چین کا ہانگ کانگ کے لیے قومی سلامتی کا متنازع قانون کیا ہے اور یہ کتنا پریشان کن ہے؟


ہانگ کانگ

اس قانون کا مسودہ چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کے سالانہ اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا ہے جہاں عموماً کمیونسٹ قیادت کے فیصلوں کو بغیر کسی اعتراض کے منظور کر لیا جاتا ہے

چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی نے ہانگ کانگ کے لیے قومی سلامتی کا ایک متنازع قانون منظوری کے لیے پیش کیا ہے جسے ہانگ کانگ میں شہری آزادیوں پر کاری ضرب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یہ قانون غداری، علیحدگی، بغاوت اور خلل کے خلاف ہے اور اس کے ذریعے ہانگ کانگ کے مقامی قانون ساز نمائندوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ چین کی جانب سے ہانگ کانگ کو شہری آزادیاں دینے کے وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔

ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز کارکنوں نے اِس قانون کے خلاف عوامی احتجاج کی اپیل کی ہے۔ جمعہ کو شہر میں چین کے رابطہ دفتر کے سامنے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہانگ کانگ میں ہنگامے، مظاہرین کاپارلیمنٹ بلڈنگ پر حملہ

چینی صدر کی ’جسموں کے چیتھڑے اڑا دینے‘ کی دھمکی

ہانگ کانگ: احتجاج کے باعث معیشت تباہی کے دھانے پر

اس قانون کا مسودہ چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کے سالانہ اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا ہے جہاں عموماً کمیونسٹ قیادت کے فیصلوں کو بغیر کسی اعتراض کے منظور کر لیا جاتا ہے۔ تاہم یہ اجلاس سال کی اہم ترین سیاسی سرگرمی ہوتی ہے۔

ہانگ کانگ ایک نیم خود مختار خطہ اور معاشی سرگرمیوں کا گڑھ ہے۔ سنہ 1997 میں اسے برطانیہ سے چین کو منتقل کیے جانے کے بعد سے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس طرح کا کوئی قانون نافذ کیا جائے گا۔

ہانگ کانگ

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون چین کی جانب سے ہانگ کانگ کو شہری آزادیاں دینے کے وعدوں کی خلاف ورزی ہے

گذشتہ برس مسلسل اور پرتشدد احتجاج کے بعد اب چین کی کوشش ہے کہ طاقت کے استعمال کو قانون کی حمایت بھی حاصل ہو تاکہ مستقبل میں احتجاج کو روکا جا سکے۔

ہانگ کانگ کی مقامی حکومت نے کہا ہے کہ وہ چین سے تعاون کرے گی اور اس قانون سے شہری آزادیاں متاثر نہیں ہوں گی۔

مجوزہ قانون کیا کہتا ہے؟

چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کی سٹینڈنگ کمیٹی کے نائب چیئرمین وانگ چن نے قانون کی وضاحت کی ہے۔

اِس قانون میں سات آرٹیکلز شامل ہیں۔ آرٹیکل نمبر چار سب سے زیادہ متنازع ہو سکتا ہے۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ ہانگ کانگ کو اپنی نیشنل سکیورٹی کو ہر صورت میں بہتر کرنا ہوگا۔

جب ضرورت محسوس ہو گی تو مرکزی حکومت کے تحت ہانگ کانگ میں قانون کے مطابق ضروری ایجنسیوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا تاکہ قومی سلامتی سے متعلق کاموں کو انجام دیا جا سکے۔

کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیراعظم لی کیچیانگ نے کہا ہے ’ہم دونوں خصوصی انتظامی خطوں میں قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے مربوط قانونی نظام اور ان پر عمل درآمد کے طریقۂ کار نافذ کریں گے۔‘

ہانگ کانگ کے رہنما کیری لیم نے کہا ہے کہ اس قانون سے شہر میں غیر قانونی سرگرمیوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ کیری لیم کو چین نواز سیاستدان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

ہانگ کانگ

ہانگ کانگ ایک نیم خود مختار خطہ اور معاشی سرگرمیوں کا گڑھ ہے۔ سنہ 1997 میں اسے برطانیہ سے چین کو منتقل کیے جانے کے بعد سے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس طرح کا کوئی قانون نافذ کیا جائے گا

چین میں بی بی سی کے نامہ نگار روبن برانٹ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی سے متعلق اس قانون کی تشریح میں بہت گنجائش موجود ہے۔

نامہ نگار کے مطابق قومی سلامتی کا ایک نیا قانون چین کی دیرینہ خواہش تھی۔ چین سمجھتا ہے کہ مسلسل ایک برس تک ہونے والے زبردست احتجاج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس قانون کی اب جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔

لیکن ناقدین اس قانون میں موجود ابہام اور مجموعی تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسے قانون کا نفاذ ایسی جگہ پر مزید تنازع کا باعث بنے گا جس کی قانونی روایات چین سے بہت مختلف ہیں۔

غداری، بغاوت اور خلل جیسے الفاظ کی وسیع تشریح ہو سکتی ہے۔ اب تک مظاہرین نے جس سب سے سنگین الزام کا سامنا کیا ہے وہ ’فساد‘ ہے۔

اس قانون میں ’دہشتگردی‘ کا بھی ذکر ہے۔ اس کی تشریح بھی مختلف انداز میں کی جا سکتی ہے اور کئی سرگرمیوں کو دہشتگردی کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔

توقع ہے کہ نیشنل پیپلز کانگریس کے اختتامی سیشن میں اس قانون کے مسودے ہر 28 مئی کو ووٹنگ ہو گی۔

جس کے بعد اسے نیشنل پیپلز کانگریس کی سٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا جو اس پر حتمی فیصلہ کر کے جون کے اختتام پر اسے باقاعدہ قانون کی شکل دے گی۔

ہانگ کانگ

گزشتہ برس ہانگ کانگ میں احتجاج کا سلسلہ شروع اس وقت ہوا تھا جب ایک ایسا قانون منظور کرنے کی کوشش کی گئی جس کے تحت ہانگ کانگ سے لوگوں کو چین کے حوالے کیا جا سکتا تھا

قانون کے مخالفین کیا کہتے ہیں؟

ہانگ کانگ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہے۔ جمہوریت نواز کارکنوں کو خدشہ ہے کہ چین کی جانب سے اس قانون کے نفاذ کا مطلب ہانگ کانگ کا خاتمہ ہے یعنی خود مختاری اور شہری آزادیوں کا مکمل ختم ہو جانا۔

جمہوریت نواز کارکن جمی شام، جنھوں نے گزشتہ برس کے احتجاجی مظاہروں میں اہم کردار ادا کیا تھا، کہتے ہیں کہ ہانگ کانگ کو تباہ کرنے کی کوششوں میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے یہ سب سے بڑا ایٹمی ہتھیار استعمال کیا ہے۔

گزشتہ برس احتجاج کا سلسلہ شروع اس وقت ہوا تھا جب ایک ایسا قانون منظور کرنے کی کوشش کی گئی جس کے تحت ہانگ کانگ سے لوگوں کو چین کے حوالے کیا جا سکتا تھا۔

احتجاج کی وجہ سے پہلے تو قانون کو روک دیا گیا اور بعد میں منسوخ کر دیا گیا تاہم احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور دسمبر میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث رکا۔

امریکہ اور برطانیہ بھی ہانگ کانگ کے بارے میں چینی اقدامات کی مذمت کرتے رہے ہیں۔

چین ایسا کیوں کر رہا ہے؟

چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کی سٹینڈنگ کمیٹی کے نائب چیئرمین وینگ چن نے کہا ہے کہ سکیورٹی کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

ہانگ کانگ

اس متنازع قانون کے خلاف جمعے کو ہانگ کانگ میں چین کے رابطہ دفتر کے سامنے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا

چین کے سرکاری میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے بیان میں انھوں نے کہا ’ہانگ کانگ کی موجودہ صورتحال کے مدِ نظر ریاست کی سطح پر ایسے اقدامات ضروری ہیں جن سے وہاں قانونی نظام اور عمل درآمد کے طریقۂ کار بہتر ہوں۔‘

ڈسٹرکٹ الیکشنز میں اگر گزشتہ برس کی طرح جمہوریت نواز جماعتیں کامیاب ہو گئی تو حکومت کی جانب سے سامنے لائے جانے والے قوانین کی منظوری مشکل ہو جائے گی۔

دوسری جانب جمعے کو چین کے قومی ترانے سے متعلق ایک بل پر ہونے والے تنازعے کے دوران ہانگ کانگ کی قانون ساز اسمبلی سے کئی جمہوریت نواز ارکان کو باہر نکال دیا گیا۔

ہانگ کانگ کی قانونی صورتحال کیا ہے؟

سنہ 1997 سے پہلے 150 سال تک ہانگ کانگ برطانیہ کے زیرِ انتظام تھا۔ سنہ 1997 میں اس کا انتظام چین کو منتقل ہو گیا اور برطانیہ اور چین نے اس موقع پر ایک معاہدے پر دستخط کیے۔

معاہدے میں کہا گیا کہ خارجہ اور دفاع کے امور کےعلاوہ ہانگ کانگ کو اگلے 50 برس بڑی حد تک خود مختار حیثیت حاصل رہے گی۔

یہ قانون سنہ 2047 میں ختم ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp