پاکستانی والدین سے ایک عاجزانہ التجا


پہلے میں سمجھتا تھا کہ ہم یعنی پاکستانی ایک دلچسپ قوم ہیں۔ مگر گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ میں میری یہ سوچ ایک سو اسی درجے کا یو ٹرن لے چکی ہے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ ہم یعنی پاکستانی ایک ”شاندار“ قوم ہیں۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور پاکستان بھی اس وبا کو بھگت رہا ہے۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اب تک پاکستان میں اس وبا نے وہ تباہی نہیں مچائی جو تباہی اس عالمی وبا کے باعث امریکہ اور یورپ کے کچھ ملکوں میں دیکھنے میں آئی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ پاکستان میں حالات بہت اچھے ہیں۔

پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد تا دم تحریر پچاس ہزار چھے سو چورانوے تک پہنچ چکی ہے۔ اور ایک ہزار سڑسٹھ افراد اب تک اس موذی وائرس کی وجہ سے وفات پا گئے ہیں۔

کورونا وائرس سے لگنے والے مرض کی علامات اور اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر صحت کے عالمی اداروں اور حکومت پاکستان کی جانب سے مسلسل عوام کو بتائی جا رہی ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ ”شاندار“ قوم ان احتیاطی تدابیر پر کان دھرنے کو تیار ہے یا نہیں۔

ماہ رمضان شروع ہوتے ہی پاکستان کے مختلف بازاروں میں رش بڑھنا شروع ہو گیا تھا اور رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ حکومت (وفاقی اور صوبائی) اپنی سی کوششیں کرتی رہی کہ عوام گھروں میں رہیں اور اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے لیکن حکومت کی تمام تر کوششیں ناکام ہوتی چلی گئیں اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بازاروں میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ بوڑھے، جوان، بچے، مرد اور عورتیں سب ملی اور قومی جوش کے ساتھ عید کی خریداری میں مصروف ہیں۔

ہماری باپردہ اور حیا دار خواتین شٹر بند دکانوں میں غیر محرم دکان داروں کے ساتھ بند پائی گئیں۔ انھیں شٹر کھول کھول کر رہائی دلوائی گئی۔ کچھ برقع پوش خواتین یعنی برقع ایوینجرز کو دو منزلہ مارکیٹ کی اوپری منزل سے چھلانگیں مار مار کر بھی اترتے مشاہدہ کیا گیا۔ سنا ہے کہ پاکستان اولمپکس کمیٹی کے عہدے دار ان گھریلو خواتین کا سراغ لگانے کی مہم میں مصروف ہیں تاکہ انھیں اولمپکس مقابلہ جات میں ہائی جمپ اور لانگ جمپ کے مقابلوں میں بھیج کر پاکستان کے لیے میڈل حاصل کیے جائیں۔

باپردہ اور حیا دار بیبیاں ایڈونچر میں مصروف ہیں تو ہمارے نوجوان اور جوان کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ وہ بھی ماہ رمضان کی برکات کو سحریوں اور افطاریوں کی صورت سمیٹنے میں ازحد مصروف ہیں۔ مساجد میں محافل شبینہ ہوں یا نا ہوں، سڑکوں پر شبینہ کرکٹ جوش و خروش سے جاری ہے۔ ٹولیوں کی ٹولیاں سحری کی برکات حاصل کرنے کے لیے مختلف ہوٹلوں اور ریستورانوں کا رخ کر رہی ہوتی ہیں۔

ماہ رمضان میں حکومت نے کچھ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) کے تحت مساجد میں پنج وقتہ نماز، نماز جمعہ اور نماز تراویح پڑھنے کی ہدایات دی تھیں۔ الحمد للہ ہم نے ان ایس او پیز کے بھی پرخچے اڑا دیے۔ پچاس سال سے اوپر کے حضرات کو گھر پر نماز پڑھنے کی ہدایت تھی مگر مساجد میں نوے فیصد حاضری پچاس برس سے اوپر کے حضرات کی ہوتی ہے۔ صفوں میں فاصلہ رکھنے کی ہدایت تھی مگر کندھے سے کندھا ملائے ہوئے صفیں بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر مذہبی اجتماعات میں بھی عوام نے حصہ لیا اور کسی بھی قسم کے حکومتی مشوروں کو ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔

یہی وجوہات ہیں کہ ماہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی کورونا وائرس کے متاثرین میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور جہاں دن کے تین چار سو کیس ہو رہے تھے وہاں اب دو سے اڑھائی ہزار کیس روز کی بنیاد پر سامنے آ رہے ہیں۔

اب عید الفطر کی آمد آمد ہے اور بازاروں میں رش بڑھ چکا ہے۔ لوگ بچوں کو لے کر عید کی خریداری کرنے نکلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ”ازراہ شفقت“ ملک بھر میں تمام دکانوں اور شاپنگ مالز کو کھولنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں تاکہ عوام جی بھر کر عید کی خریداری کر سکیں۔ ساتھ ہی مرے کو سو درے مارنے کے مصداق ایس او پیز پر عمل درآمد کی ذمہ داری ”بے چاری“ حکومت پر ڈال دی ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی حکم دیا ہے کہ کہیں پر ایس او پیز کی خلاف ورزی ہو تو نا تو کاروبار کو سیل کیا جائے اور نا ہی کسی کو ہراساں کیا جائے۔

اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے قدیم زمانے کے وہ رومن اکھاڑے یاد آ گئے جن میں قیدیوں کو بھوکے شیر کے آگے چھوڑ کر رؤسائے شہر تماشا دیکھا کرتے تھے۔

لوگ گھروں میں بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔ سماجی فاصلے کی اہمیت کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہیں۔ بچوں کو بازاروں کے رش میں لیے گھوم رہے ہیں اور بھوکا شیر دھاڑتا ہوا شکار تلاش کرتا پھر رہا ہے۔

ایسے میں پاکستانی والدین سے میری ایک عاجزانہ التجا ہے۔ اپنے گھروں میں بجلی کے سوئچوں پر سے احتیاطی کور ہٹا دیجئے۔ فینائل اور دیگر مہلک اشیا کو بچوں کی پہنچ سے دور مت کیجیے۔ بچوں کو خطرات سے کھیلنے دیجئے۔ آپ خود بھی تو بچوں کے ساتھ یہی کر رہے ہیں۔ تو پھر بچوں پر پابندی کیوں؟

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments