محبت اور ترس میں فرق کی نفسیات


اسٹیفن زیویگ (Stefan Zweig) یورپ کے ان چند ادیبوں میں سے تھا کہ جس کے کام پر لوگوں کی نظر بہت بعد میں پڑی۔ ایک وجہ یہ تھی کہ اس کے عہد میں یورپ میں بڑے دیو قامت ادیب موجود تھے۔ دوسری وجہ یہ کہ زیویگ کا دور خوفناک جنگوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ زیویگ کو خود اپنی حیات میں سکون نہیں مل سکا۔ جنگ عظیم دوئم سے بھاگ کر وہ لاطینی امریکا چلاگیا۔ لیکن وہاں وطن کی تباہی و بربادی کی خبروں سے وہ بہت مغموم رہا۔ وہ یہودی تھا اور اب اس کے وطن میں اس کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ جس دنیا میں وہ پلا بڑھاتھا وہ ختم ہو گئی تھی۔ اسٹیفن زیویگ نے سنہ انیس سو بیالس میں خودکشی کر لی۔

حال ہی میں میں نے زیویگ کا ناول ”ترس سے ہوشیار!“ (Beware of Pity) پڑھا۔ یہ ناول آسٹرو ہنگرین امپائر کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ فوج کا ایک لیفٹیننٹ ٹونی ہافملر، ہنگری کے ایک قصبے میں تعینات ہے۔ آسٹریو ہنگرین فوج اور عوام میں بڑا فاصلہ ہے۔ دونوں طبقات میں میل ملاپ کے بھی بڑے آداب ہیں۔ اس فضا میں نوجوان ٹونی ہافملر کو علاقے کے ایک رئیس ’کیکس فالوا‘ کے گھر ایک محفل میں دعوت پر مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ محفل دراصل رئیس کی بیٹی ’ایڈتھ‘ کی سالگرہ ہے۔

یہاں ٹونی میزبان کی بیٹی کو اپنے ساتھ ناچنے کی دعوت دے بیٹھتا ہے۔ اس دعوت پر ایڈتھ غیر متوقع طور پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔ ایڈتھ دونوں پاؤں سے معذور ہے۔ اس رقص کی دعوت نے ایک عجیب شرمناک صورتحال کو جنم دیا۔ اس نے ٹونی کے دل میں ایڈتھ لئے ’ترس‘ کے جذبے کو جنم دیا۔ یہیں سے کہانی شروع ہوتی ہے۔ یہ کہانی بعد میں محبت کی داستان بنتی ہے، یک طرفہ محبت کی داستان۔ مگر یہ واقعہ اور اس میں سے جنم لینے والا ترس کا جذبہ اس کہانی کا مرکز بنا رہتا ہے۔

ترس دیکھنے میں ایک سادہ اور مثبت جذبہ ہے لیکن وہ دراصل ایک خوفناک اور تباہ کن احساس ہے۔ ترس کے اندر ایک قسم کی حقارت چھپی ہوتی ہے۔ پھر اپنے اندر کے حقارت کے جذبے پر ایک نوع کی شرم۔ ترس کی بڑی تہیں ہیں۔ ان تہوں پر اس کہانی میں بڑے اعلیٰ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ محبت انسان کو طاقت دیتی ہے۔ ترس اسے کمزور کرتی ہے۔ محبت اپنے ظاہر و باطن میں مثبت ہے۔ ترس اپنے ظاہر میں مثبت ہے اور اپنے باطن میں منفی ہے۔ ترس سے محبت جنم لیتی نہیں، لے سکتی نہیں۔

دوستوئفسکی کے یہاں بھی محبت کے قصے ملتے ہیں مگر کبھی وہاں محبت کہانی کا مرکز نہیں بنتی۔ دوستوئفسکی کے یہاں بھی محبت شاذ و نادر ہی دوطرفہ ہوتی ہے۔ ورنہ دیوانے ’ریگوزین‘ کو ’نستاسیہ‘ سے کی طرف سے صرف وحشت ہی ملتی ہے۔ پرنس میشکن بھی نستاسیہ سے محبت کرتا ہے مگر اس کو بھی وہاں سے محبت نہیں ملتی۔ مگر چلئے نستاسیہ بھی صحیح دماغ تو نہیں ہے مگر کم ازکم وہ مشکن اور ریگوزین پر ترس تو نہیں کھاتی۔ پھر دوستوئفسکی کے یہاں عاشق کا کردار مرد کے پاس ہی رہتا ہے۔ مرد ہی پروانہ ہے اور عورت شمع ہے۔

زیویگ بڑی حد تک دوستوئفسکی کی طرح Psychological Determinism کا قائل ہے یعنی خاص طرح کے انسان کسی خاص انداز میں عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی یہ مجبوری ان کی شخصیت اور ان کے کردار سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کی یہ مجبوری ان کی خواہشات اور ان کی ضروریات سے جنم لیتی ہے۔ انسان اپنی حیات کے تجربات سے خاص قسم کے ذہنی سانچے اور خاص نوع کے ہی اعمال کے قابل ہیں۔ یہ انسانوں کی ایسی ذہنی تقدیر ہے کہ وہ اس کو چاہتے ہوئے بھی بدل نہیں سکتے۔

زیویگ نے بڑی خوبصورتی سے دکھایا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان محبت ہونے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کریں۔ اور اس میں بھی یہ لازم ہے کہ مرد ہی اظہار محبت میں پہل کرے۔ اگر ایک فریق تو محبت کرے اور دوسرے کو اس پر ترس آتا ہو تو یہ محبت نہیں ہے۔ ایسا رشتہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ زیوگ نے دکھایا ہے کہ محبت کے رشتے میں پہل مرد کو کرنی پڑتی ہے۔ اس صورت میں اگر سامنے سے انکار بھی ہو تو اس سے وہ اثر نہیں پڑتا جو کہ عورت کے کسی مرد سے اقرار محبت کرنے اور مرد کی طرف سے انکار کی صورت میں ہوتا ہے۔

زیویگ کے بقول، محبت کی سب سے خوفناک صورت وہی ہے کہ جب عورت محبت کرے مرد کی طرف سے انکار ہو۔ اس لیے کہ عورت اپنا دل بڑی مشکل سے کسی کے سامنے کھولتی ہے۔ فطرت نے محبت میں عورت کو شمع کا کردار دیا ہے۔ اگر وہ پروانہ بن جائے تو یہ رقص الٹ جاتا ہے۔ محبت کا اظہار ایک فریق کرے اور سامنے والا انکار کرے تو بھی یہ حالت آخر میں کسی نوع کے توازن میں ڈھل سکتی ہے۔ مگر اگر صورت یہ ہو کہ ایک طرف سے اظہار محبت ہو اور دوسری طرف جذبۂ ترس ہو تو یہ ترس انکار کی ہمت بھی چھین لے گا۔

اس صورت میں ایک جانب محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف ایک محبت کا سا تاثر جو کہ ایک تذبذب اور شرم میں ڈوبا ہوتا ہے۔ فریق ثانی سوچتا ہے، ”اس بیچاری کو میں انکار کیسے کروں؟ اس پر کیا بیتے گی؟“ ۔ اس انکار سے تذبذب سے ایک نوع کی برزخ پیدا ہوتی ہے، ایک درمیانی کیفیت۔ محبت کا فارمولا کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک جانب ’محبت‘ اور دوسری جانب ’ترس‘ ہو۔ ایسی صورت میں کہ مرد یوں سوچ کر عورت کی محبت کو مان لے کہ اس ”بے چاری“ نے کس ہمت سے اپنے دل کا حال بیان کیا ہے، تو یہ رشتہ محبت نہیں صرف ’ترس‘ بن جائے گا۔

زیویگ قنوطیت پسند تھا لیکن جس دنیا میں وہ جی رہا تھا، بلکہ جس دنیا میں میں اور آپ جی رہے ہیں کیا وہ بڑی حد تک مایوس کن نہیں؟ کیا ہر لمحہ ہمیں دنیا سے غمناک خبریں نہیں ملتیں؟ Psychological Determinism کا نظریہ بھی بڑی حد تک مایوسی ہی کو جنم دیتا ہے۔ اس لیے کہ انسان جو کر رہا ہے وہی کرنے پر مجبور ہے۔ ہٹلر، ہٹلر ہونے پر مجبور ہے۔ اسٹالن، اسٹالن ہونے پر مجبور ہے۔ خود اسٹیفن زیویگ، اسٹیفن زیوگ ہونے پر مجبورہے اور میں اور آپ بھی اپنی اپنی فطرتوں اور عادات سے مجبور ہیں۔

سگمنڈ فرائیڈ اسی نظریے کا حامی تھا۔ اس کے نزدیک ذہنی سکون کا صرف ایک ہی راستہ ہے، خود آگاہی۔ زیویگ ’خود آگاہ‘ تھا مگر خود کے آگے مجبور بھی تھا، شاید اسی لیے اس نے خودکشی کر لی۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ زویگ کی زندگی کا انجام ہے یا اس کے ناول کا۔ سمجھ نہیں آتا کہ انسان ترس سے ہوشیار رہے یا زندگی سے؟ کیونکہ اگر انسان مجبور ہی ہے تو اس کا کسی شے سے چوکنا ہونا بھی اسے کیسے بچائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments