اداروں میں کھینچا تانی میں قوم کا نقصان


ہمارے ہاں اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت اسی وقت سے جاری ہے جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے۔ گزشتہ ستر سالوں میں اختیارات سے تجاوز کا رونا ہر دور میں کسی نا کسی ادارے کی جانب سے کسی نہ کسی حد تک لازما موجود رہا ہے۔ درآں حالیکہ ہمارے پاس ایک آئین موجود ہے جس میں ریاستی ڈھانچے کے خدوخال اور تمام ریاستی ستونوں کے افعال و دائرہ کار کی بابت حد بندی موجود ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر کسی ایک ریاستی ستون کو دوسرے ریاستی ستون سے، یا کسی ریاستی ادارے کے سربراہ کے متعلق اختیارات کے ناجائز استعمال یا ریاست کے مفاد کے منافی سرگرمی میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہوں تو اس شخصیت کے مواخذے اور ان شکایات کے با وقار انداز میں ازالے کے لیے بھی آئین میں طریقہ کار درج ہے۔

لیکن جیسے کہ پہلے عرض کیا اس سب کے باوجود ہمارے ہاں اکثر آئینی اداروں کے درمیان کھینچا تانی چلتی رہتی ہے۔ اس کھینچا تانی کی دیگر بہت سی وجوہات کے علاوہ اصل اور بڑی وجہ مختلف ادوار میں جمہوری حکومتوں پر مارے گیا شب خون ہے۔ ان غیر جمہوری ادوار میں منتخب حکومتوں کو نکال باہر کرنے والوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور مخالفین کو کچلنے کی خاطر آئین میں ایسی رفو گری کی جس کی وجہ سے نہ صرف کسی کی بھی گردن دبانی سہل ہو گئی بلکہ اداروں کے لیے بھی ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت کے ایسے چور دروازے کھل گئے جس کے نتیجے میں آئے روز ریاستی ستونوں کے درمیان اختلافات ابھرتے رہتے ہیں۔

بلا شبہ تمام ریاستی اداروں کی اپنی جگہ پر اہمیت مسلمہ ہے۔ کوئی بھی ادارہ اپنی افادیت کے لحاظ سے دوسرے سے کمتر ہرگز نہیں۔ جس طرح کسی مشین کے تمام پرزوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے اسی طرح ریاستی امور کو درست طور انجام دینے کے لیے تمام اداروں کا مکمل فعال ہونا لازم ہے۔ کسی ایک ادارے کو اگر غیر فعال کر دیا جائے تو اس کا اثر مکمل ریاستی مشینری پر پڑتا ہے اور تمام کاروبار مملکت مفلوج ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔

بدقسمتی سے مگر ہمارے ہاں ریاستی ادارے اکثر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے ساتھ دیگر اداروں کو غیر فعال کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے پچھلے ستر برس سے مسلسل سفر کرنے باوجود بطور ریاست ہم ابھی تک وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ ہمارے ساتھ وجود میں آنے والی خطے کی دیگر ریاستیں ترقی میں ہم سے بلا مبالغہ سو سال آگے پہنچ چکی ہیں کیونکہ وہاں کوئی ادارہ اپنے دائرے سے باہر قدم کبھی نہیں نکالتا۔ اسی وجہ سے وہاں نظام مملکت کامیابی سے چل رہا ہے اور وہ ریاستیں دن بہ دن ترقی کر رہی ہیں۔

ہمارے آئین کے مطابق پارلیمنٹ ریاست کا سب سے بالادست ادارہ ہے اور دیگر تمام ادارے اس کے ماتحت ہیں۔ حقیقت میں لیکن پارلیمنٹ ہی اس ملک میں سب سے کمزور اور بے توقیر ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ دیگر اداروں یعنی عدلیہ اور فوج کے بارے میں اس ملک میں بات کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن یہاں پر جس کا بس چلتا ہے وہ اٹھتا ہے اور آئینی لحاظ سے ملک کے سپریم ادارے کو جی بھر کے گالیاں سنادیتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پارلیمنٹ کی اس بے توقیری کی وجہ خود اس کے نمائندے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے جب بھی اس ادارے کی آزادی کو پامال کیا گیا ہر بار پارلیمنٹ کے نمائندے ہی رہزنوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوئے۔ جب بھی کسی ڈکٹیٹر نے پارلیمنٹ پر شب خون مارا اسے خط لکھ کر بلانے اور اس مذموم مقصد پر راضی کرنے کے لیے رات کی تاریکی میں ملاقاتیں کرنے والے اسی پارلیمنٹ کی نمائندگی کے دعویدار ہی تھے۔ اراکین پارلیمنٹ کے بلاوے پر جب کوئی ڈکٹیٹر آ جاتا تو پھر اسے دس دس سال تک خلعت جواز بھی اسی ادارے کی جانب سے پہنایا جاتا رہا۔ اپنے زیر نگین ادارے کے ملازم سے حلف اٹھانے اور اسے ریاست کے سب سے بڑے منصب پر بٹھانے کا کارنامہ بھی تا قیامت اسی ادارے کی پیشانی پر کلنک کا داغ بنا رہے گا۔

اپنے ہاتھوں اپنے پر کترنے والے ”ٹول“ فراہم کرنے کے بعد بے توقیری و بے اختیاری کے رونے میں جان نہیں رہتی۔ طویل عرصے تک پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے لیے 58۔ 2 b کا سہارا لیا جاتا رہا لیکن اٹھارہویں ترمیم میں یہ تلوار پارلیمنٹ کے سر سے اتر گئی مگر 62، 63 کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا جس کے باعث حالات پھر بھی نہ بدل سکے۔ اٹھاون ٹو بی ختم کرتے وقت باسٹھ تریسٹھ ختم کرنے سے پارلیمنٹ کو کس نے روکا تھا؟ اب بھی اٹھارہویں ترمیم کے خلاف سب سے زیادہ مروڑ پارلیمنٹ کی نمائندگی کے دعویداروں کے پیٹ میں ہی اٹھ رہے ہیں۔

اس کے علاوہ آرٹیکل 184 ( 3 ) کے تحت عدلیہ کی جانب سے لیے جانے والے ازخود نوٹسز پر بھی واویلا سننے میں آتا ہے۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عدالتی اختیار کسی دوسرے کے اختیارات میں مداخلت ہے تو اسے آئین سے نکالنے سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ کے ہاتھ کس نے باندھ رکھے ہیں؟ کالم نگار پارلیمنٹ کی سپر میسی کا قائل ہے اور ”جوڈیشل ایکٹو ازم“ پر مجھے سخت تحفظات ہیں۔ لیکن نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر عوامی نمائندے عوامی مسائل کے حل میں ناکام اور کسی واضح پالیسی کے بجائے گومگو کا شکار رہیں گے تو پھر عوامی مفاد کے نام پر لازما کوئی دوسرا آگے آئے گا۔

جب کسی ایک اسٹیک ہولڈر کی کمزوری سے ویکیوم پیدا ہوتا ہے تو فطری بات ہے کہ اس ویکیوم کو کوئی دوسرا پورا کرے گا۔ اگر پارلیمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ اس کے اختیارات میں مداخلت ہو رہی ہے تو وہ قانون سازی کے ذریعے ایسے تمام چور رستے جہاں سے اس کے دائرہ کار میں نقب لگانا ممکن ہوتا ہے بند کردے اور اپنی کارکردگی بہتر بنالے۔ جہاں تک ازخود نوٹسز کی بات ہے یہ پریکٹس پارلیمنٹ اور انتظامیہ کی ناکامی کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے۔

پچھلے دنوں کورونا پر پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا کوئی سنجیدہ بات کرنے اور حل ڈھونڈنے کی بجائے تمام وقت فضول تقاریر سننے کو ملتی رہیں۔ پارلیمنٹ سے یہی فیصلہ نہیں ہوا کہ لاک ڈاؤن ہونا چاہیے یا نہیں۔ یہی حال وفاق اور صوبائی حکومتوں کا تھا۔ جب سے مسئلہ چلا ہے یہ حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف شمشیر بدہن ہیں۔ کاروباری بندشوں میں نرمی کا زبانی اعلان تو کر دیا مگر ایس او پیز بنائے بغیر۔ عدالت نے تو ایک طرح سے وفاق اور صوبوں کے اختیار کی تشریح کرکے ان کی مشکل آسان کر دی۔

کاش سپریم کورٹ ایک اور احسان کرے کہ لارجر بنچ تشکیل دے کر عدالتی اختیارات اور ازخود نوٹسز کا بھی کوئی ضابطہ خود ہی طے کرلے کہ کن موضوعات پر ازخود نوٹس لیا جا سکتا ہے۔ معذرت کے ساتھ کیونکہ کہنا پڑتا ہے کہ ٹیکنیکل معاملات کے بارے ماضی میں لیے گئے نوٹسز نے ملک کو بہت نقصان سے دو چار کیا۔ ریکوڈک پی کے ایل آئی اور اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ عدالت کے حالیہ احکامات سے بھی ڈر لگ رہا ہے دعا ہے کہ اللہ پاک اس فیصلے کو ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments