بیمار اور اخلاقی انحطاط کا شکار معاشرہ



بیمار اور اخلاقی زوال کے شکار معاشرے کی یہ نشانی ہے کہ وہ اپنے سے طاقتور کے سامنے گھگھیاتے ہوئے نظر آئیں گے جب کہ اپنے سے کمزور پر چنگھاڑتے ہوئے ملیں گے۔

کرنل کی بیوی والے معاملے کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک عمومی رویہ ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت اور اختیار ہے تو آپ اپنے آپ کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اور اس بالا تری کے مظاہر آپ کو ہر روز معمول کے مطابق دیکھنے کو ملیں گے، ہر طاقتور کمزور کو دباتے ہوئے اور ظلم کرتے ہوئے نظر آئے گا، اور یہ رویہ معاشرے کے ہر طبقے میں پایا جاتا ہے۔ یہاں پر قانون صرف اس آدمی کے لیے ہے جس کے پاس نہ اختیار ہے، نہ طاقت ہے اور نہ پیسہ ہے۔

اگر یہ واقعہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ہوا ہوتا تو اب تک کرنل کی زوجہ محترمہ سلاخوں کے پیچھے ہوتیں، یا پاکستان میں ہی اگر کسی کمزور اور عام بندے نے ایسا کیا ہوتا اور اس طرح گاڑی بھگائی ہوتی تو پولیس اس کو گولی مار کر قانون کا سر فخر سے بلند کر چکی ہوتی۔

اگر آپ غریب ہیں تو ہو سکتا ہے پان چوری کے مقدمے میں آپ سالوں جیل میں کاٹ دیں، یا حوالات میں پولیس کے تشدد سے جاں بحق ہو جائیں، اگر آپ کے پاس پیسہ اور اختیار نہیں تو پھر آپ کا کوئی پرسان حال نہیں پھر آپ کو اس معاشرے میں کسی بھی ظلم اور زیادتی کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

اس لاقانونیت اور زیادتی کے مظاہر پاکستان میں روز دیکھنے کو ملتے ہیں، مثلاً اگر آپ قانون کے پابند شہری ہیں اور کسی صاحب اختیار سے کوئی علیک سلیک بھی نہیں اور کوئی سرکاری کام آپ کو آن پڑا ہے تو پھر آپ خواری کے لیے تیار رہیے، آپ قطار میں لگے ہوئے ہیں ایک آدمی آتا ہے اس کے پاس سفارش ہے یا اس کی کوئی واقفیت ہے یا رشوت دینے کے لیے پیسہ ہے تو ایک دقیقے میں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ اپنا کام اندر صوفے پر بیٹھ کر کروا کے چلتا بنے گا اور آپ وہاں بیٹھے دل ہی دل میں یا با آواز بلند کڑھتے رہیں گے۔

آپ ایئر پورٹ پر لائن میں لگے ہوئے ہیں کوئی صاحب اختیار آتا ہے اور قطار کو توڑتے ہوئے سب سے پہلے امیگریشن کروا کے بغیر تلاشی دیے لاؤ نج میں پہنچ جاتا ہے، یا آپ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے صبح سے دھوپ میں کھڑے ہیں ایک آدمی گاڑی سے اترتا ہے بغیر لائن میں لگے دو منٹ میں کارڈ بنا کر چلا جاتا ہے تو ادھر جو لوگ کھڑے ہیں ان کے اندر شعوری یا لا شعوری طور پر یہ خواہش یا احتیاج پیدا ہو جاتی ہے کہ اس طرح کا اعزاز اور رتبہ حاصل کیا جائے تاکہ مجھے بھی اسی طرح کی شوکت اور عزت مل سکے، جب اس کو پتا چلتا ہے کہ اس طرح کی شان اور شرف دیانت، شرافت اور ایمانداری سے نہیں بلکہ پیسے سے یا اختیارات سے حاصل کیا جا تا ہے تو پھر وہ یہ نہیں دیکھے گا یا نہیں سوچے گا کہ اس طرح کا درجہ اور رتبہ پانے کے لیے وہ کہیں اخلاقی اقدار کو پامال تو نہیں کر رہا۔

انسان کی سب سے بڑی خواہش عزت حاصل کرنا ہے، اچھے اور اخلاقی طور پر بلند معاشروں میں بزرگی کا معیار شرافت، دیانت داری اور ایمانداری ہوتی ہے اس لیے لوگ کوئی بھی غیر اخلاقی کام کرنے سے جھجکتے ہیں، بے ا یمانی کا کام کرنے سے ہچکچاتے ہیں، لیکن جب سے معاشرے میں بڑائی کا معیار پیسہ ٹھہرا تو لوگوں نے کسی بھی اخلاقی اور غیر اخلاقی طریقے سے پیسے کے حصول کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں اور معاشرے نے بھی یہ دیکھے بغیر کہ یہ مال حلال طریقے سے کمایا گیا ہے یا حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہے اس بندے اور خاندان کو سر آنکھوں پر بٹھانا شروع کر دیا تو اسی روز سے معاشرے کی اقدار کا جنازہ نکل گیا، کیونکہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت اور آرزو عزت ہے تو جب اس نے دیکھا کہ پیسے سے طاقت کے اظہار سے اور اختیارات کی نمائش سے مرتبہ اور اعزاز ملتا ہے تو اس کا مطمح نظر ان اوصاف کا حصول ٹھہرا چاہے وہ کتنی ہی غلط روش سے یا کسی بھی غلط طریق سے حاصل کئیے جائیں، جب معاشرے کی یہ سوچ، یہ بنت اور یہ ہیئت بن جائے تو پھر اس طرح کے واقعات ہونا کوئی انہونی نہیں، یہ واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے، اس طرح کے واقعات میں طاقت کا اظہار ہے، اختیارات کی نمائش ہے، پیسے کا دکھاوا ہے، اور بدقسمتی سے یہ ہی اقدار معاشرے میں شان و شوکت اور غلبے کی نشانی ہیں۔

معاشرے میں فخر و عزت کا معیار، شرافت اور ایمانداری، دیانت و صداقت کو بنایا جائے تو یقین کریں معاشرے میں سدھار آنا شروع ہو جائے گا، لوگ جب کسی حرام کھانے والے کا معاشرتی مقاطعہ کریں گے، کسی بندے کے اختیارات کے ناجائز استعمال کو برا جانیں گے تو اس طرح کی خرابیاں بالکل ختم ہو جائیں گی، معاشرہ بالکل بدل جائے گا، اور اصل تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی۔ معاشرے کو اگر تبدیل کرنا ہے تو ہمیں اپنی اخلاقیات، روایات اور سوچ کو بدلنا ہوگا، اور ہر اس بندے کا معاشرتی، سماجی بائی کاٹ کرنا ہوگا جس کے بارے میں ذرا بھی شبہ ہو کہ اس نے ناجائز طریقوں سے مال اکٹھا کیا ہے اور عزت کا معیار اخلاقی برتری اور تقویٰ کو بنانا ہوگا، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گے تو پھر ہمیں کسی مسیحا کو ڈھونڈنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

یہ واقعہ صرف ایک استعارہ ہے، ہمارے معاشرے کا عکس ہے، ہماری سوچ کا آئینہ ہے اور ہماری اخلاقیات کا چہرہ ہے، آپ اپنے گردو پیش میں نظر دوڑائیے آپ کو سب لوگ کم و بیش اسی طرح کی ذہنیت کے ملیں گے بس فرق یہ ہے کہ ان میں اتنا دم نہیں، جوں ہی ان کے پاس اختیارات اور اقتدار آتا ہے ان کا باطن آشکار ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments