برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ چینی کو ایکسپورٹ کرنے کے خلاف تنبیہ بھی کر چکے تھے کہ ہمارے پاس تو اپنی ضرورت کی چینی نہیں ہے تو ایکسپورٹ کہا سے کریں گ لیکن پھر بھی یہ فیصلہ کیا گیا۔

چینی بحران

قائد حزب اختلاف نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ چاہے وہ چینی کی برآمد کا ہے یا چاہے گندم کا، وزیراعظم عمران خان نے اپنے کھلی ہوئی آنکھوں اور کانوں سے اور پورے ہوش و حواس کے ساتھ کیا۔‘

شہباز شریف نے جہانگیر ترین اور مونس الہی کے خلاف کارروائی کے حکم کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بات کسی فرد کی نھیں بلکہ حکومت کے ’کریمنل فیصلے‘ کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ تین ارب نہیں بلکہ کئی سو ارب کا معاملہ ہے کیونکہ چینی کی برآمد کے فیصلے کے بعد ڈالر کی قیمت بھی 160 تک چلی گئی تھی۔

انھوں نے کہا ’اس لوٹ مار کے سب سے بڑے ذمہ دار بحیثیت وزیراعظم پاکستان عمران خان نیازی ہیں۔‘ شہباز شریف نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم اس کمیشن کے سامنے پیش کیوں نھیں ہوئے جس نے یہ رپورٹ بنائی۔

رپورٹ میں شہباز شریف کے اپنے خاندان کے افراد کے ذکر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میرے بچوں نے کوئی چینی برآمد نہیں کی اور میاں نواز شریف کی مل تو ویسے ہی بند ہے۔

جہانگیر ترین کا رد عمل

پاکستان میں سما ٹی وی کے پروگرام میں میزبان ندیم ملک سے بات کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ انھوں نے انکوائری رپورٹ ابھی پڑھی نھیں صرف پریس کانفرنس سنی ہے اور انھیں یہ کارروائی کافی کنفیوز لگی ہے۔

جہانگیر ترین، عمران خان

انھوں نے کہا کہ جس طرح پیداواری قیمت کے اوپر ’چھلانگیں‘ ماری ہیں یہ عجیب سی کہانی ہے اور جب شوگر ملز ایسوسی ایشن والوں کو اس کی جھلکی دکھائی تھی تو انھوں نے ایک خط بھی لکھا تھا کہ اس طرح کی اکاؤنٹنگ تو دنیا میں کہیں نہیں ہوتی۔

انھوں نے کہا کہ جب یہ رپورٹ ان کے سامنے جائے گی جنھوں نے اس کا ایک ایک لفظ دیکھنا ہے، تو اس کا دفاع کرنا مشکل ہو گا۔

جب جہانگیر ترین سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے دس لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت کے لیے اسد عمر یا عمران خان پر دباؤ ڈالا تھا؟ تو وہ یہ سوال سن کر ہنس دیے اور کہا ’آپ اسد عمر سے پوچھ لیں، عمران خان سے پوچھ لیں۔‘

انھوں نے کہا کہ میں نے چار پانچ روز پہلے رزاق داؤد سے پوچھا کہ جب سے وہ کابینہ میں آئے ہیں میں نے کبھی ان سے چینی کے کاروبار کی بات کی ہے تو انھوں نے کہا کہ بالکل نھیں کی۔

’میں اس معاملے میں بہت محتاط آدمی ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ میں اسد عمر کو ’انفلؤنس نہیں کر سکتا۔‘

جب ان سے ایک بار پھر پوچھا گیا کہ جب چینی کی قیمتی اوپر گئیں تو انھیں مزید کچھ چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تو انھوں نے پھر کہا کہ یہ آپ ان سے پوچھیں۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ چینی کی برآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ وہ بنیاد ہے کہ باقی تمام چیزیں خراب ہوئیں۔

’اگر آپ نہ دیتے ایکسپورٹ کی اجازت، بزدار صاحب سبسڈی نہ دیتے کیونکہ ایکسپورٹ کی اجازت ہی نھیں تھی، اگر آپ سبسڈی نہ دیتے تو ہم جیسے لوگ سبسڈی لیتے نہ۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر اجازت کیسے ملی؟ تو جہانگیر ترین کا جواب تھا کہ ’میں تو حکومت کا انفارمل حصہ تھا، ٹھیک ہے مجھ سے مشاورت ہوتی تھی۔۔۔ یہ جو قانونی ادارے ہیں میں ان میں نھیں بیٹھتا تھا، نہ میری نمائندگی تھی۔ جو انھوں نے فیصلے کیے خود فیصلے کیے۔‘

جہانگیر ترین نے گنے کی قیمتیں فکس کرنے اور دیگر الزمات کی سختی سے تردید کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp