کورونا وائرس: پاکستان فوج کی جانب سے امریکی فوج کو بھیجے گئے طبی حفاظتی سامان پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل


جب سے کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہے تب سے ایک موضوع جو ہر ملک میں بارہا اُٹھایا گیا ہے وہ طبی عملے کے لیے پرسنل پروٹیکٹو اِکوپمینٹ (پی پی ای) یعنی ذاتی حفاظتی سامان کی کمی کا ہے۔

پاکستان سمیت مختلف ممالک میں ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر طبی عملہ پی پی ای کی کمی کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور احتجاج بھی ہوئے ہیں۔

ایسے میں امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر اسد خان نے ٹوئٹر پر پیغام دیا کہ ‘آج افواجِ پاکستان نے کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران پی پی ای سے لدا ہوا ایک طیارہ امریکی فوج کو دوستی اور اظہار یکجہتی کے طور پر تحفتاً پیش کیا۔ سینئر امریکی اہلکار ہمارے ٹیم کے ساتھ اینڈریوز ہوائی اڈے پر سامان کو وصول کرنے کی تقریب میں شامل ہوئے‘۔

امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی ٹویٹ پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا اور ٹوئٹر پر #PPE ٹرینڈ کرنے لگا۔

ایک صارف نے سوال کیا کہ ’آرمی کو یہ سامان کہاں سے ملا؟ کیا حکومت پاکستان کو چین اور دیگر ممالک سے ملنے والا سامان آگے امریکہ کو دیا جا رہا ہے؟ اس میں تعجب نہیں کہ پاکستان بھر میں سویلین ڈاکٹروں کے پاں پی پی ای نہیں۔‘

ندا کرمانی نے کہا کہ ’ہمارے اپنے کیسز کی شرح میں لاک ڈاؤن ختم کرنے کی وجہ سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں پہلے ہی پی پی ای کی کمی تھی اور آنے والے ہفتوں مہینوں میں مزید ضرورت پڑے گی۔‘

فضل شاہد نے ٹویٹ کی کہ ‘کتنی مضحکہ خیز بات ہے ایک طرف چین ہمیں سامان دے رہا ہے اور دوسری جانب ہم اسے اظہار یکجہتی کے طور پر آگے دے رہے ہیں۔ چینی اس وقت اپنا سر کھجا رہے ہوں گے۔‘

وسیم علی طوری لکھتے ہیں کہ ‘ہمارے ملک میں طبی عملے کے پاس پی پی ای کی کمی ہے۔ ڈاکٹر جن میں میرے خاندان کے ڈاکٹر بھی شامل ہیں حفاظتی سامان کم ہونے کی وجہ سے خطرے میں ہیں’۔

عمیر سولنگی نے ایک ڈاکٹر کی تصویر شیئر کی اور ساتھ پیغام میں لکھا کہ’دریں اثناء پاکستان میں حالات’۔

اِن حالات میں جہاں بہت سے ملک خود بھی پی پی ای کی کمی کا شکار ہیں ایسی صورت میں بیرون ملک طبی رسد بھیجنے پر کچھ اور ملک بھی تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ اس کی ایک مثال مصر کی بھی ہے جہاں ملک میں ڈاکٹر پی پی ای کی کمی کی شکایات کر رہے تھے جبکہ سرکاری طور پر طبی سامان اٹلی بھجوایا گیا تھا۔

صحافی بینظیر شاہ نے پاکستان کے امریکہ میں سفیر کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘یاد رہے کہ بلوچستان میں نوجوان ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان ڈیمانڈ کرنے پر اُن پر لاٹھی چارج کیا گیا اور انہیں جیل میں پھینک دیا گیا’۔

بینظیر شاہ کی ٹویٹ پر ایک ٹوئٹر صارف یوسف یعقوب نے جواب دیا اور اُن کے مطابق ’وہ ایک مہینہ پہلے تھا آج دیکھیں تو ڈاکٹروں کے پی پی ای پر کوئی تحفظات نہیں’۔

نبیل چوہدری لکھتے ہیں کہ ’اس سے بہتر تھا کہ چین کو کہتے ہماری طرف سے سیدھا امریکہ کو بھجوا دیں، اس سے بہت سا وقت اور وسائل بچائے جا سکتے تھے’۔

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے ٹویٹ کیا کہ ‘پاکستان کی طرف سے امریکہ کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد ایک عظیم نشان۔ پی اے ایف کا پی پی ای سے بھرا ہوا طیارہ’۔

شیریں مزاری کے اس پیغام کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے صارف لیلیٰ رضا نے لکھا کہ ’یہ واضح ہے کہ پاکستان کے ہسپتالوں میں طبی عملہ اگر پی پی ای مانگے تو اُن کے لیے لاٹھی چارج، شیلنگ اور تنخواہوں میں کٹوتی ہے، تاہم امریکہ کے ڈاکٹروں کو پی پی ای کا تحفہ مل رہا ہے۔ بہت ہوگئے انسانی ہمدردی کے دعوے۔‘

ایک دوسرے ٹوئٹر صارف نے شیریں مزاری کو جواب دیتے ہوئے ٹویٹ کی اور لکھا کہ’۔۔۔ اپنے ڈاکٹر مر جائیں اُس کی خیر ہے’۔

دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس اظہار یکجہتی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ’ پاکستان کے جذبہ خیرسگالی کے طور پر سرجیکل ماسک اور حفاظتی لباس کے عطیے کی قدر کرتے ہیں۔ یہ رسد کووڈ 19 کے خلاف لڑائی میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان یکجہتی کی علامت ہے’۔

اس بحث میں بہت سے لوگ ناراض نظر آیے لیکن امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی ٹویٹ کے جواب میں بہت سے افراد نے پاکستان کی جانب سے امداد کا خیر مقدم بھی کیا۔

عشر جاوید نے سیکرٹری پومپیو کی ٹویٹ پر کہا کہ ‘پاکستان سب دوستوں اور ملکوں کی خوشی سے مدد کرتا ہے’۔

شہزادہ نامے صارف نے ایک ٹویٹ کے جواب میں کہا ‘بھائی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے اپنے یونٹس پی پی ای اور ماسک بنا رہے ہیں یہاں تک کہ سڑکوں پر بھکاریوں نے بھی پہنے ہوئے ہیں۔ اپنے پاکستان پر تنقید بند کریں۔۔۔’۔

دوسری جانب راؤ سمیر کہتے ہیں کہ ‘ہم نے کب سے اضافی پی پی ای بنانا شروع کیا۔ جب میں نے آخری مرتبہ خبریں دیکھی تھیں تو نوجوان ڈاکٹر پی پی ای کی کمی پر احتجاج کر رہے تھے’۔

https://twitter.com/DrMShahidAKhan/status/1263580368562802688?s=20

ڈاکٹر محمد شاہد امین خان جن کے ٹوئٹر بائیو کے مطابق وہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن سے منسلک ہیں کہتے ہیں کہ ‘واہ واہ سر، ہمارے ڈاکٹر اور نرسیں ہر روز قربانیاں دے رہے ہیں اور پی پی ای کے بغیر مر رہے ہیں اور ہماری فورسز یکجہتی دکھا رہی ہیں۔ بہت تعجب ہے’۔

پاکستان میں بہت سے لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان کو خود چین سے امداد میں ماسک اور پی پی ای مل رہے ہیں اور وہ بجائے ملک میں ڈاکٹروں کی ضرورت پوری کرے انہیں آگے دے رہا ہے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں امریکہ کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت جو سامان بھیجا گیا ہے اس کی اجازت این ڈی ایم اے نے نہیں دی بلکہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے دی ہے۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی نگرانی کرتے ہیں۔

این ڈی ایم اے کے اہلکار سے جب یہ پوچھا گیا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جو سامان امریکہ کو بھیجا گیا ہے کیا وہ سامان چین سے آیا تھا یا مقامی طور پر تیار کیا گیا تھا، تو اہلکار نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ جو اطلاعات مل رہی ہیں اس کے مطابق اس سامان میں این-95 ماسک سمیت ذاتی حفاظت کا سامان یعنی پی پی ای شامل ہے۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب مقامی طور پر پی پی ای اور این ماسک تیار ہو رہے ہیں جبکہ ابھی صرف وینٹیلیٹرز ہی بیرون ممالک سے منگوائے جا رہے ہیں۔

امریکہ کو بھیجے جانے والے سامان کے بارے میں جب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp