ہندوستانی مسلمان: حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے


کہاں سے شروع کروں؟ کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری۔ ہم اب بھی بے خبر ہیں اور خوش فہمی کے کمزور اور نازک پل پر سوار ہیں۔ ایک ایسی شاطر حکومت ہمارے درمیان ہے جس نے بغیر تختی، اور اعلان کے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا دیا۔ کچھ بات ہے کہ ہستی۔ ہستی مٹنے والی ہے صاحب اور یہ مکالمہ ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو سنجیدہ ہو کر ہاتھی کی تعریف بیان کر رہے تھے۔ پانچ اندھوں کی کہانیاں۔ یاد ہے؟ ایک نے پونچھ پکڑی اور ہاتھی کو چوہیا بتایا۔

ہم نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی پونچھ تھام رکھی ہے اور ہم ان تنظیموں کو بے ضرر چوہیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور یہاں خاموشی سے ہندو راشٹر بن بھی گیا۔ مسلمان کہاں ہیں؟ کہیں ہیں بھی یا نہیں؟ دیکھنے کے لئے دوربین یا خوردبین کی ضرورت نہیں پڑیگی۔ کیونکہ انصاف کی عمارتوں سے خفیہ ایجنسی، پولیس سے فوج، اور تمام بڑے شعبوں میں، آنے والے وقت میں مسلمان کہیں نہیں ملیں گے۔ اردو کلاس میں نہیں ملیں گے۔ ممکن ہے، اردو کو پاکستانی زبان قرار دے کر اردو کا وجود ہی ختم کر دیا جائے۔

ہم اس وقت سیاست کی بساط پر اندھے بھی ہیں، گونگے بھی۔ بہرے بھی۔ اور اسی لئے ہمارا خاتمہ طے ہے۔ ہم یہودیوں کی طرح مر کر جینے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم ہتھیار ڈالنے والوں میں سے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے، ایک ایک دن کا حادثہ یاد کیجئے۔ اور ہر حادثے کو محفوظ کرتے ہوئے خود کو بارود بنانے کی تیاری کریں۔ پچھلے چھ برس کے ایک ایک دن کو یاد کیجئے۔ ایک ایک دن۔ ہر دن مسلم ہلاکت کی کہانی دہرائی گئی ہے۔ آپ کہاں تھے؟ شاہین باغ شروع ہوا، ختم ہو گیا۔

اب کوئی شاہین باغ نہیں ہوگا۔ وہ وہاں آ چکے ہیں جب ہر روز ملک کے کسی نہ کسی خطے میں غریب مسلمانوں کا دھرم پریورتن ہو رہا ہے۔ کل ایک پولیس والے نے ایک ہندو وکیل کو زخمی کیا۔ پھر کہا، ہم سمجھے کہ کوئی مسلمان ہے۔ یعنی حکومت کی شہ ہے کہ مسلمان ہو تو مارو۔ مسلمان ہو تو قتل کر دو۔ قتل کرتے جاؤ۔ مسلمان کچھ نہیں بولے گا۔ وہ خوف زدہ ہے۔ ڈرا ہوا ہے۔ ۔ انصاف بھی تمہارے ساتھ ہے۔

دلی کے قریب بوانا سے کچھ دور آگے کچھ مسلمان خاندان زبردستی ہندو بنا دیے گئے۔ بہار میں بدر عالم خان نے خوف زدہ ہو کر اردو کی تختی ہٹا دی۔ اور مسلمان سوچتا ہے، سب کچھ ٹھیک رہیگا۔ سر پر ترشول لے کر غدار کھڑے ہوں گے تو ہم اسلام کے منکر ہو جاہیں گے؟ اسلام؟ کیسا اسلام؟ یہ ہو رہا ہے۔ یہ تحریک آگے بڑھے گی۔ ہم میں سے ہر شخص خوف زدہ بدر عالم ہے جو حادثہ سے پہلے ہی اپنی نشانی مٹا دیتا ہے۔ اپنی تختی کو جلا دیتا ہے

دیپک بتول ایک وکیل تھا۔ داڑھی تھی۔ پولیس نے زخمی کر دیا۔ اور آزاد ہندوستان میں، جہاں سیکولر ازم اور جمہوریت کی باتیں کی جاتی ہیں، پولیس کے عملہ نے بیان دیا کہ ہم نے مسلمان سمجھا تھا۔ کیا یہ کوئی چھوٹا سا حادثہ ہے؟ اس حادثے میں 1925 کی سنگین کہانی دیکھئے، جب آر ایس ایس کی بنیاد رکھی گیی۔ 2002 کا گجرات دیکھئے۔ چھ برسوں کا ہندوستان دیکھئے۔ پہلو خان اور اخلاق جیسوں کی ہلاکت کو یاد کیجئے۔ ڈاکٹر کفیل کے جرم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔

پھر بار بار اس مکالمے کو یاد کیجئے جو پولیس نے ادا کیا، ہم سمجھے کہ کوئی مسلمان ہے۔ یعنی مسلمان ہوا تو ذبح کر دو گے؟ گولی مار دوگے؟ اے کے 47 چلاؤ گے؟ تم جامعہ اور شاہین باغ میں بھی تھے۔ بھاگلپور میں بھی۔ ہاشم پورا میں بھی۔ کیا تم پولیس والے مسلمانوں کی ہلاکت کے لئے بناہے گئے ہو؟ یہ سوال کون پوچھے گا؟ ہماری ملی تنظیمیں؟ کون پوچھے گا۔ پولیس جو حفاظت کرتی ہے کیا اسے مسلمانوں کا خون بہانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ اہ۔ ۔ ۔ انا للٰہ وانا الیہ راجعون۔ کون مرا؟ ایک مردہ قوم تھی۔ مر گیی۔ کچھ اردو کے پروفیسر بھی تھے۔ سرکاری ملازم بھی۔ ۔ ۔ اہ۔

حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے۔
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
اس کہانی کو یہی چھوڑتے ہیں۔ برسوں پہلے کے کچھ منظر یاد کرتے ہیں۔

پیارے نازی۔ تم ہمیشہ سے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ تم تباہ ہو گئے۔ لوگوں کو مارنے سے پہلے نازی فوجیوں نے یہودی ذہنی مریضوں اور ان کی نرسوں کو پہلے ٹیسٹ کے طور پر ہلاک کیا۔ تین سال کے بعد، انہوں نے ان گیس چیمبروں میں لاکھوں یہودیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس کام کو انجام دینے کا کام نازی جرمنی میں نیم فوجی تنظیم، شوالسٹل (ایس ایس) کو دیا گیا تھا۔ اس تنظیم کے لوگوں نے پہلے نفسیاتی ماہروں کو اغوا کیا اور حراستی کیمپ میں رکھا۔

1940 تک ان لوگوں نے 5، 000 سے زیادہ مریضوں اور سینکڑوں پولش نرسوں کو ہلاک کر دیا۔ پولینڈ پر قبضہ کے بعد، نازیوں نے پہلے قتل عام کے لئے گیس چیمبروں کا استعمال کیا۔ 10 اکتوبر، 1939 کو، 19 ویں صدی کے فورٹ کولمب نے پوزنن سٹی میں پہلا حراستی کیمپ بنایا۔ اس جگہ کو نازی حکمرانی کے قیدیوں کو رکھنے کی جگہ کے بجائے منظم انداز میں نفسیاتی ماہرین کے قتل کا مرکز بنایا گیا تھا۔ نازی طاقت کے خلاف جو بھی بولتا تھا اسے یہاں ختم کر دیا جاتا تھا۔ یہودیوں کو بہت پرانے گیس چیمبروں میں پھینک دیا جاتا تھا۔

ایک دلچسپ بات اور۔ جب تمام مردوں کی موت ہوگئی، خواتین کو بیماروں کے پاس لایا گیا اور آخر کار بچوں کی باری تھی۔ 30 نومبر تک یہاں تمام مریض ہلاک ہوگئے تھے۔ آخر کار، اسپتال کے کارکنوں کو بھی گیس چیمبر میں لاکر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کیمپ میں آنے پر، مریضوں کو نیچے لے جایا جاتا تھا جہاں سے انہیں کیمپ کے عقب میں دو گیس چیمبروں میں ڈال دیا جاتا تھا۔

پیارے نازی، اب تو یہاں بھی تم نے گیس چیمبر تعمیر کر لئے۔ پیارے نازی، ہم مسلمان ہیں ہے ہمیں نیند پسند ہے۔

ہٹلر اپنی کتاب میں ایک ایسے شخص کے طور پر بھی ظاہر ہوتا ہے جہاں تضاد ہی تضاد ہے۔ ایک ایسا شخص جو ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن گوشت نہیں کھاتا کیونکہ جانوروں کا قتل اس کے نزدیک ظلم ہے۔ کیا ہٹلر واقعی سبزی خور تھا؟ ہٹلر نے بتایا تھا کہ ایک مذبح خانہ دیکھنے کے بعد، اس نے گوشت کھانا ترک کر دیا۔ ہٹلر کے آدمی تازہ خون پر اپنے جوتے لے کر چلتے تھے۔

اس کہانی کو بھی چھوڑئیے۔ یاد کیجئے یہودی آج کہاں ہیں؟ کس مقام پر ہیں؟ سبزی کھانے والے خون کی سڑکوں پر چلتے تھے۔ آج بھی چل رہے ہیں۔ لیکن وہ گوشت بھی پسند کرتے ہیں۔ اور انھیں مسلمانوں کا گوشت تو بہت ہی پیارا ہے۔ کیونکہ سستا بھی ہے، لذیذ بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments