ریمورٹ والی گاڑی


(ظہیر رونجہ)


\"roonja\" پچھلے ہفتے مجھے آفس کے ضروری کام کی وجہ سے دوسرے شہر جانا تھا۔ گھر سے نکلتے وقت میرا تین سال کا بیٹا مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا میں اس کی سوالیہ نظریں دیکھ کر واپس پلٹا اور گود میں جاکر اسے بہلانے کے انداز میں پوچھا بیٹا آپ کے لئے کیا لاؤں؟ ایک منٹ کی خاموشی کے بعد اس نے لب ہلائے اور کان میں سرگوشی کے اندازمیں بولا کہ ابو میرے لیے ریمورٹ والی گاڑی لانا۔ میں نے اس کے گال پہ تھپکی دی اور اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ نومبر کی پہلی تاریخ کی شام کو ایک بہت اندوہناک خبر ملی کہ گڈانی شب بریکنک یارڈ میں آگ لگ گئی ہے جس کی وجہ سے بہت مزدور جھلس گئے اور کہیں اس آگ کی لپٹ میں آکر زندہ جل گئے ہیں۔

دن بھر کے تھکا دینے والے کام کے بعد رات کو جوں ہی میں نرم بستر پر سونے گیا تو بیس اور پچیس اکتوبر کی درمیانی شب کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والے حملے میں شہید ان اکسٹھ نوجوانوں اور مزدوروں کی خواہشات دماغ میں سوالوں کی طرح گردش کر رہے تھے۔ ان ہی سوالوں کے بیچ میں میرے تین سالہ بیٹے کا معصوم چہرہ اور اس کی ایک پیاری سی خواہش زور سے آکر میرے دماغ سے ٹکرائی۔ اس خوف سے میں نے کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر دی۔ گڈانی اور کوئٹہ کے سانحے پر سوچنے لگا کہ ان سب کا کسی نہ کسی کا تین سال کا بیٹا ہو گا بلکہ ان کے ساتھ جڑے ماں، بہن، بیٹی، بچے سب اپنی اپنی جگہ مطمئن تھے ان کے بیٹوں، بھائیوں، خاوندوں کو نوکری مل گئی تھی اور عنقریب تنخواہ بھی ملنے والی تھی۔ ایک گھر میں کئی خواہشات تشنہ ہوتی ہیں یہ تو اکسٹھ گھروں کی مشترکہ داستان ہے۔ کسی نے ان کے ہاتھ پیلے کرنے تھے تو کسی کے ماں باپ منتظر تھے کہ بیٹے کی کمائی سے آخری عمر میں پہلی عمر کی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے۔ کچھ گھروں میں بچوں کو باپ کی نوکری کے بعد نت نئے کھلونے اور گھومنے پھرنے کے خواب رات سوتے میں نظر آتے تھے کہیں اپنے منگیتر کی نوکری لگنے پر جوش آنکھوں میں سہانے خواب بسائے مشرقی روایات کی پروردہ بیٹیاں منتظر تھیں چن ماہ مزید گزرنے کے اور تو سریاب روڈ کوئٹہ پولیس ٹریننگ اکیڈمی کے اندر موجود نوجوان محض پولیس کیڈٹس نہیں تھے جیتے جاگتے انسان تھے جن کی اپنی خواہشات، امنگیں، خواب، نظریات تھے۔

رات سونے کے لیے بستر پر جانے سے پہلے ہر ایک کے ذہن میں کوئی نہ کوئی منصوبہ تھا ۔پولیس سروس میں آکر اپنے شہر اپنے وطن کی خدمت کا جذبہ، گھر والوں کی مالی معاونت، اپنی ذاتی زندگی کے خوابوں کی تکمیل۔ ٹھیک ان ہی کی طرح گڈانی میں آگ میں جھلسنے والے مزدور کا کوئی خواب ہوگا کہ آج اس کی کمائی سے بچوں کے لیے کچھ خرید کر گھروں کو لوٹیں گے لیکن بچوں، بھائیوں، بہنوں، بیوں کو کیا پتہ کہ ان کی امید آج بُجھ چکی ہے آج ان کے خواب چکنا چور ہوچکے ہیں انہیں ایک وقت کی روٹی اب نصیب ہو کہ نہ ہو۔ اب ان معصوم چہروں کی فرماہش کون پوری کرے گا۔ نیند نے اپنا پورا زور پکڑ لیا تھا کہ بیٹے کی آواز کانوں میں گونجی اور دل میں ایک عجیب سا خوف ابھر کر سامنے آیا اور باختیار اللہ سے عرض کیا کہ اے اللہ ان سب کو ریمورٹ والی گاڑی دلا دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments