پاکستان میں ہر چار سال بعد طیارہ کیوں گرتا ہے؟


کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ کے قریب پی آئی اے کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ طیارہ ماڈل کالونی کے علاقے میں گرا ہے جس سے بعض گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ امدادی ٹیموں اور فائر بریگیڈ کے عملے نے ریسکیو کا عمل شروع کر دیا ہے۔ پی آئی اے ذرائع کے مطابق طیارے میں 99 افراد سوار تھے۔ طیارہ لینڈنگ سے ایک منٹ پہلے گر کر تباہ ہوا۔ طیارے کا لینڈنگ گیئر کام نہیں کر رہا تھا اور وہیل نہ کھلنے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ کنٹرول روم نے طیارے کو چکر لگانے کا کہا تھا۔

پاکستان میں تقریباً ہر چار سال بعد کسی نہ کسی مسافر طیارے کو حادثہ پیش آتا رہتا ہے۔ 2016 میں جب دنیا سات دسمبر کو ہوا بازی کا دن اور ہماری سول ایوی ایشن بھی اپنے معرض وجود میں آنے کی سالگرہ منا رہی تھی۔ عین اسی دن ہمارا ایک اے ٹی آر طیارہ حویلیاں کے قریب کریش ہو کر پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی کارکردگی کا پول کھول گیا تھا۔

سات دسمبر کے اس حویلیاں حادثے سے قبل پاکستان میں آخری فضائی حادثہ 20 اپریل سنہ 2012 کو پیش آیا تھا۔ نجی ائر لائن بھوجا ائر لائن کی پرواز لوئی بھیر کے قریب گر کر تباہ ہوئی تھی۔ اس میں 127 افراد سوار تھے۔

آج والے حادثے سے قبل کراچی ہی میں 28 نومبر سنہ 2010 کو ہوا تھا جس میں ایک چھوٹا طیارہ کراچی کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا اور اس حادثے میں 12 افراد مارے گئے تھے۔

بین الاقوامی فضائی حادثوں اور ہنگامی مواقع پر نظر رکھنے والے نجی دفتر، ’ائر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس‘ کے مطابق اس حادثے سے قبل پاکستان میں 35 ایسے حادثے ہوئے ہیں جن میں 705 افراد ہلاک ہوئے۔

پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ بھی اسلام آباد کے قریب 28 جولائی سنہ 2010 کو پیش آیا تھا جب نجی ائر لائن ائر بلیو کی پرواز مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی۔ اس میں 152 افراد سوار تھے۔

اس سے قبل دس جولائی سنہ 2006 کو سرکاری ہوائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن کا فوکر طیارہ ملتان ائر پورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں ہائی کورٹ کے دو جج، فوج کے دو بریگیڈیر اور بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔

پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز یا ابتدا میں پاک ائر ویز، کو گیارہ حادثے اندرون ملک ہی پیش آئے جن میں سے پانچ حادثے فوکر طیاروں کے تھے۔ سن 2006 میں ملتان کا فوکر طیارے کا حادثہ پی آئی اے کی تاریخ کا اندرون ملک سب سے جان لیوا حادثہ تھا جس کے بعد فوکر طیاروں کا استعمال بند کر دیا گیا۔

20 فروری سنہ 2003 کو کوہاٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے پاکستان ائر فورس کے فوکر طیارے میں اس وقت کے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ائر چیف مارشل مصحف علی میر سمیت 17 افسران مارے گئے تھے۔

پاکستانی فضائیہ کے لیے اب تک مال بردار طیارے ہرکولیس سی ون تھرٹی سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئے ہیں جن میں خصوصی کیپسول رکھ کر مسافروں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ہرکولیس سی ون تھرٹی کے چار حادثوں میں سے 17 اگست سنہ 1988 کو بہاولپور کے قریب پیش آنے والا حادثہ قابل ذکر ہے جو اس وقت کے صدر اور فوجی آمر جنرل ضیا الحق سمیت تیس اہم شخصیات اور فوجی افسران کی موت کا سبب بنا۔

پاکستانی سرزمین پر گزشتہ 63 برس میں غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے نو فوجی اور غیر فوجی مسافر بردار طیاروں کو حادثے پیش آئے۔

ان میں سے تین حادثوں میں افغانستان کے مسافر بردار طیارے گر کر تباہ ہوئے۔ 13 جنوری سنہ 1998 کو افغان ہوائی کمپنی آریانا ائر کا مسافر طیارہ خوژک پہاڑی سلسلے میں توبہ اچکزئی کے علاقے میں گرا۔ اس حادثے میں 51 مسافر ہلاک ہوئے اور یہ 28 جولائی سنہ 2010 سے پہلے تک پاکستانی سرزمین پر سب سے زیادہ جان لیوا فضائی حادثہ تھا۔

نو جنوری سنہ 2002 کو امریکی ائر فورس کا ہرکولیس سی ون تھرٹی بلوچستان کی شمسی ائر بیس کے قریب گر کر تباہ ہوا اور سات مسافروں کی موت کا سبب بنا۔ یہ پاکستان میں کسی غیر ملکی طیارے کا آخری حادثہ تھا۔

24 فروری سنہ 2003 کو ایدھی ائر ایمبولینس کا سیسنا 402 طیارہ کراچی کے قریب آٹھ مسافروں کی موت کا سبب بنا۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ائر ٹریفک کنٹرول کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2016 کے ایک ہی سال میں فضائی حدود میں طیاروں کے آمنے سامنے آ جانے کے واقعات سمیت طیاروں کے پھسلنے لینڈنگ کے وقت دوسرے طیاروں سے ٹکرانے کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ مارچ 2016 میں اسلام آباد چترال روٹ پر پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے کے سامنے پی اے ایف کا طیارہ آ گیا تھا۔ تاہم پی آئی اے کے پائلٹ نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طیارے کا رخ تبدیل کر دیا اور طیارہ حادثے سے بال بال بچ گیا تھا۔ پی آئی اے کی پرواز کے پائلٹ کو کے ٹی سی اے ایس سسٹم نے وارننگ دی تھی جس پر پائلٹ نے فوری طور پر طیارے کا رخ تبدیل کر دیا ورنہ ائر ٹریفک کنٹرول نے پی اے ایف طیاروں کی پروازوں کے بارے میں پی آئی اے کے پائلٹ کو پیشگی آگاہی نہیں دی تھی۔

اتھارٹی کی اس کوتاہی پر کسی کی کان پہ جوں تک نہیں رینگی لینڈنگ کے دوران طیاروں کے پھسلنے اور ٹکرانے سے متعدد مسافر زخمی بھی ہوئے تھے۔ مگر اس کا ذمہ اے ٹی آر طیاروں کو قرار دیا گیا کہ ان میں ہی کوئی مسئلہ ہے، یہ سرد موسم کے لئے بنائے گئے تھے۔ اس لئے پاکستان میں کامیابی سے نہیں چل پا رہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ طیارے 2007 میں فرانس سے لیے گئے تھے۔ پوری دنیا مانتی ہے کہ یہ محفوظ طیارے ہیں جب اتھارٹی نے غیر ملک سے ٹیم منگائی انہوں نے بھی طیاروں کو فٹ قرار دیا۔ موسم والی بات اٹھائے جانے پر ٹیم نے تسلی کی خاطر مختص گھنٹوں کے وقفہ میں کمی کر دی جس کے بعد انجن کے پرزوں کی سروس لازمی کرنی ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں جب کہیں کوئی کسی کمپنی نے سے مسافر بردار طیارے لیتا ہے تو حوالگی کے بعد بھی بیک اپ میں فاضل پرزہ جات، مینوئل، فنی خرابی اور دیگر مسائل کی صورت میں سپلائر کمپنی سے سروس لینے کے لئے ایک مکمل چین ٹیم ہوتی ہے۔ مگر ہم پاکستانی ان معاملات میں پڑنا پسند نہیں کرتے اس لئے اے ٹی آر سمیت اکثر طیاروں کی ڈیل میں ایسی کوئی بات شامل نہیں ہوتی۔

حالیہ تباہ شدہ طیارہ چائنہ سے لینے کی اطلاعات ہیں۔ چونکہ اے ٹی آر طیارہ قدرے چھوٹا ہوتا ہے تو کاروباری معاملات کے پیش نظر دنیا بھر میں اسے چھوٹے روٹ اور چھوٹے اسٹیشنز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ان چھوٹے طیاروں کو کارگو جہاز کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور ایسا کرنے سے نقصان ہوتے ہیں۔ ملتان میں سورج میانی حادثے کی بھی یہی وجہ تھی کہ صاحب لوگوں کی آم کی پیٹیاں غیر قانونی طریقے سے رکھ دی گئی تھیں۔

چھوٹے ائر پورٹس پر آپریٹرز پر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا بہت دباؤ ہوتا ہے اور اس لئے عملہ بغیر اندراج اور سیفٹی رولز کو فالو کیے زائد سامان لوڈ کر دیتے ہیں اور پھر جب ایک انجن فیل ہوتا ہے تو زائد سامان کی وجہ سے دوسرا انجن اکیلا وزن سہار نہیں سکتا دونوں انجن کے فیل ہونے پہ طیارہ حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج کے طیارے حادثے میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک انجن میں آگ لگی دیکھی تھی۔

سوال ہے کہ آج کے حادثے کے بعد کیا ہو گا؟ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سول ایوی ایشن طیارہ حادثہ کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم تو کر دے گی۔ مگر امید واثق ہے۔ اس کا حال بھی گزشتہ حادثوں کی تحقیقاتی رپورٹس جیسا ہو گا۔ وہی ایک قسم کی بات کہ انجن فیل ہونے پر عملہ بد حواس ہو گیا اور دوسرے انجن پر توجہ دینے کی بجائے خراب انجن کی بحالی پہ لگا رہا اور مناسب وقت پر مناسب اقدام نہ کرنے کی وجہ سے حادثہ ہو گیا۔

ایسا نہیں کہ باقی دنیا میں طیاروں کو حادثے پیش نہیں آتے باقی ملکوں میں بھی حادثات ہوتے ہیں۔ مگر وہاں اس کو قومی سانحہ قراردیا جاتا ہے۔ دنیا کی بہترین ائر کریش انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جاتی ہے جو جدید خطوط پر تفتیش کرتی ہے۔ حادثے کی اصل وجہ حالات اور ذمہ داران کا پتا لگایا جاتا ہے اور تفصیلاً تمام رپورٹ لواحقین سمیت ملک بھر کی عوام سے شیئر کی جاتی ہے کہ یہ ان کا حق ہے۔

مگر ہمارے ہاں وہی گھسی پٹی روایتی تفتیش کے بعد مرتب کی جانے والی رپورٹ سالوں بعد منظر عام پہ آتی ہے جس میں عموماً عملہ ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ باقی تفتیش ثبوت اور وجوہات کے متعلق کوئی تفصیل نہیں بتائی جاتی عوام بھی اس وقت تک سانحہ بھول چکی ہوتی ہے۔ لہذا بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ ذمہ داروں کے بچ جانے سے پھر نیا حادثہ نیا دکھ دے جاتا ہے۔ لہذا اس بار غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچنے میں مدد مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments