کیا پولیس اہلکار سے بدتمیزی کرنے والی خاتون کرنل کی بیوی ہے؟


گاڑیتصویر کے کاپی رائٹSOCIAL MEDIA

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں خود کو پاکستانی فوج کے افسر کی بیوی بتانے والی خاتون کی سی پیک فورس کے اہلکار سے بدتمیزی کا مقدمہ واقعے کے ایک دن بعد درج کر لیا گیا ہے۔

صحافی محمد زبیر خان کے مطابق مانسہرہ پولیس تھانہ سٹی مانسہرہ میں درج مقدمہ ایک ’نامعلوم خاتون‘ کی سڑک پر چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحفظ کے لیے بنائی گئی سی پیک فورس کے اہلکار سے بدتمیزی اور پولیس چیک پوسٹ کی رکاوٹیں توڑنے کے واقعے پر درج کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں بدھ کی شب ٹوئٹر پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں خود کو پاکستانی فوج کے کرنل کی اہلیہ قرار دینے والی ایک خاتون کو سڑک پر ایک اہلکار سے بدکلامی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں یہ خاتون نہ صرف اہلکار کو برا بھلا کہہ رہی ہے بلکہ انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیتی سنی جا سکتی ہے۔

پاکستانی فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اس معاملے کے ساتھ کسی بھی فوجی افسر کا تعلق ثابت ہوا تو ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔

اے ایس آئی اورنگزیب کی درخواست پر درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’خاتون نے عام عوام کے سامنے بدتمیزی کی اور کار سرکار میں مداخلت کے ساتھ ساتھ پولیس کو دھمکیاں بھی دیں، جس کے بعد وہ گاڑی میں بیٹھ کر مجھے کچلنے کی کوشش کرتے ہوئے مانسہرہ کی طرف چلی گئیں

مقدمے میں خاتون کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تاہم پولیس کے مطابق خاتون کا تعلق شنکیاری سے ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر خاتون کی بدتمیزی کا سامنا کرنے والے اہلکار کی معطلی کی افواہوں کے بعد ہزارہ پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے کسی بھی پولیس اہلکار کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی یا محکمانہ کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

پولیس کے ترجمان کے مطابق کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں اور اس معاملے میں بھی تمام تر قانونی ذمہ داریاں پوری کی جائیں گی۔

اس سے قبل فوجی ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ مذکورہ خاتون کے شوہر کا تعلق پاکستانی فوج سے ہے، جو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر تعینات ہیں۔

فوجی ذرائع کا کہنا ہے ’یہ ابھی طے ہونا باقی ہے کہ اپنے آپ کو مذکورہ خاتون جس فوجی افسر کی بیوی بتا رہی ہیں، اس افسر کا اس واقعے سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔‘

فوجی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے علم میں یہ سارا واقعہ لایا جا چکا ہے۔

تاہم اس سینیئر فوجی افسر کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے فوجی سربراہ کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کے مطابق ’فوج میں ایسے واقعات کے بارے میں نظام موجود ہے جو حرکت میں آ چکا ہے۔‘

ایف آئی آرتصویر کے کاپی رائٹMANSEHRA POLICE

اس سے پہلے فوجی ذرائع نے نامہ نگار فرحت جاوید کو بتایا تھا کہ مذکورہ افسر کو بھی ستمبر 2018 میں ایک ٹریفک پولیس اہلکار سے بدتمیزی کرنے پر فرنٹیئر فورس رجمنٹ سینٹر سے باہر پوسٹ کر دیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون شنکیاری کی طرف سے آئیں تھیں اور وہ ایبٹ آباد جانا چاہ رہی تھیں۔

اس سے پہلے عسکری ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ واقعہ 20 مئی کو شام پانچ بجے کے قریب صوبہ خیبرپختونخوا میں ہزارہ ایکسپریس وے پر مانسہرہ میں پیش آیا جب یہ خاتون مانسہرہ سے شنکیاری کی جانب سفر کر رہی تھیں۔

قانونی ماہرین کی رائے

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’خاتون نے قانون کی سنگیں خلاف ورزی کی ہے۔ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ کیا جاسکتا ہے اور جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے ’اگر کسی کو پولیس کے خلاف شکایت ہو تو وہ مختلف فورمز سے جس میں عدالتیں شامل ہیں، رجوع کرسکتا ہے۔ مگر کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ پولیس حکام کے ساتھ سینہ زوری کرے۔‘

عبدالطیف افریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’اگر پولیس حکام نے کسی بھی مقام پر ٹریفک کو کسی بھی وجہ سے روک رکھا ہے اور ٹریفک گزرنے کی اجازت نہیں دے رہے تو شہریوں پر لازم ہے کہ وہ متبادل راستے اختیار کریں۔ مگر پولیس حکام کے ساتھ الجھا نہیں جاسکتا۔‘

عبدالطیف ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’پولیس کی رکاوٹوں کو زبردستی ہٹانا سنگیں جرم ہے۔ اس پر مذکورہ خاتون اور گاڑی دونوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ اگر پولیس کارروائی نہیں کرتی تو یہ قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس سے نہ صرف پولیس کا موارل گرتا ہے بلکہ عوام کو بھی یہ پیغام جاتا ہے کہ پاکستان میں کسی طاقتور کے خلاف کاروائی نہیں ہوسکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ پولیس بڑے لوگوں بالخصوص جس کے ساتھ فوج کا نام جڑ جائے کارروائی نہیں کرتی ہے۔ جس سے معاشرے پر بہت منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اس سے غلط پیغامات جا رہے ہیں۔‘

عبدالطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’پولیس کو اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے پولیس کی رکاوٹیں توڑنے والی خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرنا چاہیے۔ اگر وہ خاتون واقعی میں کرنل کی بھی بیوی ہیں تو پھر ان کو تو بالکل بھی کوئی رعایت نہیں دینی چاہیے تاکہ واضح طو پر قانون کی عمل داری ممکن ہوسکے۔‘

قانون دان عمان ایوب ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس کی رکاوٹ کو زبردستی ہٹانا کار سرکار میں مداخلت تصور ہوتا ہے۔ اس پر قانون کی دفعہ سیکشن 186 تعزیرات پاکستان کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر یہ الزام عدالت میں ثابت ہوجائے تو کم از کم تین ماہ قید کی سزا و جرمانہ ہوسکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’پولیس سمیت کسی بھی شہری کو دھمکیاں دینا شدید جرم سمجھا جاتا ہے۔ جس پر سیکشن 506 تعزیرات پاکستان کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر یہ عدالت میں ثابت ہوجائے تو کم از کم دو سال قید وجرمانہ ہے۔‘

عمان ایوب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں کے علاوہ گاڑی بند وغیرہ کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔

عمان ایوب ایڈووکیٹ کے مطابق ’ضابطہ فوجداری کی سیکشن 154 کے تحت کسی بھی قانون کی خلاف ورزی پر پولیس قانون کی رو سے اس بات کی پابند ہے کہ وہ مقدمہ درج کرے۔ واقعے پر مقدمہ درج نہ کرنا قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔‘

وائرل ہونے والی ویڈیو میں کیا دیکھا گیا؟

پاکستان میں بدھ کی شب ٹوئٹر پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں خود کو پاکستانی فوج کے ایک افسر کی اہلیہ قرار دینے والی ایک خاتون کو سڑک پر ایک اہلکار سے بدکلامی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس ویڈیو کے پہلے حصے میں یہ خاتون اہلکار سے کہتی ہیں کہ وہ ایک کرنل کی بیوی ہیں اور انھیں سڑک پر نہیں روکا جا سکتا۔

ویڈیو کے دوسرے حصے میں مذکورہ خاتون گاڑی سے اتر کر سڑک پر لگی رکاوٹیں ہٹاتی ہیں اور اہلکار کو برا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو جاتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل؟

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ’کرنل کی بیوی‘ نہ صرف ٹرینڈ کرنے لگا بلکہ ٹاپ ٹرینڈ بھی بن گیا اور صارفین یہ سوال کرتے نظر آئے ہیں کہ کیا ایک باوردی اہلکار کے ساتھ ایسا رویہ قابل قبول ہے۔

ٹویٹتصویر کے کاپی رائٹ@IRAISAQIB

صارفین کی ایک بڑی تعداد نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے خاتون کے رویے کو شرمناک قرار دیا ہے۔

صحافی رائے ثاقب کھرل نے لکھا: ’کرنل کی بیگم کی وڈیو دیکھ کر ڈی پی او پاکپتن یاد آ گئے۔ ان کی فورس نے بھی خاتون اول کے سابقہ شوہر کی گاڑی کو روکا تھا۔ ’تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔‘

رائے ثاقب نے مزید لکھا: ’اجتماعی سوچ ہے اس ملک کی۔ ہم سب کے اندر چھوٹا موٹا قانون کو توڑنے مروڑنے والی سوچ موجود ہے اور اسی کا مظاہرہ ان خاتون نے کیا۔‘

زبیر اعوان نامی ایک صارف نے لکھا: ’قابل نفرت اور شرمناک۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ وہ ایک پورے ادارے کو بدنام کر رہی ہیں۔ آرمی کو اپنے دفاتر سے ایسے دماغوں کو نکال دینا چاہیے۔ اس خاتون کو جلد از جلد سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے۔ بہادر پولیس اہلکار کو سلام۔‘

علی رضا نامی صارف نے لکھا: ’کرنل کی بیوی نہ تو خود کرنل ہے اور نہ ہی اپنے آپ میں کوئی ادارہ۔ ویڈیو ایک عام شہری کی ہے، جس نے قانون توڑا اور سزا ملنی چاہیے۔‘

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل طارق پرویز نے لکھا: ’مجھے امید ہے کہ قانون کے مطابق اس خاتون کے خلاف کیس درج کیا جائے گا اور انھیں گرفتار کیا جائے گا۔ اپنے شوہر کی طرح نہیں جنھیں پولیس کے ساتھ نامناسب رویے پر ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔‘

سوشل میڈیا صارفین جہاں خاتون کے نامناسب رویے پر غصے کا اظہار کرتے رہے، وہیں اپنے فرائض سرانجام دینے والے اہلکار کو بھی سراہا گیا۔

منیب مونی نامی ایک صارف نے لکھا: ’قانون کی پاسداری کرنے والے اس پولیس اہلکار کو سلام، یہ میرے ہیرو ہیں۔‘

ایک اور صارف نے لکھا: ’میں اس پولیس آفیسر کو اپنے فرائض کی انجام دہی اور سٹیٹس کو، کو چیلنج کرنے پر ان کی ہمت کو سلام پیش کرتا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments