ہمارا ”میار تلیم“۔


پنجاب میں گورنمنٹ سکولوں کے گیٹ پر ایک بورڈ آویزاں کیا گیا ہے کہ ”آئیے دیکھیے ہم معیار تعلیم کے حصول کے لیے کیسے کوشاں ہیں“

کچھ عرصہ قبل مجھے ایک گورنمنٹ سکول کسی کام سے جانے کا اتفاق ہوا۔ سردیوں کی نرم دھوپ میں صحن میں ایک استاد کرسی پر بیٹھے تھے اور طلبا کا ہجوم ان کے اردگرد جمع تھا۔ اور وہ انہیں کچھ نوٹ کروا رہے تھے۔ طلبا میں سے کچھ باتوں میں مصروف تھے اور چند محنتی طلبا استاد کے بتائے ہوئے سوالات نوٹ کر رہے تھے۔ پتہ چلا کہ سالانہ امتحان قریب ہیں اور استاد صاحب اپنے شاگردوں کو وہ سوالات نوٹ کروا رہے ہیں جو انہوں نے پرچے میں پوچھے ہیں۔ ’محنتی طلبا‘ تو یہ سوالات خود نوٹ کر رہے تھے مگر کھلنڈرے طلبا کو یہ تسلی تھی کہ وہ بعد میں اپنے کلاس فیلوز سے یہ پرچہ حاصل کر کے یاد کر لیں گے۔

نصاب کے حوالہ سے تو بہت بحثیں ہوتی رہتی ہیں کہ نصاب کس قسم کا ہونا چاہے لیکن عملاً سکولوں میں جس طریق سے تعلیم دی جارہی ہے اس پر زیادہ توجہ کہ ضرورت ہے۔

میرے پاس ایک فیملی کام کرتی ہے ان کی بیٹی اچھی ذہین اور پڑھنے کی شوقین ہے جب نہم میں داخل ہوئی تو میں نے اسے نصاب کی کتب لے کر دیں اگلے روز سکول سے اسے ہدایت ملی کہ ان کتب کی بجائے ”اپ ٹو ڈیٹ“ کے نام سے جو گیس پیپرز ملتے ہیں وہ لاؤ۔ جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ دراصل پرانے حل شدہ پرچوں پر مشتمل تھیں۔

اب چونکہ ایم سی کیو کا رواج بھی ہے تو اس میں سوالات درج تھے جن کے نیچے چار چوائس درج تھے۔ اور استاد نے طلبا کو درست جواب کو نشان زد کرنے کی ہدایت کی تھی۔ مثلاً ایک سوال یہ تھا کہ اوجڑی کیمپ کا واقعہ کب ہوا؟ جواب میں ایک چوائس 1988 تھا۔ جو درست تھا۔ چنانچہ اس لڑکی نے یہی جواب دیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا واقعہ ہوا تھا جس کا اس کو کوئی علم نہیں تھا۔

دہم کے امتحان میں انگریزی کے پرچے میں شارٹ نوٹس لکھنے تھے۔ اس نے بتایا کہ اس نے ”نائز پلوشن“ پر نوٹ لکھا ہے۔ میں نے ”نائز“ کا مطلب پوچھا تو اسے معلوم نہیں تھا۔ پلوشن کا مطلب اس نے ہوائی آلودگی بتایا۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا سارا نظام تعلیم درست ہونے والا ہے۔ حکومت نے اساتذہ پر سختی کی کہ اگر نتائج اچھے نہ آئے تو استاد ذمہ دار ہوں گے۔ مگر اس زبر دستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اساتذہ نے اپنی جان چھڑنے کے لیے نقل اور رٹے کا سہارا لینا شروع کر دیا اور سب مطمئن ہیں کہ نتائج اچھے آرہے ہیں۔

ضلعی سطح پر ایجوکیشن افسر ز مقرر ہیں۔ کتنے ہیں جو سکولوں کا دورہ کر کے اساتذہ کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں اور چیک اینڈ بیلنس کا کیا طریق ہے۔ اچانک دورے، طلبا کی کاپیوں کی کہیں سے بھی چیکنگ، ان سے گفتگو، سکول کی صفائی ستھرائی، بچوں کی صفائی، بول چال کا طریق، دراصل یہ وہ پہلو ہیں جن کی نگرانی ضروری ہے۔

اکثر دیہاتوں میں والدین خود بھی تعلیم یافتہ نہیں ہوتے مگر پھر بھی بعض والدین سنجیدہ طبع اور نسبتاً تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ایسے والدین پر مشتمل چھوٹی کمیٹیاں بھی قائم ہو سکتی ہیں جو ہیڈ ماسٹرز کے ساتھ ماہانہ میٹنگز کریں اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر سے بھی سہ ماہی میٹنگز کریں اور تعلیم کی بہتری کے سلسلہ میں کوشش کریں۔
ورنہ ہمارا معیار تعلیم ”میار تلیم“ ہی رہے گا۔

قمر سلیمان
Latest posts by قمر سلیمان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments