افغانستان میں شراکت اقتدار کا درآمدی نظام


افغانستان و اسرائیل میں قدر مشترک ہے کہ دونوں ممالک میں شراکت اقتدار کا فارمولا رائج ہوا۔ امریکی تجویز (حکم) کو شدید سیاسی بحران کے خاتمے کے لئے تیر بہدف سمجھا گیا۔ اسرائیلی تاریخ کے طویل ترین اور بڑے بحرا ن کو حل کرنے کے لئے اقتدار میں شراکت کے فارمولے کے تحت سابق وزیر اعظم نیتن ہاہو نے 18 ماہ کے لے وذرات عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔ جب کہ ان کے سیاسی حریف بینی گانز اپنے پاس ڈپٹی وزیراعظم سنبھالیں گے، 18 مہینے بعد حریف سیاسی جماعت کے رکن کو وذرات اعظمی کے لئے موقع دیا جائے گا۔

شدید بحران و اختلافات کے باوجود دونوں حریفوں نے امریکی فارمولے کے تحت یکم جولائی تک مقبوضہ مغربی کنارے کے کئی علاقوں کو غیر قانونی طور اسرائیل میں شامل کرنے کے عزم کا اعادہ ظاہر کیا۔ فلسطینی رہنماء اسرائیلی اتحادی حکومت کے منصوبے کو یکسر مسترد کرچکے ہیں، اسرائیل و امریکا کے ساتھ معاہدے کو بھی ختم کر دیا۔

دوسری جانب افغانستان میں بھی شراکت اقتدار کے فارمولے کے تحت اشرف غنی و عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختیارات منقسم ہوئے۔ گوکہ پاکستان سمیت کئی ممالک نے افغانستان کے کمزور سیاسی ڈھانچے کے پس منظر میں شراکت اقتدار کا فارمولے کا خیر مقدم کیا، تاہم قابل غور پہلو یہ ہے کہ ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام و تاریخ کی کم ترین شرح پر منعقد انتخابات کے تاخیر سے آنے والے فیصلوں کے بعد ظاہر ہوجاتا ہے کہ افغانستان کا سیاسی نظام کمزور خطوط پر استوار ہے۔

سیاسی عدم توازن آزادنہ فیصلوں میں کمزوری کی دلالت کرتا ہے۔ امریکا کے دیے گئے فارمولے و ڈکٹیشن کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، صدر کے بعد سب سے بڑے عہدے پر تعینات ہوئے اور کابینہ کے نصف اراکین کو بھی تجویز کریں گے، افغان طالبان سے مذاکرات کے لئے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو مینڈیٹ دیا گیا۔ واضح رہے سابق چیف ایگزیکٹواس سے قبل افغان طالبان کے موقف کی حمایت کرتے رہے ہیں اور ایک موقع پر کہہ بھی چکے تھے کہ امن کے لئے اگر ان کے عہدے کی قربانی کی ضرورت بھی پڑے تو وہ اس سے انکار نہیں کریں گے۔

متنازع انتخابات کے بعد دونوں حریف رہنماؤں نے اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا اور انہو ں نے ایک ہی دن الگ الگ جگہوں پر صدارت کے عہدے کے مبینہ حلف بھی اٹھایا۔ افغان انتخابات کو دھاندلی زدہ و مشکوک قرار دیے جانے دیگر سیاسی حریفوں کے لئے شراکت اقتدار کا مجوزہ فارمولا مایوسی کا باعث بنا۔ افغان طالبان کا شروع سے موقف رہا ہے کہ افغانستان میں امریکا کی حاشیہ بردار انتظامیہ ہے، جو عوام کی منشا سے نہیں بلکہ امریکی خواہش کے مطابق آتی ہے۔

اسرائیل اور افغانستان کے سیاسی ماحول کا موازنہ کیا جائے تو واضح قدر مشترک نظر آتی ہے کہ اسرائیل، فلسطینی مسلمانوں کے حقوق پر غاصب بنا ہوا ہے اور مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر آبادیاں بنا رہا ہے جس کے لئے امریکا کا آشیر باد، اسرائیل کے ساتھ ہے، دوہرے معیار کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہورہا اور مسلم امہ کو تکالیف کا سامنا ہے۔ اسی طرح افغانستان میں بھی مخصوص مفادات کی وجہ سے امن کے لئے طے شدہ معاہدے پر شق وار عمل درآمد کے لئے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، سیاسی رہنماؤں کو افغانستان میں امن کے بجائے اپنے اقتدار کی پڑی ہوئی ہے، متنازع ترین انتخابات کے بعد حقائق سامنے آچکے کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ افغان عوام کی مکمل حمایت حاصل نہیں کر سکا اور اقتدار میں شامل جماعتیں افغان عوام کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے، خیال کیا جا رہا ہے کہ شراکت اقتدار کے مجوزہ معاہدے کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ افغانستان میں امن کے لئے اصل مذاکرات کی راہ میں حائل ان رکاؤٹوں کو ختم کیے جانا ضروری ہے جو بین الافغان مذاکرات کی راہ میں کانٹا بنی ہوئی ہیں۔

شراکت اقتدار کے درآمدی نظام نے ثابت کر دیا ہے کہ افغانستان میں سیاسی عدم استحکام موجود ہے اور وہاں طاقت کی حکمرانی ہے۔ یہاں طاقت سے مراد وہ جماعتیں بھی ہیں جو اپنے اپنے گروپ میں جنگجوؤں کی بڑی تعداد ہمراہ رکھتی ہیں، یہ تسلیم ہی نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے جنگجو گروپ کا چولی دامن کا ساتھ نہیں ہوگا، یا پھر سیاسی جماعتیں کسی جنگجو گروپ کی حمایت نہیں کرتی ہوں گی، زمینی حقایق اظہر من الشمس ہیں کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے جلو میں جنگجو گروپ میں شامل مسلح افراد لازمی ہوتے ہیں اور اختلافات کی صورت میں باہمی ٹکراؤ تشدد کے بڑھاوے کا ذریعہ بنتے ہیں، اسی طرح افغان طالبان کے ساتھ جھڑپوں میں یہی جنگجو گروپ افغان سیکورٹی فورسز، این ڈی ایس اور را کے شانہ بہ شانہ بھی ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ تشدد میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ افغانستان میں تشدد کی ذمے داری کسی ایک گروپ پر ڈالنا حقیقت کے برخلاف ہے۔

افغان طالبان اور امریکا کے درمیان ایک طویل ترین مذاکرتی دور اور اتار چڑھاؤ کے بعد مفاہمتی عمل پر اصولی اتفاق رائے اور دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے بعد امریکا نے معاہدے کی توثیق سلامتی کونسل سے بھی کرائی، عالمی برادری نے معاہدے کا خیر مقدم کیا اور قیام امن کے لئے اہم پیش رفت قرار دیا۔ اخلاقی و قانونی طور امریکا پابند ہے کہ وہ اپنی حاشیہ برادر انتظامیہ سے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے، لیکن تاخیری حربے شکوک پیدا کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لئے کوششوں میں کئی نہ کہیں صاف نیت کا فقدان نمایاں ہے۔

معاہدے کے مطابق قیدیوں کے تبادلے میں رخنہ پیدا کیا گیا، پھر شرائط عاید کرتے ہوئے سست روئی کے ساتھ قیدیوں کی رہائی میں معاہدے کے برخلاف عمل درآمد کیا گیا۔ اس سست روئی کی روش میں بین الافغان مذاکرات کو کئی دور لاکھڑا کر دیا، اقتدار کے لئے باہمی چپقلش کا مقصد مستقبل کے لائحہ عمل میں فروعی مفادات کے لئے گنجائش پیدا کرنا تھا۔ بین الافغا ن مذاکرات میں اس تمام بے یقینی کو دور کرنے کا موقع مل سکتا ہے جو افغان عوام چاہتے ہیں، امارات اسلامیہ نے اپنے کئی سخت موقف میں موجودہ حالات کے تناظر میں لچک پیدا کی، اس کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، اب شراکت اقتدار کے بعد افغان عوام کی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے امن کے استحکام و تشدد کے خاتمے کے لئے قدم بڑھانا چاہیے۔ کیونکہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ امن مخالف عناصر میڈیا میں پروپیگنڈا کرکے امن کوششوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، جھوٹی افوہیں پھیلا کر وہ افغان عوام کی خدمت نہیں، بلکہ انہیں زحمت دے رہے ہیں۔ القدس کے ساتھ افغانستان و کشمیر کی آزادی کے عزم کا اعادہ مسلم امہ کی دیرینہ خواہش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments