کورونا وائرس کی وجہ سے سعودی روٹ کی بندش: پاکستانی اور خلیجی فضائی کمپنیوں کے لیے مشکل وقت


کراچی ایئرپورٹ پر طیارے

Shajie Hussain

ان دنوں دنیا میں جہاں بھی دیکھیں ہوائی اڈے خالی ہیں اور رن وے بھرے ہوئے ہیں۔ طیارے خالی ہیں اور ان میں سفر کرنے والے ندارد۔

کیا کبھی کسی نے اس آفت کے بارے میں سوچا تھا جو شہری ہوابازی پر ٹوٹی ہے؟ اس اُفتاد کا اثر ایک دن، مہینے یا سال کے لیے نہیں بلکہ آنے والے کئی برسوں تک دیکھنے کو ملے گا اور ہوابازی کے عالمی ماہرین فی الحال یہ طے کرنے میں مصروف ہیں کہ شروع کہاں سے کیا جائے۔

تو نقطہ آغاز یہ ہے کہ وہ ہوائی سفر جسے ہم جانتے ہیں اس کا زمانہ جا چکا ہے۔ سستے سفر کا زمانہ تو شاید پاکستان تک پہنچنے سے پہلے ہی رک گیا مگر حالات شاید اتنے برے نہیں جتنے ہو سکتے تھے۔

کم از کم پاکستان کی سطح پر صورتحال کچھ بہتر ہے کیونکہ ملک میں ایک نئی چارٹر ایئرلائن شروع ہو چکی ہے اور مسافروں کے لیے نئی ایئرلائن شروع ہونے کو ہے۔

مگر صورتحال ہے کیا اور اس کا پاکستان جیسے ملک میں ہوابازی پر کیا اثر پڑے گا؟ مسافروں کے لیے کیا مسائل ہوں گے اور ہوابازی کے شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں کے لیے کیا صورتحال ہو گی؟

ان تمام سوالوں کے جوابات اس مضمون میں دینے کی کوشش کریں گے۔ مگر سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس مضمون کی اکثر باتوں کا اطلاق پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے پر نہیں ہوتا کیونکہ پی آئی اے اپنی ذات میں خود ایک انجمن ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پی آئی اے کے پانچ بڑے مسائل

پی آئی اے کو پہلی بار امریکہ تک براہ راست پروازیں چلانے کی اجازت

پی آئی اے کا سی بی اے کے علاوہ ملازمین کی بقیہ تنظیمیں تسلیم کرنے سے انکار

سفری پابندیوں سے پاکستانی شہری کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟

صورتحال کیا ہے؟

پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال عمرہ اور زیارات کے لیے سعودی عرب، ایران اور عراق جاتی ہے۔ مکہ اور مدینہ کی مسجدیں اور عراق اور شام میں مقاماتِ مقدسہ زائرین سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔

مگر اس سال ایک بھی مسافر نہ تو سعودی عرب جا سکا نہ عراق اور ایران کیونکہ نہ تو ویزے ملے، نہ سفر کی سہولیات اور نہ ہی اجتماعات کی اجازت۔

اب سوچیں کہ جو پروازیں ان مسافروں کو لے کر جاتی تھیں ان کے کیا حالات ہوں گے کیونکہ پاکستانی ایئرلائنز کی تو ساری کمائی ہی سعودی عرب کے روٹ پر چلنے سے ہوتی ہے اور پی آئی کے نیٹ ورک پر سب سے زیادہ منافع کمانے والے روٹ سعودی عرب کے ہیں۔

پی آئی اے اور ایئربلیو مل کر تقریباً 100 کے قریب پروازیں ہفتہ وار سعودی عرب کے مختلف شہروں کے لیے چلاتی رہی ہیں۔

پی آئی اے ہفتے میں 48 پروازیں صرف مدینہ اور جدہ کے لیے چلاتی تھی اور سعودی عرب سے پی آئی اے کی کل آمدن کا 37 فیصد حاصل ہوتا تھا جو کہ اندازاً 45 سے 50 ارب کے درمیان بنتا ہے۔

دوسری ایئر لائن ایئربلیو ہے جو ہفتے کی تقریباً 35 اور مہینے کی تقریباً 100 پروازیں سعودی عرب کے لیے چلاتی تھی اور اس کی کُل آمدنی کا 45 فیصد تک صرف سعودی پروازوں سے حاصل ہوتا تھا۔

پی آئی اے کا بوئنگ

پی آئی اے کا وائڈ باڈی بوئنگ 777 طیارہ

اس کے علاوہ حج کی پروازوں سے پاکستانی ایئرلائنز کو یقینی کمائی ہوتی ہے، اور جس طرح کسان سارا سال گندم کی کمائی کا انتظار کرتا ہے، ہماری ایئرلائنز اسی طرح حج کا انتظار کرتی ہیں۔

حج کی پروازوں کو سعوی عرب اور پاکستانی ایئرلائنز میں برابر تقسیم کیا جاتا تھا۔ گذشتہ سال حج پر پی آئی اے نے ساڑھے تین سو پروازیں چلائی تھیں جن کے ذریعے 80 ہزار کے قریب حجاج کو لایا اور لے جایا گیا۔ باقی 20 ہزار حجاج نے ایئربلیو پر سفر کیا۔

دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی بڑی ایئرلائنز اپنے شیڈول میں آنے والی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کو کوششوں میں ہیں۔

بڑے طیارے پارک کیے جا رہے ہیں اور چھانٹیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اکثریت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کاروبار کو جاری کیسے رکھنا ہے اور جب کھولنا ہے تو کیسے کھولنا ہے؟

ایئرلائنز میں کیش فلو یعنی پیسے کی آمد و رفت بہت اہم ہوتی ہے اور اکثر ایئرلائنز بہت ہی کم سرمائے پر چل رہی ہوتی ہیں۔ ان کے زیادہ تر کرائے لیز پر حاصل کیے گئے ہوتے ہیں، عمارتیں اور دفاتر کرائے کے اور عملہ مختصر نوٹس پر۔

ایئرلائنز بھی دو قسم کی ہیں۔ لیگیسی کیریئر جیسے کہ پی آئی اے، لفتھانسا، برٹش ایئرویز یا ایئرفرانس یا پھر نجی کمپنیاں جیسا کہ ورجن۔

ان میں مزید دو قسمیں ہیں فل سروس جیسے کہ پی آئی اے، سیرین، امارات، اتحاد یا قطر ایئرویز یا کم قیمت یعنی ’نو فرِل‘ ایئرلائنز جیسا کہ فلائی دبئی، ایئر عریبیہ، جزیرہ ایئرویز یا ایئر ایشیا۔

لیگیسی کیریئرز کے پاس نقصان برداشت کرنے کی گنجائش ہوتی ہے کیونکہ ان کے پیچھے کسی نہ کسی رنگ میں ریاست کا ہاتھ ہوتا ہے، جیسے پی آئی اے کے معاملے میں تو پوری ریاست ہے اور ریاست ان مشکلات میں ان کا ساتھ دینے کی کوشش کرتی ہے۔

پی آئی اے کو حکومت کیش فلو میں مختلف طریقوں سے مدد کرتی ہے۔ مسئلہ ایئر بلو یا سیرین جیسی ایئرلائنز کے لیے ہے جن کے پاس ریاست جیسی جیب نہیں۔

پی آئی اے کے بارے میں پانچ غلط فہمیاں

پی آئی اے کے دو طیارے جو کھڑے کھڑے ’کھنڈر‘ بن گئے

’گھر والے پوچھتے ہیں گھر کب آؤ گے، انھیں کیا بتاؤں؟‘

بیرونِ ملک پاکستانیوں کو نکالنے والے پائلٹس ’حفاظتی انتظامات‘ سے ناخوش کیوں؟

انھیں پروازیں چلائے بغیر عملے کی تنخواہیں بھی ادا کرنی ہیں، کرائے بھی بھرنے ہیں اور طیاروں کی لیز سمیت ساری رقوم کی ادائیگی اسی طرح کرنی ہے جیسے آمدن کے دنوں میں کرتے تھے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لیزنگ کمپنیوں سے طیارے لیز پر حاصل کیے گئے ہیں، انھوں نے ان بینکوں کو قسطیں دینی ہیں جنھوں نے انھیں طیارے حاصل کرنے کے لیے قرضے دیے۔

ان بینکوں نے آگے طیارہ سازوں کو ادائیگی کرنی ہے جن کے اپنے خرچے ہیں اور جنھوں نے شاید اپنی جگہ قرضے لے رکھے ہیں تاکہ اتنے مہنگے طیارے بنا سکیں۔

یوں یہ پورا چکر رک جانے سے ادائیگیوں کا ایک ایسا عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس کا نتیجہ ایئرلائن کے دیوالیہ یا بند ہونے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔

اس غیر یقینی کے دور میں تو کوئی سرمایہ کاری کا بھی نہیں سوچ سکتا کیونکہ اسے نہیں پتا کہ بات کہاں پر جا کر رکے گی۔

اس کی مثال شاہین ایئر انٹرنیشنل کے انجام سے لے لیں۔ اتنی بڑی ایئرلائن صرف دو ارب کے قریب رقم کی بنیاد پر دیوالیہ پن کی جانب دھکیل دی گئی حالانکہ شاہین کا اس سے زیادہ پیسہ مارکیٹ میں آج بھی پھنسا ہوا ہے۔

یہ دو ارب بڑھتے بڑھتے 16، 17 ارب روپے تک جا پہنچا اور ایئرلائن بند ہو گئی۔

مگر یہ ہر ایئرلائن کا قصہ نہیں ہے۔

الامارات (ایمیریٹس)، اتحاد یا قطر ایئرویز جیسی ایئرلائنز ان سے بھی مختلف ہیں کیونکہ ان کے پیچھے بھی ریاست ہے اور ریاست انھیں اپنے وجود اور تشخص کے جُزوِ لازم کے طور پر لے کر چلتی ہیں۔

قطر ایئرویز یا امارات کے بغیر دبئی یا قطر کا وجود آدھا بھی نہیں، کیونکہ یہ دونوں ایئرلائنز ان ریاستوں کو اور ان میں دی گئی سہولیات کو دنیا تک پہنچانے اور دنیا کو ان تک لانے کا واحد اور سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

تصور کریں اگر ایمیریٹس، قطر ایئرویز، سنگاپور ایئرلائنز جیسی ایئرلائنز نہ ہوتیں تو آپ میں سے کتنے ان ملکوں میں جاتے؟ یہ بات اپنی جگہ کہ ان ریاستوں نے اپنے محلِ وقوع کا بھی فائدہ اٹھایا ہے۔

تو جہاں سستی ایئرلائنز مثلاً آسٹریلیا کی دوسری بڑی ایئرلائن ورجن آسٹریلیا، لاطینی امریکہ کی سب سے بڑی ایئرلائن ایویانکا نے بھی رضاکارانہ دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا ہے، وہیں پاکستان میں ملک کی دوسری بڑی ایئرلائن ایئربلیو نے جون کے آخر تک پروازیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی ملازمین کی تنخواہوں میں درجہ بندی کے حساب سے کمی کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

قطر ایئرویز نے بڑے پیمانے پر ملازموں کو برخاست کرنا شروع کیا ہے تو لفتھانسا کے پائلٹس نے خود ہی پیشکش کی ہے کہ وہ تنخواہوں میں کمی قبول کرنے کو تیار ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں ہوابازی پر کیا اثر پڑے گا؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایئر مارشل ارشد ملک کا کہنا ہے کہ ’ایئرلائن کے لیے سب بڑا چیلنج اس بحران کے بعد مسافروں کو سفر کے لیے قائل کرنا ہے اور دوسرا چیلنج کہ حالات کب نارمل ہوں گے، یا نارمل کے قریب۔‘

تاہم پاکستان کی سب سے نئی ایئرلائن ایئر سیال کے چیئرمین ٖفضل جیلانی کا کہنا ہے کہ وہ صورتحال کے بارے میں کافی پرامید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اندرون ملک پروازوں کو محفوظ بنا کر چلایا جا سکتا ہے اور اس سے عوام کو سہولت ملے گی کیونکہ اندرون ملک سفر ہمارے لیے ضروری ہے۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی فضائی کمپنیوں کی آمدن میں اگلے ایک سے تین سال تک 30 سے لے کر 60 فیصد تک کمی واقع ہونے کی پیش گوئی جا رہی ہے۔

یہ بات اس امر سے مشروط ہے کہ رواں سال حج ہوگا بھی یا نہیں، اور اگر ہوگا تو سعودی عرب کے لیے کتنی پروازوں کی اجازت ملے گی اور کب۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے نیٹ ورک کی پروازوں کی تعداد میں نصف سے زیادہ کی کمی واقع ہونے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

اس سوال کے ان مندرجہ بالا باتوں کے علاوہ مزید دو جواب ہیں۔ پہلا تو یہ کہ ہمارے ہاں جیسے چل رہا ہے، ویسے ہی چلتا رہے گا۔

پاکستان میں جن کے پاس پیسہ ہے وہ ہی فضائی سفر کرتے ہیں باقی جب ضرورت ہو تب۔ ان میں بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مزدور یا بیرون ملک میں رہنے والے پاکستانی یا پاکستانی تارکینِ وطن ہیں۔

یہ وہ طبقہ ہے جس نے جیسے بھی حالات ہوں سفر کرنا ہی کرنا ہے۔ تو اس ساری صورتحال میں اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے یہ لوگ سفر کریں گے اور ہماری ہوابازی کی صنعت جس کا تقریباً سارا انحصار اس درجہ بندی کے لوگوں پر ہے، اور کہیں سے نہیں تو یہاں سے آمدنی ضرور حاصل کرتی رہیں گی۔

اسی لیے پاکستانی ایئرلائنز کا سب سے کامیاب اور منافع بخش روٹ سعودی عرب کی پروازیں ہوتی ہیں۔ حج اور عمرہ ہماری پی آئی اے اور ایئر بلیو کا اوڑھنا بچھونا ہے اور اس کے بعد کے روٹس میں وہ بس گزارہ کر لیتی ہیں۔

مگر اب جب عمرہ بند ہے اور حج کے بارے میں ابھی تک کوئی بھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا تو کیا پاکستانی ایئرلائنز اس چیلنج سے نبردآزما ہو پائیں گی؟

نجی ایئرلائنز کے حکام سرگوشیوں میں ڈرتے ڈرتے کہتے ہیں کہ پتا نہیں آنے والا وقت کیا لائے کہ جیسے آہستہ بولنے سے بلا ٹل جائے گی۔

دوسری جانب ایک لاکھ کے قریب مزدور، دیہاڑی دار اور ملازمت پیشہ افراد خلیجی ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے واپس آ چکے ہیں یا آنے والے ہیں۔ ان میں سے اکثریت شاید کافی عرصے تک اس قابل نہیں ہوگی کہ وہ واپس جا سکے اور ملازمت حاصل کر سکے۔

اس کی ایک مثال دبئی کا دوسرا بڑا ایئرپورٹ المکتوم انٹرنیشنل ہے جس کے بند ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں کیونکہ پروازوں کی تعداد میں کمی اور دبئی کے پرانے ایئرپورٹ پر گنجائش پیدا ہونے پر ایئرلائنز ادھر منتقل ہو رہی ہیں اور اس عمل میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا رہا ہے۔

فارغ ہونے والوں کو یہ امید بھی نہیں دی جا رہی کہ اگر حالات بہتر ہوئے تو انھیں واپس بلایا جا سکتا ہے۔

پاکستان کا تو معاملہ بھی کافی پیچیدہ ہے۔ ملک کی دوسری بڑی ایئرلائن ایئربلیو نے ایئربس سے نئے طیارے لانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

اس کمپنی نے ابھی پچھلے ہی سال دو نئے طیارے اپنے بیڑے میں شامل کیے اور مہینوں کے وقفے کے بعد اندرونِ ملک پروازیں شروع کیں۔ کئی نئی پروازیں شروع کی جانی تھیں، کچھ کا اعلان کیا جانا تھا۔

مگر لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی ایئربلیو نے اپنی تمام پروازیں جون تک بند کر کے ایک جانب بیٹھ کر صورتحال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔

ملک کی تیسری ایئرلائن سیرین ایئر کے پاس سب کچھ ہے۔ چینی سرمایہ، ایک عدد ریٹائرڈ سابق ایئروائس مارشل بطور سربراہ، اوپر سے سربراہ اگر سول ایوی ایشن میں بھی بڑے عہدے پر رہ چکا ہو تو سونے پر سہاگہ ہے۔ سول ایوی ایشن بھی بہت ہی مہربان ہے۔

سیرین ایئر کو حال ہی میں بلوغت کی عمر تک پہنچنے یعنی دو سال تک اندرونِ ملک دھکے کھانے کے بعد بین الاقوامی پروازوں کی اجازت ملی تھی۔

ایک عدد بوئنگ 737 اور دو عدد ایئر بس اے 330 بیڑے میں شامل کرنے کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ اے 330 فرانس میں رنگ ہونے جا چکا تھا دوسرا بھی تیار ہو رہا تھا کہ لاک ڈاؤن شروع ہو گیا۔

ایک اور مسئلہ یہ کہ سیرین ایئر بین الاقوامی پروازوں کا آغاز سعودی عرب سے کرنا چاہتی تھی مگر سعودی عرب کے لیے پروازوں کے حالات کب سازگار ہوتے ہیں، یہ ابھی دیکھنا ہے۔ ان دو نئے طیاروں کے ساتھ محدود اندرونِ ملک پروازیں چلا کر تو گزارہ مشکل ہوگا۔ شنید ہے کہ چین کی جانب رخ کرنے کے منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔

اسی دوران گذشتہ کئی سالوں سے تشکیل کے مرحلے میں موجود ایئرلائن ایئر سیال بھی اڑان کے لیے پر تول رہی ہے۔

ارادہ تھا کہ 27 رمضان کے مبارک دن پہلی پرواز شروع کی جائے گی مگر تازہ ترین معلومات کی مطابق ایئرلائن کا پہلا طیارہ مکمل پینٹ اور تیاری کے بعد پاکستان آنے کے بجائے حال ہی میں امریکی ریاست ایریزونا میں واقع طیاروں کے مشہور قبرستان جا پہنچا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ اب اسے وہاں سٹور کیا جاتا ہے یا یہ صرف مختصر مدت کے لیے سستی پارکنگ ہے۔

ایئرلائن کے دو دیگر طیارے بھی تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ یہ کب پاکستان پہنچیں گے اور کب ایئرلائن اپنی پروازیں شروع کرے گی اس بارے میں کوئی بات بھی حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔

کورونا وائرس

جب پروازیں کم ہوں گی تو کرائے بڑھیں گے اور سفر میں جو آسانی تھی وہ نہیں رہے گی

مگر ہر طرف مارا ماری کا عالم بھی نہیں۔ اس مصیبت میں بھی کاروبار چل رہا ہے۔ پی آئی اے، امارات، اتحاد اور کئی دیگر ایئرلائنز نے مال برداری کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے مسافر بردار طیارے اس کام کے لیے استعمال کرنے شروع کیے ہیں، جس میں مسافروں کی نشستوں پر بھی سامان لاد کر لایا جاتا ہے۔

پاکستان کی ایک چھوٹی سی کارگو ایئرلائن وژن ایئر جو کوریئر کمپنیوں کے لیے پروازیں چلاتی تھی، وہ تک اس صورتحال میں کبھی بیجنگ اور کبھی سٹاک ہوم کارگو لے کر آ جا رہی ہے۔

ایک نئی ایئرلائن ایئر فالکن جو گذشتہ چار سال سے پروازیں شروع کرنے کا سوچ رہی تھی اس کا پہلا طیارہ چند دن قبل پاکستان پہنچا ہے، دوسرا چند ہفتوں میں آئے گا۔ کارگو چارٹر پروازیں جلد شروع کرنے کی شنید ہے۔

اسی طرح جن نصف درجن کے قریب ایئرلائنز کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں ان میں سے مشکل ہے کہ کوئی ہمت کر کے آپریشن شروع کرے۔

ایک پہلے سے ہی مشکلات سے بھرپور اور پیچیدہ مارکیٹ میں قدم رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ بے شک آپ کے پاس سکولوں اور کالجوں سے کمایا پیسا ہو یا ’عسکری‘۔

مسافروں کے لیے کیا ہوگا؟

دنیا بھر میں اڑنے والی پروازوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی ہو جائے گی اور جب پروازیں کم ہوں گی تو کرائے بڑھیں گے اور سفر میں جو آسانی تھی وہ نہیں رہے گی۔

دنیا کے کئی ایسے علاقے جو دنیا سے جڑے ہیں وہاں تک رسائی کم ہوگی اور سفر شاید بہت روایتی ہو جائے گا۔ وہ جو سال میں ایک بار چھٹیاں منانے ہالیڈے پیکجز پر جاتے تھے شاید اب یہ ساری مارکیٹ کچھ عرصے کے لیے ناپید ہو جائے۔

دوسری جانب مسافروں کے لیے عمومی طور پر پاکستان میں ایئرلائنز کے کرائے بڑھیں گے کیونکہ یہ مجبوری میں سفر کرنے والوں کی مارکیٹ ہے، اس لیے ایئرلائنز اتنی مہربان نہیں ہوں گی جتنی شاید بنکاک یا کوالالمپور کے لیے۔

دوسری جانب پاکستان میں ہوابازی کی صنعت بھی سکڑے گی۔ ایک اندازے کے مطابق اس کا مجموعی حجم کم از کم 30 سے 40 فیصد تک کم ہوگا۔

کیا کوئی ایئرلائن بند ہو گی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر اس کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ کورونا جبکہ دوسری وجہ ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت ہے۔

عالمی ہوابازی کی تجارتی تنظیم ایاٹا کے مطابق دنیا بھر میں فضائی مسافروں سے حاصل ہونے والی آمدن میں 314 ارب ڈالر کی کمی صرف اس سال میں واقع ہو گی جو کہ گذشتہ سال کی نسبت 55 فیصد ہو گی۔

پاکستان میں اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ سال میں ایک بار اندرون ملک یا بیرون ملک جا سکتے تھے شاید کچھ عرصے کے لیے ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہو۔

اس صنعت کے کارکنوں کے لیے کیا صورتحال ہو گی؟

ایک وقت تھا کہ ایمیریٹس کے پاس جس رفتار سے طیارے آ رہے تھے اس رفتار سے پائلٹس اور دوسرا عملہ تیار نہیں ہو رہا تھا۔ یاد رہے کہ ایمیریٹس کے پاس عملہ اور پائلٹ تیار کرنے کی اپنی تربیت گاہیں ہیں اور کمپنی نے درجنوں طیارے اسی وجہ سے کھڑے کر دیے تھے۔

اب حالات جس جانب جا رہے ہیں اس میں لگتا ہے کہ ایمیریٹس کو شاید ایسے مسائل کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔ قطر ایئرویز نے تو پہلے ہی کٹوتیوں اور ملازمتوں سے فارغ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ایئر عریبیہ اور فلائی دبئی کے بھی یہی حالات ہیں۔

تو ان سینکڑوں نوجوانوں کو جو ہر سال لاکھوں روپیہ خرچ کر کے کمرشل پائلٹ کا لائسنس حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنی پروازوں کے گھنٹے اس امید پر پورے کرتے ہیں کہ شاید ان کی باری کبھی آ جائے گی، اب ان کی باری آنے میں شاید وقت لگے کیونکہ ایئرلائنز بڑی تعداد میں طیارے ریٹائر کر رہی ہیں، یعنی ان کے پاس انھیں چلانے کی گنجائش نہیں ہے۔

لفتھانسا، ورجن اٹلانٹک، ڈیلٹا اور برٹش ایئرویز سمیت کئی ایئرلائنز نے اپنے طیارے فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ انھیں ان طیاروں کے لیے پائلٹس اور عملے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

کہا جاتا رہا ہے کہ ہوابازی کی صنعت پر سب سے برا وقت گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں کے بعد آیا تھا۔ مگر اس برے وقت میں بھی اتنی غیر یقینی اور گھبراہٹ نہیں تھی جتنی اب ہے۔

کورونا کی شکل میں ہوابازی کے لیے ایک ایسا امتحان آیا ہے جس کی تیاری ہی نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کامیاب ہونا تو بہت مشکل اور کٹھن کام ہے۔

آنے والے دنوں میں ہوابازی کی صنعت کو ایک بار پھر اٹھ کر چلنا اور پھر پرواز کرنا سیکھنا ہو گا۔

پاکستانی ایئرلائنز کے حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان سب کے ساتھ مل کر جو بات چیت کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا اسے بحال کرنا چاہیے۔ ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے اس سلسلے کو منقطع کر دیا گیا ہے۔

دوسرا ان کا مطالبہ ہے کہ انھیں براہِ راست ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے تاکہ وہ یہ ریلیف مسافروں کو دے سکیں۔ اس سے حکومت کو ہی دوسرے ٹیکسوں کی صورت میں فائدہ ہو گا۔

اگر حکومت اس صنعت کو بچانے میں سنجیدہ ہے تو اسے جلد کچھ پالیسی اختیار کرنی ہو گی کیونکہ ہوابازی میں بروقت فیصلے ہی سود مند ہوتے ہیں۔

مگر شاید آنے والے وقتوں میں حالات کے معمول پر آنے کے بھی امکانات ہیں۔ جمعے کے روز ہوابازی کی آمد و رفت پر نظر رکھنے والی سروس فلائٹ ریڈار نے بتایا کہ اس روز پِیک یعنی عروج کے وقت سب سے زیادہ 7300 طیارے فضا میں ٹریک کیے گئے اور اس دن کُل دو لاکھ 49 ہزار بانوے پروازیں ٹریک کی گئیں۔ گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران اڑنے والی پروازوں کا یہ تقریباً نصف بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp