کورونا وائرس: انڈیا میں حفاظتی سامان کی کمی پر خدشات ظاہر کرنے والا ڈاکٹر ذہنی امراض کے ہسپتال منتقل


ایک انڈین ڈاکٹر جنھیں ماسک کی کمی کے بارے میں اپنے خدشات ظاہر کرنے پر معطل کرنے کے بعد حکام کی جانب سے ذہنی امراض کے ہسپتال بھجوا دیا گیا تھا، اب اُن کا ایک بار پھر ذکر ہورہا ہے۔

بیس سال کا تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر سدھاکر راؤ، جو ایک اینیستھسسٹ ہیں، دو ماہ میں دوسری مرتبہ انڈین میڈیا میں شہ سرخیوں میں آئے ہیں۔

وائرل ہونے والی متعدد ویڈیوز میں ڈاکٹر راؤ، جنوبی شہر وشاکھاپٹنم جہاں وہ رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں، اُس شہر کی ایک شاہراہ پر پولیس سے برسر پیکار نظر آئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد انھیں ذہنی امراض کے ہسپتال بھیج دیا گیا تھا۔

یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انڈین ڈاکٹروں کی جانب سے حفاظتی لباس اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی انتظامات کے بارے میں آواز اٹھانے پر ان کے خلاف شدید رد عمل کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

وہ ویڈیوز جو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں ہیں ان سے سنیچر کے بعد سے واقعات کی ایک الجھی ہوئی تصویر سامنے آئی ہے۔

ڈاکٹر راؤ پہلے بنا اپنی قمیض کے سڑک کے کنارے کھڑی اپنی گاڑی کے اندر بیٹھے دکھائی دیے اور وہ پولیس پر چیخ رہے تھے۔

 

ایک اور ویڈیو میں، وہ سڑک پر لیٹے ہوئے ہیں اور اُنکے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے ہیں جبکہ ایک کانسٹیبل اُن کو لاٹھی سے مار رہا ہے۔ پولیس کے مطابق اُس کانسٹیبل کو تفتیش ہونے تک معطل کردیا گیا ہے۔

ان ویڈیوز میں سے شاید آخری کلپ میں پولیس اہلکار انھیں زبردستی ایک رکشے میں بٹھا رہے ہیں جبکہ وہاں کھڑا ہجوم حیران و پریشان یہ معاملہ دیکھ رہا ہے۔

مگر اس سے پہلے کے ڈاکٹر راؤ کو وہاں سے لے جایا جاتا انھوں نے مقامی صحافیوں سے بات کی جو جائے وقوعہ پر حالات جاننے کے لیے جمع ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں روکا گیا اور پولیس نے اُنھیں زبردستی گاڑی سے اُتارا۔ ڈاکٹر راؤ نے الزام لگایا کہ ’انھوں (پولیس) نے میرا فون اور بٹوہ چھینا اور مجھے مارا۔‘

ان کی نظربندی نے ایک بڑے تنازعہ کو جنم دیا ہے۔ ریاستی حکومت پر اس صورتحال سے نمٹنے کے معاملے پر سوشل میڈیا صارفین اور دیگر افراد کی طرف سے تنقید ہو رہی ہے۔ پولیس پر حد سے زیادہ طاقت کا الزام عائد کرتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی تنقید کی ہے۔

ڈاکٹر راؤ کا معاملہ خاص طور پر اس لیے بھی متنازعہ ہے کیونکہ وہ پہلے ہی سے معطل کیے جا چکے تھے۔

ڈاکٹر راؤ کو معطل کیوں کیا گیا؟

گذشتہ ماہ کی تین تاریخ کو ایک سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر راؤ نے میڈیا کو بتایا کہ ڈاکٹروں کو مناسب حفاظتی لباس اور ماسک نہیں دیے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر راؤ نے کہا کہ جب انھوں نے حکام کے سامنے یہ خدشات اٹھائے تو انھیں اُس میٹنگ سے نکل جانے کا کہا گیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں کہا گیا کہ نیا ماسک مانگنے سے پہلے اُس ہی ایک ماسک کو پندرہ دن تک استعمال کریں۔ ہم مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اپنی جان کو خطرے میں کیسے ڈال سکتے ہیں؟‘

یہ سوال انھوں نے مقامی ٹی وی کے صحافیوں سے بھی پوچھا جس کی ویڈیو جلد ہی وائرل ہو گئی۔

حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا لیکن ساتھ ہی ڈاکٹر راؤ کو معطل کردیا۔ حکام کا کہنا تھا کہ انھوں نے باضابطہ شکایت درج کرانے کے بجائے عوامی سطح پر معاملہ اٹھا کر صحت عامہ کے دوسرے کارکنان کے حوصلے پست کیے ہیں۔

کچھ دن بعد ڈاکٹر راؤ نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں انھوں نے معذرت کی اور اپنی معطلی منسوخ کرنے کی درخواست کی۔ حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ڈاکٹر راؤ کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر راؤ اور ان کے اہلخانہ کا الزام ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج کرنے والے ہسپتالوں میں حفاظتی آلات کی کمی کے بارے میں بات کرنے کے بعد سے انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر راؤ نے سنیچر کو کہا کہ پچھلے کچھ دن سے لوگ فون پر انھیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ان کی والدہ کاویری راؤ نے بی بی سی تلگو کو بتایا کہ وہ کسی قسم کے ذہنی مسائل کا شکار نہیں تھے۔

کاویری راؤ نے کہا کہ وہ ایک مشہور ڈاکٹر ہیں لیکن جب سے انھوں نے خدشات کا اظہار کیا، اس ہی دن سے وہ بدسلوکی کا سامنا کر رہے ہیں۔

’جب لوگ مجھے فون کرتے ہیں اور اس کے بارے میں پوچھتے ہیں تو مجھے برا لگتا ہے۔ وہ کئی ہفتوں سے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔‘

سرکاری مؤقف کیا ہے؟

پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں معلومات ملی تھیں کہ شاہراہ پر شراب کے نشہ میں دھت ایک شخص عجیب حرکتیں کر رہا ہے اور وہ اس معاملہ کی چھان بین کے لیے وہاں گئے تھے۔

وشاکھاپٹنم کے پولیس کمشنر آر کے مینا نے بی بی سی تلگو کو بتایا کہ افسران کو جائے وقوعہ پہنچے سے پہلے یہ علم نہیں تھا کہ وہ شخص ڈاکٹر راؤ ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر راؤ نے سڑک پر ایک رکاوٹ ہٹانے کی کوشش کی اور شراب کی بوتل کو سڑک پر پھینکا۔ پولیس کا یہ مؤقف ہے کہ اُن کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی راہگیروں نے اُنھیں رسی سے باندھ کر پکڑ رکھا تھا۔

ڈاکٹر راؤ پر پولیس کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے اور نقصان پہنچانے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ درج کیا گیا۔

تاہم شکایت کنندہ کی شناخت جاری نہیں کی گئی ہے اور ابھی تک کسی عینی شاہد نے سرکاری بیان کی تصدیق نہیں کی ہے۔ ڈاکٹر راؤ کو زیر کرنے کی واحد ویڈیو میں ایک پولیس اہلکار ایک شہری کی مدد سے ان کے ہاتھ باندھ رہا ہے۔

آر کے مینا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ انھوں نے پولیس کے ساتھ بدتمیزی کی۔ انھوں نے ایک کانسٹیبل سے موبائل فون چھین کر پھینک دیا۔ پولیس کمشنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ بظاہر نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر راؤ کو پہلے پولیس سٹیشن لے جایا گیا تھا اور بعد میں بنیادی طبی معائنے کے لیے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہاں کے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ انھیں کسی ذہنی امراض کے مرکز منتقل کردینا چاہیے۔

ہسپتال کی نگران ڈاکٹر رادھا رانی نے بی بی سی تلگو کو بتایا کہ ڈاکٹر راؤ مستحکم لگ رہے ہیں لیکن وہ دو ہفتوں تک زیر نگرانی رہیں گے تاکہ وہ ان کی حالت کی مکمل طور پر تشخیص کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp