کشتی، تین دوست اور برائے نام کتا(قسط 3)


اس لیے بارش میں کیمپنگ کا پروگرام مسترد ہوگیا اور یہ طے ہوا کہ کھلے موسم میں ہم کیمپنگ کریں گے جبکہ ابر آلود شامیں کسی ہوٹل یا سرائے میں گزاریں گے۔ اس فیصلے کی مانی نے بھی بھرپور تائید کی کیونکہ ہوٹلوں اور مسافر خانوں کے اندر اور ارد گرد مانی کی دلچسپی کا سامان یعنی کتے، بلیاں اور چوہے وغیرہ بکثرت پائے جاتے ہیں۔

بوٹ سفاری کے دوران شب بسری کا مسئلہ حل ہوجانے کے بعد اب صرف زاد راہ کا انتخاب کرنا باقی رہ گیا تھا۔ اس مرحلے پہ جارج نے کہا کہ آج ہم نے اپنی بساط سے کہیں زیادہ مغز ماری کر لی ہے، اس لیے اب تھکن دور کرنے کے لیے کچھ پینا چاہیے اور حسن اتفاق سے وہ قریب ہی ایک ایسی جگہ کے بارے میں جانتا ہے جہاں نہایت اعلی درجے کی وائن ملتی ہے۔ یوں باقی معاملات کل پہ چھوڑ کے ہم بار کی طرف روانہ ہوگئے۔

اگلی شام ہم سفر کی منصوبہ بندی کے لیے دوبارہ جمع ہوئے تو زاد راہ کی فہرست کی تیاری شروع ہوئی۔ انتہائی ضروری سامان کی جو پہلی لسٹ دیپک اور میں نے مرتب کی اس میں درج سامان اتنا زیادہ تھا کہ وہ دریا میں چلنے والی کشتی تو درکنار، شاید کسی بحری جہاز میں بھی نہ سما سکتا۔ اس پہ جارج نے کہا، تم لوگ کان کو الٹی سمت سے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہو۔ ہمیں ان چیزوں کی لسٹ بنانے کی بجائے جن کی ہمیں دوران سفر ضرورت پڑ سکتی ہے، صرف ان اشیا کے بارے میں سوچنا چاہیے جن کے بغیر قطعاً گزارا نہیں ہو سکتا۔

جارج بعض اوقات ایسی پتے کی بات کردیتا ہے کہ بخدا ارسطو ثانی لگتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیجیے، بوٹ سفاری کے حوالے سے اس نے جو کہا وہ زندگی کے سفر پہ بھی یکساں لاگو ہوتا ہے۔ ہم اکثر زندگی کی کشتی پہ بے تحاشا کاٹھ کباڑ لاد کے اسے سبک خرامی سے تیرنے کے قابل نہیں رہنے دیتے یا اس کو قبل از وقت ڈبونے کا بندوبست کر دیتے ہیں۔ نت نئے فیشن کے ڈھیروں ملبوسات، نفیس برتنوں سے بھری الماریاں جو کبھی نہیں کھلتیں، بڑے بڑے گھرجن کے بیشتر کمرے استعمال نہیں ہوتے، لاتعداد دوست جن کو آپ کی رتی بھر پرواہ نہیں ہوتی یا فضول قسم کی دعوتیں جن میں میزبان اور مہمان نمائشی مسکراہٹیں چہروں پہ سجائے دعوت ختم ہونے کا بے چینی سے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اور ان سب پہ مستزاد، ہمہ وقت اس خوف سے کانپتے رہنا کہ لوگ کیا کہیں گے۔

یہ سب کاٹھ کباڑ نہیں تو اور کیا ہے؟ جب ہم یہ سب کچھ زندگی کی ناؤ میں ٹھونس لیتے ہیں تو وہ سنبھالے نہیں سنبھلتی اور اس کو کھینچتے کھینچتے جان لبوں پہ آ جاتی ہے۔ مال و اسباب کے حصول کی تگ و دو اور اس کی دیکھ ریکھ سے عمر بھر اتنی فرصت بھی نہیں ملتی کہ انسان کبھی سر اٹھا کے آسمان کے بدلتے ہوئے رنگوں کو دیکھ لے، پتوں سے چھن کر آنے والی دھوپ کا نظارہ کرلے یا اس کے پاؤں ساحل کی خنک ریت کے لمس سے آشنا ہو سکیں۔

اگر سکون سے جینا چاھتے ہو میرے دوست، تو زندگی کی ناؤ میں صرف وہی رکھو جو اہم ہے اور باقی سب کچھ اٹھا کے باہر پھینک دو۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان بلاوجہ اپنی تمناؤں اور خواہشات کی دنیا کو پھیلاتا چلا جا رہا ہے اس لیے جسے دیکھو، وہ ”بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے“ بڑبڑاتا پھرتا ہے۔ درحقیقت جو آپ کو واقعی چاہیے اس کی فہرست بہت ہی مختصر ہے، یعنی رہنے کے لیے ایک چھت، ایک دو مخلص دوست، ایک کتا یا بلی، تمباکو پینے کے لیے ایک پائپ، چند کپڑے، بقدر ضرورت کھانا اور ضرورت سے ذرا سی زیادہ شراب کیونکہ بھوک تو برداشت ہو جاتی ہے مگر پیاس نہیں ہوتی۔ اگر آپ غیر ضروری اسباب سے گلو خلاصی کروا کے زندگی کی ناؤ کو ہلکا کر لیں تو یہ وقت کے دریا پہ از خود رواں دواں رہے گی اور آپ چپو ایک طرف رکھ کے مزے سے وائن اور موسیقی سے دل بہلا سکیں گے۔

معاف کیجیئے گا بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ اب جارج نے بوٹ سفاری کے لیے درکار اشیا کی لسٹ بنانا شروع کی تو سب سے پہلے خیمے کی چھٹی ہو گئی۔ بقول جارج، ہم سائبان والی کشتی پہ جائیں گے اور اسی میں رہیں گے۔ خیمے کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ بات معقول تھی، اس لیے منظور کر گئی۔ چھت والی کشتی دراصل عام کشتی ہی ہوتی ہے جس کے چاروں جانب لوہے کے پائپ لگا دیتے ہیں جن میں کنڈے لگے ہوتے ہیں۔ جب کشتی کو ڈھانپنا ہو تو اس کے اوپر ایک ترپال ڈال اس کو مضبوطی سے کنڈوں کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ لیجیے جناب، ایک چھوٹا سا آرام دہ گھر تیار ہو گیا جس میں آپ سردی اور بارش سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ چھت ڈالنے سے کشتی کے اندر کچھ گھٹن سی محسوس ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائے، کوئی نہ کوئی خامی تو ہر چیز میں ہوتی ہے۔ زندگی میں راحتیں اور کلفتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ دیپک کا قول ہے کہ زندگی میں کوئی خوشی مکمل نہیں ہوتی اور اس کے ثبوت کے طور پہ وہ یہ مثال پیش کرتا ہے کہ جب اس کی ساس کا انتقال ہوا تھا تو مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے اخراجات اس کو ادا کرنا پڑے تھے۔

سائبان والی کشتی کے علاوہ جارج کی فہرست میں درج ذیل اشیا شامل تھیں، تین گدے، ایک لیمپ، صابن، ایک کنگھا، ایک ٹوتھ پیسٹ اور ایک شیونگ کریم (مشترکہ استعمال کے لیے ) ، اپنا اپنا ٹوتھ برش، اور کچھ جہازی سائز کے تولیے۔ تولیوں پہ یاد آیا کہ لوگ جب دریا، ندی، جھیل یا سمندر کی طرف جائیں تو سوئمنگ کے لیے بڑے انتظامات کرتے ہیں لیکن اکثر پانی کو چھوئے بغیر ہی واپس آ جاتے ہیں۔ میرا ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔

میں روزانہ مصمم ارادہ کرتا ہوں کہ کل علی الصبح سمندر میں نہانے جاؤں گا جس کے لیے سر شام ہی دو عدد جانگیئے اور ایک بڑا تولیہ بہت اہتمام سے بیگ میں ڈال کے رکھ لیتا ہوں۔ جانگیئے ہمیشہ سرخ رنگ کے ہوتے ہیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ سرخ رنگ کے جانگیئے مجھ پہ خوب جچتے ہیں۔ لیکن صبح ہوتے ہوتے نہ جانے کیوں گزشتہ شام والا ولولہ سرد پڑ جاتا ہے اور جب تک سمندر میں نہانے کا وقت نکل نہ جائے، میری نیند ہی پوری نہیں ہوتی۔

ایک یا دو دفعہ میں ہمت کرکے صبح چھ بجے سمندر پہ پہنچ بھی گیا لیکن بہت بدمزہ ہوا۔ قدرت نے میرے لیے کچھ ایسا خاص انتظام کیا ہوا ہے کہ جیسے ہی میں ساحل پہ پہنچتا ہوں، یک لخت سرد ہوا کے جھکڑ چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ساحل پہ کوئی میرے پہنچنے سے پہلے تین کونوں والے نوکدار کنکر بچھا کے ان پہ چابک دستی سے ریت کی باریک سی تہہ بچھا دیتا ہے تاکہ وہ میری نظروں سے اوجھل رہیں۔ اب سمندر کی طرف دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساحل سے کم از کم دو میل پیچھے سمٹ چکا ہے۔

خیر میں سردی سے سکڑتا، سمٹتا، کپکپاتا ہوا بالاخر سمندر تک پہنچتا ہوں تو یکایک موجوں میں طغیانی آجاتی ہے۔ ایک زبرست لہر اٹھا کے مجھے کسی چٹان پہ پٹختی ہے تو دوسری میرے سنبھلنے سے پہلے ہی مجھے سمندر کے وسط میں پہنچا دیتی ہے جہاں سے ساحل کوسوں دور محسوس ہوتا ہے۔ ساحل کی سمت پوری قوت سے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے سوچتا ہوں کہ اپنے پیاروں کو دوبارہ دیکھنے کا موقع شاید دوبارہ نہ ملے اور یہ کہ کاش بچپن میں اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ میں زیادہ شفقت سے پیش آیا ہوتا۔ جب زندہ بچ نکلنے کی کوئی امید نہیں رہتی تو اچانک لہریں پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور میں اپنے آپ کو ریت پہ چاروں شانے چت لیٹا ہوا پاتا ہوں۔

بہر کیف، میرے بوٹ سفاری کے ہمسفر سوئمنگ کے بارے میں بہت سنجیدہ تھے۔ جارج کا کہنا تھا کہ صبح صبح دریا کے شفاف پانی میں چند ڈبکیاں لگانے سے انسان بالکل تروتازہ ہو جاتا ہے۔ دیپک نے اس کی پرزور تائید کی اور کہا کہ ناشتے کی اشتہا کو مہمیز کرنے کے لیے سوئمنگ سے بہتر کوئی ورزش نہیں۔ اس پہ جارج بولا کہ دیپک کی عمومی خوراک کے حساب سے جتنا کھانا رکھ کے ہمیں کشتی کو دریا کے بہاؤ کی مخالف سمت میں کھینا پڑے گا، وہ پہلے ہی کافی مشکل ہے، اس لیے اگر سوئمنگ کے بعد یہ پہلے سے بھی زیادہ کھائے گا تو ہمیں اس کی تیراکی پہ پابندی لگانی پڑے گی۔

کپڑوں کے بارے میں جارج کا خیال تھا کہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے فلالین کے صرف دو سوٹ کافی ہوں گے جن کو میلا ہونے پہ با آسانی دریا میں دھویا جا سکتا ہے۔ ہمارے استفسار پہ کہ آیا اس نے یہ تجربہ پہلے کیا ہوا ہے، جارج کا کہنا تھا کہ اس نے خود تو دریا میں کبھی کپڑے نہیں دھوئے لیکن اس کے دوستوں نے بارہا ایسا کیا ہے اور ان کے بقول یہ بہت آسان ہے۔ یہ سوچ کے کہ اگر آپ کے پاس تھوڑا سا صابن ہو اور چاروں طرف صاف پانی بہہ رہا تو کپڑوں کے ایک دو جوڑے دھونے میں کیا دقت پیش آ سکتی ہے، میں اور دیپک بھی اس پہ راضی ہو گئے۔ (یہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ جارج کی اس سلسلے میں معلومات صفر سے بھی کم تھیں، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی) ۔

اس سیریز کے دیگر حصےکشتی، تین دوست اور برائے نام کتا (قسط 2)۔کشتی، تین دوست اور برائے نام کتا (قسط 4 )۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments