جانتے نہیں ہو میں کون ہوں؟ کیونکہ ہم حیوانوں کے معاشرے میں بستے ہیں


ایک کرنل صاحب کی بیوی کی چیختی چنگھاڑتی وڈیو سامنے آئی ہے اور جس انداز تنفر سے وہ پولیس والوں سے مخاطب ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ان کو سوشل میڈیا پر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور وہ ہر جگہ ہر وال پر ٹاپ ٹرینڈ رہیں۔

لیکن سوچ رہی ہوں کیا یہ اختیارات حاصل ہونے کا اپنے آپ کو زمین کا خدا سمجھنے کا کوئی پہلا واقعہ ہے۔ کیا اس قوم پر مسلط فرعونوں کا عذاب ختم ہوگیا ہے؟

کیا اس سے پہلے اس قوم نے رحیم یار خان میں پولیس کے ہاتھوں مرنے والے صلاح الدین کی لاش پر تشدد کے نشانات نہیں دیکھے تھے؟ اس کی آخری وڈیو میں جہاں اس نے حیوانوں کے معاشرے میں بسنے والے درندوں سے سوال کیا تھا پوچھا تھا ایک بات کہوں مارو گے تو نہیں تم نے مارنا کہاں سے سیکھا؟

کیا اس قوم نے اس سے پہلے ساہیوال میں اندھی گولیوں کا نشانہ بنے معصوموں کی لاشوں کو نہیں دیکھا تھا؟ کیا خون میں ڈوبی ایک معصوم کی فیڈر نہیں دیکھی تھی۔

کیا اسی قوم نے ماڈل ٹاؤن میں معصوموں پر برستی گولیاں لائیو نہیں دیکھی تھیں؟
کیا اسی قوم نے تین سو روپے چرانے والے بچے کو مار مار کر موت کے منہ میں جاتے نہیں دیکھا؟
کیا اسی قوم نے سیالکوٹ میں دو بھائیوں کی تشدد زدہ اور مشعل کی مسخ شدہ لاشیں نہیں دیکھیں؟

کیا اسی قوم نے نقیب کی انصاف کے لیے آج تک تڑپتی ہوئی لاش نہیں دیکھی؟ کیا اسی قوم نے رینجرز کے ہاتھوں کھلی سڑک پر ایک معصوم کو مرتے نہیں دیکھا تھا؟

کیا اسی قوم نے معصوم کو مسیحاؤں کی بے حسی کے ہاتھوں ماں باپ کے ہاتھوں مرتے نہیں دیکھا؟

ارے کیا اسی قوم نے شاہ رخ جتوئی کو قانون کی دھجیاں اڑاتے نہیں دیکھا۔ کیا اسی قوم نے غیرت کے نام پر روز کے حساب سے اپنی بیٹیوں کو قتل ہوتے نہیں دیکھ؟

کیا اسی قوم نے گھر سے لے کر مدرسوں تک اپنے بچوں کو درندگی کا نشانہ بنتے نہیں دیکھا؟
کیا اسی قوم نے بچوں کی پورنو گرافک فلموں کا ہوتا کاروبار تو شاید نہیں دیکھا ہوگا؟
کیا اسی قوم نے نجی جیلوں میں قید بے گناہ مزارعوں کی وائرل وڈیوز نہیں دیکھی ہوں گی؟
اسی قوم کو شاید ایک خاتون کی وڈیو یاد ہو جو اسی طرح کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کانسٹیبل کو دھمکیاں دے رہی تھیں۔

معزز فیشن ڈیزائنر کی وڈیو بھی شاید یاد ہو جہاں وہ رو رو کر وزیر اعظم سے انصاف مانگ رہی تھیں کیونکہ ان کے معصوم شوہر نے بس اپنے ملازم کو کورونا ٹیسٹ پازیٹو پر بس میں بٹھا کر روانہ کر دیا تھا۔

کیا اس قوم کو نہیں معلوم کہ اس قوم میں خاص باشندوں کے لیے انصاف کے الگ معیارات ہیں اور کیڑوں کی طرح رلتے عوام کے لیے تحفظ اور انصاف کے معیارات بھی جدا ہیں۔

کیا اسی قوم نے اختیارات کی شان کے شکوے پہلے نہیں دیکھے ہیں؟

اسی قوم نے اکیس اکیس گاڑیوں کے قافلے نہیں دیکھے ہیں؟ کیا اسی قوم نے ہر سڑک پر انصاف کے منہ پر دھول اڑاتی گاڑیوں کو نہیں دیکھا؟

کیا اسی قوم نے یہ جملہ کبھی نہیں سنا کہ جانتے نہیں میں کون ہوں؟
شاید یہ جملہ جتنی بار اس قوم نے سنا ہوگا کسی اور نے نہیں سنا ہو گا۔ ”جانتے ہو میں کون ہوں؟“

صرف یونی فارم پہنے کسی پولیس والے کسی رینجرز کسی فوجی کا ہی معیار نہیں ہے بلکہ یہ تو کسی بھی صاحب اختیار صاحب ثروت اور صاحب اقتدار کا زندگی گزارنے کا وتیرہ ہے۔

تو کچھ دن اس وڈیو کا بھی شور رہے گا پھر کوئی نیا مصالحے دار یا پھر دلوں دہلا دینے والا واقعہ ہوگا پھر کوئی آپے سے باہر کہیں انصاف کی دھجیاں اڑا دے گا۔ کیونکہ ہم انسانوں کے مہذب معاشرے میں نہیں بلکہ حیوانوں کے معاشرے میں بستے ہیں جہاں صرف طاقتور کی حکمرانی چلتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments